امریکہ ملا فضل اللہ کو نشانہ بنائے

 Mullah Fazlullah

Mullah Fazlullah

تحریر : سید توقیر زیدی
امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ خطرہ بننے والے دہشت گرد رہنمائوں کو امریکہ نشانہ بناتا رہے گا۔ امریکی افواج ضرورت پر افغان فورسز کا ساتھ دینگی۔ امریکی کمانڈر طالبان کیخلاف زیادہ موثر کارروائی کر سکتے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچے تھے۔ انہوں نے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ اور امریکی کمانڈر سے بھی ملاقات کی اور کہا فوج کو مزید اختیارات ملنے کے سبب امریکی فوجی آسانی سے طالبان پر حملے کرسکتے اور انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اشرف غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے انہوں نے کہا سینئر کمانڈر کو طالبان سے نمٹنے کیلئے مزید آزادی مل جائیگی۔ کارٹر نے کہا یہ بات اہم ہے کہ 2014 کے متنازعہ الیکشن کے بعد قائم ہونیوالی قومی اتحادی حکومت اب تک مستحکم رہی ہے۔ اشرف غنی نے حمایت جاری رکھنے اور مزید افواج تعینات کرنے پر امریکہ اور نیٹو کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں رہنمائوں نے پاکستان کے کردار پر بھی بات کی۔ ایشٹن کارٹر نے انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے جہاں تک ممکن ہوا پاکستان کے ساتھ کام کرنے پر زور دینے کے ساتھ یہ انتباہ بھی کیا کہ امریکہ اپنے شہریوں، مفادات اور دوستوں کیلئے ممکنہ خطرے کا باعث بننے والے دہشت گرد رہنمائوں پر دنیا بھر میں حملے جاری رکھے گا۔

اشرف غنی نے کہا پاکستان کو یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہے کہ اچھے اور برے دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کرے۔ دریں اثناء امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے امریکہ اب بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ بہت سے دہشتگرد گروپوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان ڈیورنڈ لائن کے قریب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کریں۔ اس سلسلہ میں دونوں مل کر کام کریں۔ ہم ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد سمجھتے ہیں۔

امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں نے تین لاکھ افغان فورسز کی تربیت کی اور ان کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرکے خود افغانستان چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ افغانستان میں اپنی علامتی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے دس بارہ ہزار فوجی تعینات رکھے گئے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر یلغار سے لے کر آج تک سرزمین افغاناں کی طرف سے کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب امن کی فاختہ نے اس ملک کا رخ کیا ہو۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کی تلاش اور انکی زندہ یا مردہ گرفتاری کیلئے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان سے جبری تعاون حاصل کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

Osama bin Laden

Osama bin Laden

اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد امریکہ کا افغانستان پر حملے کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ اسکے بعد اسے واپسی کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی مگر اسکے افغانستان پر تادیر تسلط برقرار رکھنے کے عزائم طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد نام نہاد جمہوریت کے قیام سے ظاہر ہو گئے تھے۔ ایشٹن نے 2014ئ کے انتخابات کو متنازعہ قرار دیا اور اس پر اظہار اطمینان ظاہر کیا کہ اسکے باوجود قومی حکومت مستحکم ہے۔ قبل ازیں حامد کرزئی بھی ایسے ہی بوگس اور متنازعہ انتخابات کے ذریعے دوٹرمز پوری کر چکے ہیں۔ امریکہ کو اپنے مقبوضات میں جمہوریت سے غرض نہیں’ اسے کٹھ پتلیوں کی ضرورت ہے’ افغانستان میں پہلے یہ مقصد حامد کرزئی اور اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ پورا کر رہے ہیں۔

امریکہ اور نیٹو فورسز کے انخلائ کے بعد ساڑھے تین لاکھ افغان فورسز ملک میں امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ طالبان کا افغانستان میں اثرورسوخ بڑھ رہا ہے’ عملی طور پر اشرف غنی انتظامیہ کابل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جن شہروں میں طالبان نے اعلانیہ قبضہ کیا’ وہاں امریکی طیاروں کو شدید بمباری کرنا پڑی۔ حالات اس حد تک بے قابو ہوئے کہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں اپنے ٹروپس کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیا۔ نیٹو نے دو ارب سالانہ کے فنڈز فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس پر اشرف غنی نے ممنونیت کا اظہار کیا ہے۔ ایسا کوئی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ جیسا ”محب وطن” ہی کر سکتا ہے اور پھر یہ افغانستان کے آزاد اور خودمختار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ماضی میں انگریزوں اور روسیوں سمیت کوئی بڑی قوت افغانوں کو زیر نہیں کر سکی۔ افغانستان ہمیشہ جارح قوتوں کا قبرستان ثابت ہوا ہے۔ امریکہ آج افغانستان سے مکمل انخلاء کر جائے تو اگلے روز افغانستان کے اکثریتی علاقوں پر طالبان قابض نظر آئینگے۔ اشرف غنی اپنے اقتدار کے دوام کیلئے اسی لئے امریکہ اور نیٹو فوجیوں کی تعداد میں اضافے پر اظہار تشکر کررہے ہیں۔ ساڑھے تین لاکھ امریکی تربیت یافتہ فوجیوں میں سے کسی کی حکومت کے ساتھ وفاداری پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے کئی طالبان کے ساتھ جا ملے اور کئی نے امریکہ’ نیٹو اور اپنے ہم وطن فوجیوں پر حملے کئے ہیں۔
اشرف غنی کا بہت بڑا اعتراض ہے کہ پاکستان’ طالبان کے ساتھ افغان انتظامیہ سے مذاکرات کرانے کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ بالکل بے بنیاد اور لغو بیان ہے۔

پاکستان نے متعدد بار طالبان اور افغان انتظامیہ کو ایک میز پر بٹھا دیا مگر بھارت کے ایماء پر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ افغان حکمران جہاں امریکی کٹھ پتلی ہیں وہیں بھارت کے پٹھو کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ بھارت پاکستان میں مداخلت کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتا ہے’ طالبان اور افغان انتظامیہ کے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ مذاکرات تبھی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں جب طالبان کو بھی اقتدار میں شامل کیا جائے۔ یہ امریکہ کو گوارانہیں ہوگا نہ اشرف غنی حکومت طالبان کو اقتدار میں شامل کرنے پر تیار ہے۔ طالبان کے ہاتھ سے پورا اقتدار گیا ہے’ اب ان کو اقتدار میں شامل بھی نہیں کیا جاتا تو امریکہ اور اسکے کاسہ لیس افغان حکمرانوں کے اقتدار کو استحکام بخشنے کیلئے طالبان کیونکر سرنڈر کر دینگے؟ اشرف غنی اور عبداللہ طالبان کو اقتدار میں شامل کرنے کا اعلان کریں تو پاکستان یقیناً طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کریگا’ دوسری صور ت میں مذاکرات بے سود ہونگے۔

 Ashton Carter

Ashton Carter

ایشٹن کہتے ہیں کہ امریکی فوج کو مزید اختیارات ملنے سے کمانڈروں کو طالبان کے ساتھ نبردآزما ہونے میں مزید آزادی مل جائیگی۔ کیا ایسی آزادی سے افغانستان میں امن قائم ہو جائیگا؟ چند سال قبل تک امریکی اور نیٹو افواج کے پاس تمام اختیارات اور کچھ بھی کرنے کی آزادی تھی مگر افغانستان میں امن کی صورتحال بدتر رہی۔ خطے کا امن افغانستان سے وابستہ ہے اور افغانستان میں امن طالبان کو آن بورڈ کئے بغیر ممکن نہیں ہے’ خواہ امریکہ صدیوں اس سرزمین پر یلغار جاری رکھے۔امریکہ اور افغان انتظامیہ پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہتے ہیں جبکہ پاکستان کو بجا شکوہ ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ طرفین کا شکوہ بارڈر سیل کرکے دور کیا جا سکتا ہے جسکی افغانستان کی طرف سے شدید مخالفت کی جاتی ہے۔

پاکستان نے دہشتگردوں کی سرحد کے آرپار آمدورفت روکنے کیلئے انٹری پوائنٹس پر گیٹ لگانے کی کوشش کی تو افغان حکمران آگ بگولہ ہو گئے۔ طورخم کے زیر تعمیر گیٹ پر تین دن فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا جس میں میجر جواد شہید اور 20 اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ افغان حکمران پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دیتے ہیں۔دو روز قبل پشاور حملے کا ماسٹر مائنڈ عمر نرے عرف خلیفہ عمرمنصور افغانستان کے اندر سرحد پر امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ امریکی وزیر دفاع نے دہشتگردوں پر ہر جگہ حملے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان سے بھاگے ہوئے ملا فضل اللہ جیسے کئی دہشتگرد افغان حکومت کی پناہ میں ہیں’ امریکہ ان کو نشانہ بنائے۔ اگر امریکہ کے بقول پاکستان میں امریکی مفادات کیخلاف کام کرنیوالے عناصر موجود ہیں تو انٹیلی جنس شیئرنگ معاہدے کے تحت امریکہ انکی نشاندہی کرے۔ پاکستان کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے پاکستان انکے خاتمے کیلئے ان ڈرونز کا بھرپور استعمال کریگا۔

امریکہ عالمی قوانین اور پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں پاکستان میں ڈرون اٹیک کرکے نہ اڑائے۔ جان کربی نے درست کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ دہشتگرد گروپوں کا ٹھکانہ بنا ہوا ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان اپنے علاقے میں ان دہشتگردوں کیخلاف اپریشن ضرب عضب جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ افغان حکومت دہشتگردوں کو تحفظ دیتی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کا پالیسی ساز کا کردار ہے۔ اشرف غنی جیسے لوگوں کو اپنے اقتدار کے دوام سے غرض ہے۔ امریکہ پاک افغان بارڈر سیل کرادے تو پاکستان کو اپنے علاقے میں دہشتگردوں کے خاتمے میں آسانی رہے گی جبکہ پاکستان کو مطلوب افغانستان میں موجود دہشتگردوں کا بمباری اور امریکی ڈرون حملے کے ذریعے خاتمہ کردے اور افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے طالبان کیساتھ خلوص دل سے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی