چھرا مار۔۔۔۔ یا آوارہ

Knife Attack

Knife Attack

تحریر : عبدالجبار خان دریشک
آج کل کراچی میں ایک چھر مار نے خوف حرص پیدا کر رکھا ہے جو اپے سے باہر ہو گیا راہ چلتی خواتین پر چھرے سے وار کر کے فرار ہو جاتا ہے کہ پیر کے نشان تک نہیں چھوڑ رہا پولیس مسلسل اس کی تلاش میں لگی ہوئی ہے پر تا حال پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے دوسری طرف میڈیا نے اس چھر مارکی عدم گرفتاری پر بار بار خبریں چلا کر مزید خوف حرص میں آضافہ کرہا کرردیا ہے جس سے چھر مار کی شہرت میں آضافہ ہوتا جارہا ہے چھرا مار بھی میڈیا کی خبروں پر نظریں جمائے ہوئے ہوگا کہ دن میں کتنی مرتبہ میری خبر نشر ہورہی ہے چھرا مار کی ابتک کی کاروائیوں سے لگتا یہی ہے اس کو اتنی ہی شہرت درکار تھی جتنی اسے مل چکی ہے اور شاید اس کی اوقات سے زیادہ میڈیا نے اس کا نام بنا دیا ہے اب میڈیا کی مہر بانی سے اس کے سر پر انعام بھی لگ چکا ہے ادھر خواتین کافی خوف زدہ ہیں جوکہ گھروں میں محصور ہو کر رہے گئی ہیں حالانکہ اس کے خوف سے بچاری خواتین شاپنگ کرنے بھی نہیں جاتی ہیں۔

خواتین بہت حساس ہوتی ہیں اگر ہمت کریں تو بندوق اٹھا کر دشمن کا خوب مقابلہ کر سکتی ہیں گھریلو حالات جیسے بھی ہوں ان کا مقابلہ بہتر انداز میں کرتی ہیں مشکل سے مشکل حالات میں پورے کنبے کو سنبھال لیتی ہیں اگر ڈر جائیں تو چپکلی سے ڈر جاتی ہیں اور تقریباً ساری خواتین ہی چپکلی جیسی چھوٹی چیز سے خوف کھا جاتی ہیں صرف چپکلی ہی نہیں چند عام چیزوں سے ویسے ہی قدرتی طور پر خوف زدہ رہتی ہیں آوارہ….. کتوں کو ہی لے لیں یہ بچاری ان سے ہمیشہ خوف کھاتی ہیں جب بھی گلی میں آوارہ کتے ہوں تو بچاری گھر سے اکیلی باہر نہیں جاتی ہیں کہ کہیں کوئی آوارہ کتا کاٹ نہ لے آگر کاٹے بھی نہ صرف بھونک دے تو وہ بھی پریشانی کی بات ہے کیونکہ کتے کے بھونکے کی آواز دور تک جاتی ہے پھر سب سوال کرتے ہیں کہ تمہیں وہ کتا کیوں بھونک رہا تھا خیر اب انتظامیہ نے آوارہ کتوں کو کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے جو ایک خوش آئین بات ہے کیوں ہر ٹی ایم اے کے پاس کتے تلف کرنے کا بجٹ ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کتے مارنے کے بجٹ سے کتے نہیں مارے جاتے بلکہ کتے ہمیشہ ٹرک اور بس کی زد میں آکر مرتے ہیں اس لئے تو کتوں کو مارنے والا بجٹ کسی اور کام…… میں لگا دیا جاتا ہے۔

بات ہورہی تھی چھر مار کی تو کتوں کا ذکر اس لئے کرنا پڑا کہ آوارہ کتوں کی شدید کمی محسوس کرتے ہوئے ….. جان کی امان …محترم چھر مار نے آوارہ کتوں کی ڈیوٹی سرانجام دے دی ہے کیونکہ چھرا مار اور آوارہ کتوں کے کام میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے کتے کاٹ کر زخمی کرتے ہیں اور یہ چھرے سے وار کر کے مقصد دونوں کا ایک ہے زخمی کر کے خوف پھیلانا ہے اب چھر مار ٹھیک آوارہ کتوں کی طرح کررہا جیسے وہ ایک دو لوگوں پر بھونک دیتے ہیں ایک دو کے پیچے لگ گئے ان کو دور تک چھوڑ آیا تاکہ کتے کی دہشت بنی علاقے میں بنی رہے پھر وہی آوارہ کتا کسی گلی کے نکڑ پر بیٹھا اپنی اجارداری قائم کر کے سب آنے جانے والوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے ان میں سے جو کمزور نظر آتا ہے اس پر بھونک دیتا ہے یہ کتا عموماً فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے کہ کسی ایسے پر نہ بھونک دے کہ کہیں وہ ڈرنے کی بجائے الٹ اینٹ کا ٹکرا سر میں نہ مار دے۔

اب یہ چھر مار مختلف قسم کی سیریل کلرز اور پراسرار لوگوں کی کہانیاں پڑھ کر ان جیسا بننا چاہتا ہے کہ مجھے بھی ان جیسی شہرت مل جائے لیکن یہ مشکل ہے میں نے کبھی مشہور آوارہ کتے کی کہانی نہیں پڑھی یہ چھرا مارا اپنے آپ کو لندن کا پراسرار کلر جیک دی رپر ‘ امریکہ کا جان وین گریسی’ چارلس سوبھراج. سو بچوں کا قاتل جاوید اقبال خواتین کا قاتل مولوی انور اور 90 کی دہائی میں ہتھوڑ گروپ جیسا بننا چاہتا ہے تو اس کی خام خیالی ہو گی پہلے تو یہ ان کے انجام کو پڑھ لے دوسرا ہماری پولیس رینجرر اور فوج اسے کہیں نہ کہیں ایک دن جلد دبوچ لے گی۔

اگر مختلف سیرکلرز کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ سب کے سب نفسیاتی مریض تھے اگر وہ ذہین بھی تھے تو وہ اپنی ذہانت کا استعمال منفی انداز میں کرتے رہے وہ آہستہ آہستہ جرم کی طرف آتے رہے اور ایک دن بڑا قدم اٹھا بیٹھے ایسے لوگ دراصل ہمیشہ دڑپوک ہوتے ہیں جن میں قوت فیصلہ کی ہمت نہیں ہوتے یہ لوگوں کے سامنے مثبت قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں کہ ناکامی ہوئی تو کیا کریں گے پر تنہائی میں اکیلے چھپ کر یہ بڑا قدم اس لئے اٹھاتے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھ نہیں رہے ہوتے یہ لوگ ڈرپوک ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے سائے بھی ڈر جاتے ہیں بنیادی طور پر یہ لوگ خفیہ طور اور منفی کام کیوں سرانجام دیتے ہیں اس کے برعکس لوگوں کے سامنے آسان مثبت کام کیوں نہیں کرتے ؟ اس بات کاجواب یہ ہے ایسے لوگوں کا بچپن بہت تاریک ہوتا ہے جس سے یہ ساری زندگی خوف زدہ رہتے ہیں اور وہ اس تاریک ماضی کا بدلہ کسی نہ کسی صورت میں لینا چاہتے ہیں ان کی تربیت کچھ ایسے ماحول میں ہوئی ہوتی ہے جہاں ہر وقت ماحول تشدد زدہ ہوتا ہوگا یعنی گھریلو جھگڑے بڑوں کی مار پیٹ خاص کر میاں بیوی کی لڑائی جوکہ بچوں کی ذہینی پرورش پر بہت اثر انداز ہوتی ہے یا پھر باہر کا ماحول جس میں ان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح جنسی یا جسمانی تشدد ہو چکا ہو جب یہ بڑے ہوتے ہیں اور خود مختیار و طاقت ور ہوتے ہیں تو یہ اپنی ساری مثبت سرگرمیوں کو منفی میں تبدیل کر لیتے ہیں۔

یہ چھرا مار ایسی نفسیات کا مالک نہیں اور نہ ہی اس کی کاروائیوں سے لگتا ہے کہ یہ کوئی نفسیات مرض میں مبتلا ہے اگر اس کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ بھی ہے تو اتنی شدید نوعیت کا نہیں عام گھریلو جھگڑے وغیرہ جس کو یہ حالیہ وار داتوں سے پہلے فیس کر چکا ہو گا ہو سکتا ہے اس کی بیوی طلاق لے گئی ہو آشنا کے ساتھ فرار ہو چکی ہو یا منگتر نے منگنی توڑ لی ہو اس کے علاوہ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے اس کی بیوی یا بہین نوکری کرنا چایتی ہو جن کو وہ خود منہ سے روکنے کی بجائے ایسی کچھ واردتیں کر کے خوف حرص پھیلا کر ڈرانا چاہتا ہو یہ چھر مار کوئی آوارہ ٹائپ آدمی ہے جو اپنی شوشا قائم رکھنے کے لئے آوارہ کتے کی جگہ ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے جس کو میڈیا نے ایسے ہی شہرت دے رکھی ہے اللہ کرے پولیس کو جلد اس کی گرفتاری میں کامیابی ملے تو سب صورت حال سامنے آجائے گی کہ یہ کتنے پانی میں تھا اس کے سر پر انعام خوامخواہ لگایا گیا ہے ایسے آوارہ کتے ٹائپ لوگوں پر انعام نہیں لگایا جاتا یہ خود کسی ٹرک کی زد میں آکر مرتے جاتے ہیں۔

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک
A.jabbardrishak@gmail.com