احمد فراز

Ahmed Faraz

Ahmed Faraz

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
سلسلے توڑ گیاوہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوئہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع تو جلاتے جاتے

احمد فراز ١٩٣١ء میںبرق کوہاٹی کے ہاںپیداہوئے اور اردو شاعری کواوجِ کمال تک پہنچاکر٢٠٠٨ء ملک عدم سدھارگئے وہ چودہ شاعری مجموعے تنہا تنہا سے لے کر غزل بہانہ کروںتک انہوںنے تخلیق کیے وہ رومانی اور مزاحمتی شاعر تھے انھوںنے نوجوانوں کے دل ِودماغ کے قریب ہو کر شعر کہے اور لڑکیوںکے دل جیتے اور فکری پیکرتراشی کی وہ اکادمی ادبیات کے بانی سربراہ تھے سیداحمدشاہ جھنیںادبی دنیااحمدفرازکے نام سے جانتی ہے۔

Sher-o Adab

Sher-o Adab

انھوں نے شعروادب کی دنیا میں حکمرانی کی انھیں٩ اعلٰی اعزاز اور ٦ عالمی اعزاز سے نوازاگیاان کی غزلوںاور نظموںکو فلموںمیںپیش کیا گیا جس کی وجہ سے ان کے کلام کو شہرتِ دوام ملی انھیںملی ادبی مزاحمتی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلمی شاعر کے طور پر پذیرائی ملی کیونکہ انھوںنے فلموں میںبھی ادب متعارف کروایاانھوںنے آمریت کے خلاف لب کشائی کرنے پر جلاوطن بھی ہونا پڑا۔

انھوں نے اپنے کئی اعزاز اس لیے واپس کر دیئے کہ وہ آمریت کے دور میں دیئے گئے ان کا چہرہ کتابی ،نیم خوابی،ستواںناک،کشادہ پیشانی، یہ سب ذہانت کی نشانی تھے وہ شعر کہتے دریائے سخن میں بہتے اور تنہا تنہا اس کا بوجھ سہتے اور بارِسخن اٹھاکر خود کلامی کر تے اور شعر فہمی کو عام کرتے انھوںنے ترقی پسندی اور روشن خیالی کی چادر تانی اور جلاوطنی میںملکوںملکوںکی خاک چھانی اور فکرِوفن کو جلابخشی شہرتیں ان کاطواف کرتی رہیںاور شاعری کو دوام دیتی رہیںانھوںنے ادب کا بلند اقبال کیا دنیائے سخن کو مالامال کیا غزل کے حسن کو نکھارااور نظم کے فکری پہلو کر سنوارا وہ ناقدوںکے ناقداور ناقدین کی ضد تھے

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری