امریکا غلاموں کی ترجیحات کو اہمیت کیوں دے

Drone Attack

Drone Attack

تحریر: سعیداللہ سعید
بدھ 24 جنوری کو امریکا کی جانب سے پاکستان کے علاقے ہنگو، سپین ٹل میں واقع افغان مہاجر کیمپ پر ڈرون حملہ کر دیا ۔ مغربی میڈیا کے مطابق حملے میں حقانی نیٹ ورک کے دو کمانڈر ہلاک ہوگئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپین ٹل ہنگو کا وہ علاقہ ہے جہاں اورکزئی اور کرم ایجنسی کی سرحدیں بھی آپس میں ملتی ہیں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ مذکورہ ڈرون حملہ کوئی پہلا حملہ نہیں بلکہ مشرف دور سے ایسے حملے تواتر کے ساتھ ہوتے آرہے ہیں۔ پاکستان نے اگر چہ حسب روایت اس ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملکی خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ ایسے حملوں میں اکثر پاکستان کی مرضی شامل ہوتی ہیں۔آفسوسناک امر یہ ہے کئی ٹھوکر کھانے اور گہرے چوٹ لگنے کی باوجود بھی پاکستانی حکام امریکا کی غلامی کو اعزاز سمجھتے ہیں۔پچھلے دنوں امریکی صدر کی جانب سے یہ طعنہ کہ پاکستان نے پندرہ سالوں میں33ارب ڈالر ”ہڑپ ” تو کردیئے لیکن وہ تعاون نہیں کیا جس کے ہم متمنی تھے۔ مسٹر ٹرمپ کے واضح کیا کہ ”قبلہ” درست کیے بغیر پاکستان مزید ”بخشش” کی امید نہ رکھے۔ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان کو اہل وطن کے جوتے کے نوک پر رکھتے ہوئے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی کیونکہ اہل وطن کو معلوم ہے کہ امریکا نے جو امداد بھیک کی شکل میں پاکستان کو دیا ہے وہ آٹے میں نمک کا برابر بھی نہیں۔ اس کے برعکس وطن عزیز کو جو معاشی دھچکہ لگا ہے وہ یقیناً ناقابل برداشت ہے۔ جانی نقصان کی اگر بات کی جائے تو یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ابھی تک امریکہ اور ان کے تمام فطری اتحادیوں نے ملکر بھی وہ نقصان نہیں اٹھایا جو پاکستان اٹھا چکا ہے۔ اس بات کا اعتراف آزاد ذرائع کے علاوہ حکومت وقت کے بعض اہم آفسران و شخصیات کے علاوہ ماضی کے حکومتوں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہنے والے شخصیات بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔

مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ کا بیان اب ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے ،جس میں موصوف کہتے ہیں کہ امریکہ ہندوستان کا ہمنوا جبکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور سی پیک پر معترض ہے۔ آفسوسناک بات اور شرم کا مقام تو یہ ہے کہ امریکہ کے دوستی نے وطن عزیز کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے پالیسی سازوں کو ہمت نہیں کہ وہ درست سمت کا تعین کرسکے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دوسروں کی خود مختاری کو پامال کرنے والے ملک کی قانون ساز ادارے میں یہ نکتہ زیر بحث لانا بھی خلاف آئین ہے کی ا’مریکی حدود میں بھی کوئی ایسا حملہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ میڈیا رپوٹ کے مطابق امریکہ خود اپنی حدود میں اپنی مسلح افواج کو اس لیے ایسے کسی حملے کا اجازت نہیں دیتا کہ عام لوگ اس کے زد میں آسکتے ہیں۔

دوسری طرف عالم یہ ہے کہ امریکا جب چاہتا ہے پاکستان پر حملہ کرکے درجنوں لوگوں کو خون میں نہلا دیتا ہے لیکن اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔حالانکہ ڈرون حملے دنیا کے کسی بھی قانون میں جائز نہیںاور ناہی کوئی اس کے جائز ہونے کا توجیہہ پیش کرسکتا ہے۔ 2013میں واشنگٹن میں انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہدیا تھا کہ ڈرون حملے صریح طور پر عالمی و انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ایسے حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ انسانی حقوق کے تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے رو سے بھی ایسے حملوں کا کوئی قانونی جواز نہیں ۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکہ کا اپنا حال یہ ہے کہ اب تک ڈرون حملوں سے وہ جنازوں، شادی کی تقریبات، مساجد، مدارس اور سکولوں کے علاوہ عام آبادی کو بھی بلاامتیاز نشانہ بنا چکے ہیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کو انسان عزیز ہے اور ناہی انسانی حقوق۔ دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ جس ملک کو امریکہ مسلسل نشانہ بنا رہا ہے وہ ایک ایٹمی ملک ہے ، جس کے پاس دنیا کی نمبر ایک انٹیلیجنس ایجنسی اور ایک طاقتور فوج موجود ہے۔ ایک ایسی فوج کہ جس کے فضائیہ کے سابق سربراہ رائو قمر سلیمان 2010میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ بتاچکے ہیں کہ اگر حکومت اجات دے تو ہماری فضائیہ امریکی ڈرون کو مارگراسکتی ہے۔کچھ اس قسم کی بات سابق آرمی چیف راحیل شریف سبکدوش ہونے سے پہلے پارلیمنٹ کے مشترکہ کو بتا چکے ہیں کہ پاکستان ڈرون کو مار گرا سکتا ہے۔

دسمبر 2017کو پاک فضائیہ کے موجودہ سبراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” ہم نے امریکہ کو بتادیا ہے کہ اب اگر ڈرون پاکستان کے حدود میں گھس آئے تو ہم اسے مار گرائیں گے” فضائیہ کے سربراہ کے اس بیان کے بعد اہل وطن مسرور تھے کہ کم از کم اب امریکہ ڈرون حملے کرنے کا جرات نہیں کرے گا۔ لیکن صد آفسوس کہ امریکہ نے میزائل داغ دیے اور ہمارے حکمران عملی اقدامات کرنے کیبجائے زبانی گولہ باری پر اکتفاء کیے ہوئے ہیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا کہ مسند اقتدار پر بیٹھے حکمرانوں کو انسانی جانوں سے زیادہ ڈالر عزیز ہے۔ وہ ڈالر جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارا امیج ایک بھکاری سے زیادہ نہیں اور بھکاری کی بات پر زیادہ دھیان کون دیتا ہے؟۔

دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ امریکی امداد حکمرانوں کے کا م تو ممکن ہے آیا ہو لیکن وطن عزیز کو اس سے کوئی فائد نہیں ہوا۔ محسن پاکستان ،پاکستانی ایٹم بم کے خالق محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان 15 جنوری کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم بعنوان ”امریکی امداد اور ہم” لکھتے ہیں”ٹرمپ نے کہا کہ 15 پندرہ برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو 33بلین(ارب) ڈالر کی امداد دی یہ وہ امداد تھی یا قیمت تھی جس میں ایک ڈکٹیٹر نے اس ملک کی خودداری امریکہ کو فروخت کردی تھی جبکہ سرکاری اداروں نے اس 33بلین ڈالر کی رقم پر بھی شک و شبہ کا اظہار کیا ہے اور کہتے ہیں کہ 22,21بلین ڈالر کی امداد تھی۔

اگر بفرض محال یہ قبول بھی کرلیں کہ 33بلین ڈالر ملے تھے تو یہ بمشکل سوا دو بلین ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔ اب آپ کی خدت میں دوسرے اعداد و شمار پیش کرتا ہوں۔ ہمارے محب وطن پاکستانیوں نے ان پندرہ برسوں میں 157.44 بلین ڈالر پاکستان بھیجے ہیں ابھی جو 2017ختم ہوا ہے اس میں انہوں نے 19.30بلین ڈالر بھیجے ہیں اور آپ کو علم ہی ہے کہ ان محبان وطن سے ہمارے بعض نااہل راشی افسران کتنا ذلیل سلوک کرتے ہیں” قارئین کرام خان صاحب کے انہی باتوں پر کالم کا اختتام کرنا چاہوں گا کہ اب صفحہ مزید اجازت نہیں دے رہا، بس آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ امریکہ کا ساتھ دینا نہ کل پاکستان کے مفاد میں تھا، نا آج ہے اور نا ہی کل ہوگا۔ امریکی دوستی کا کوئی فائدہ حکمرانوں کو ہواہو، تو ہوہو البتہ عوام نے تو ہمیشہ نقصان ہی اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ کہ وہ ہمیں نیک اور صالح قیادت نصیب فرمائے۔ آمین۔

saeedullah saeed

saeedullah saeed

تحریر: سعیداللہ سعید
saeedullah191@yahoo.com
cell:0345 29 48 722