بانجھ ہوتی نسلیں

Sad Couple

Sad Couple

تحریر : محمد عبداللہ خالد القروشی
آج کے تیز رفتار زمانے نے ہر چیز میں ایک سرعت بھر دی ہے۔کتنے ہی امور وقت سے پہلے وقوع پذیر ہونے لگ گئے ہیں۔ اِس زمانے کے بچے کمال کی ذہنیت لے کر پیدا ہورہے ہیں۔۔۔ شارپ مائنڈ معصوم ،ننھی عمر میں ہی اْن چیزوں میں مہارت حاصل کرتے جارہے ہیں جو ہم لوگ بیس پچیس برس کی عمر میں بمشکل سمجھ پائے۔ ساتھ ہی آج کی نسل وقت سے پہلے بہت سی معلومات رکھتی ہے۔۔۔ گزشتہ نسل کے بچے جس عمر میں چابی کے کھلونوں سے کھیلتے تھے، آج کا بچہ کیبل ، ڈش اور انٹرنیٹ کے بے لگام استعمال کے مارے اْس عمر میں چابی کے ٹیکوں کا صحیح مفہوم سمجھنے لگ گیا ہے۔ پھر وجوہات سے قطع نظر، نئی نسل کی اکثریت بارہ برس کی عمر میں بلوغت کی حدود کو پار کر رہی ہے ۔۔۔ بلوغت کی یہ کم از کم عمر ہے جو قدیم فقہاء نے اپنی کتابوں میں لکھی(اسبابِ بلوغ کی بناء پر موجودہ دور میں اس سے قبل بھی امکان ہے)۔اس بارہ برس کی عمر میں بالغ ہونے والے بچے کا نکاح اٹھائیس تیس برس کی عمر میں کرواتے ہیں۔ گویا بلوغت کے بعد وہ سولہ اٹھارہ سال نکاح کی فطرتی خواہش کو سینہ میں دبائے زندگی گزارتا ہے۔بالکل ابتداء میں تو اس خواہش کا ایسا کوئی خاص زور نہیں ہوتا، لیکن سات آٹھ برس گزر جانے کے بعد یہ ایک لاوے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔

آپ بیس بائیس برس کے جوان سے پوچھیے، ’’شادی کیوں نہیں کرتے‘‘۔ ایک طبقہ تو اپنے معاشرہ کو بے نقط کی سنائے گا، جس میں اس کے ماں باپ بھی عموما شامل ہوا کرتے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اس سوال کے جواب میں ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بات کا رخ پھیر دے گا۔ یہ طبقہ معاشرہ کو پہچان چکا ہے ، اپنے ماں باپ کی ’ناک‘اور خاندان کے طعنے اس پر عیاں ہیں۔۔۔ یہ دونوں طبقے اپنی زندگی ، پاک دامنی کے ساتھ گزارنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جِس میں نجانے کب وہ ہار مان جائیں، اور ایسی راہ میں گم ہوجائیں جہاں سے وہ خود کو بھی پھر ڈھونڈ نہ پائیں۔یہ جوان اپنی پاک دامنی کے لیے ایسی ایسی دعائیں مانگتے ہیں کہ لکھ دوں تو چند لمحے کے لیے آپ کی روح تک کانپ کر رہ جائے ۔مزید یہ کہ اس دباؤ میں ان کے ذہن زنگ آلود ہو رہے ہیں، ان کی خداداد صلاحیتوں کے جنازے نکل رہے ہیں، وہ چڑچڑے ہو رہے ہیں ، اور جلد ہی باغی بھی ۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو اس سوال کے جواب میں بھر پور اطمینان کے ساتھ جواب دے گا،’’ابھی شادی کی ضرورت ہی کیا ہے بھائی۔‘‘ آپ اس نوجوان طبقہ کی شرافت کے شادیانے مت بجائیے۔

اگر آپ کا بیٹا اس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے ، تومعذرت کے ساتھ وہ اپنی ضرورتیں اطمینان کے ساتھ بر وقت پوری کر رہا ہے، لہٰذا اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ساتھ ہی وہ بچپنے سے ذہن میں آپ کا سمجھایا ہوا، ’ناک‘ کٹنے کا خوف بھی لیے ہوئے ہے ، جس کی حفاظت اس کے نزدیک عفیف زندگی سے بلا شبہ اہم ہے۔۔۔ اِس بات کو بدگمانی سمجھنے سے پہلے ذرا تحقیق ضرور کر لیجیے گا۔ اگر آپ اپنی اولاد کی ہمہ وقت موبائل پر تھرکتی انگلیوں کا اشارہ نہیں سمجھتے، موبائل کان سے لگائے گھنٹوں کی چہل قدمی کا مطلب آپ کو نہیں معلوم ، تو نجانے کیوں آپ خود کو والدین جیسے عالی منصب پر فائز سمجھتے ہیں۔ آپ کی بچیاں کسی اور کے جہیز کی مانگ میں نہیں، آپ کی ہی لاتعداد ناجائز خواہشات اور بیہودہ رسم و رواج کے بھینٹ چڑھتی ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی بیٹی بہت شریف ہے اور اس کو شادی کی کوئی خواہش نہیں، توگویا آپ کے نزدیک شادی بدمعاشوں کا کھیل ہے؟ یہ آپ کی بیٹی کی شرافت ہی ہے کہ اِس کڑھن میں بھی وہ آپ کا ساتھ دے رہی ہے اور چپ چاپ سب کچھ برداشت کیے جارہی ہے ۔۔۔ ویسے بھی لڑکیوں کا سن بلوغ لڑکوں سے پہلے آجایا کرتا ہے۔

Girl Using Internet

Girl Using Internet

آپ کسی مصروف دارا لافتاء کے متعلقین سے پوچھیے ، وہ بتائیں گے کہ بالاخر شریف زادیاں خاندان کے سامنے ہی آپ کا ’ناک ‘ اونچا رکھ پاتی ہیں اور خلوت میں ’ناک ‘ خاک میں ملانے کی ندامت لیے یہاں آتی ہیں۔ قانون تو شاید ان کے اس گناہ کی آپ کو کوئی سزا نہ دے ، لیکن وہ قیامت کے روز خودضرور آپ کا گریبان پکڑ لیں گی کہ ’ابا! آپ کے پڑھے لکھے چوڑی کمائی والے لڑکے کی تلاش نے مجھے پاک دامن بھی نہ رہنے دیا‘ یہ تو وہ ہیں جو شمار میں آگئیں ، باقی جو ندامت کے باوجود کسی کے علم میں نہ آسکیں یا پھر آپ کے فراہم کردہ بے لگام انٹرنیٹ اور کیبل ،ڈش نے آزاد خیال یا باغی بنا دیا ہو، ان کا اعداد و شمار کسی کے پاس نہیں۔ اور پھر آپ کی خطا یہی نہیں، بلکہ دونوں سمتوں میں آپ اپنے لیے دنیوی و اخروی عذاب خود کاشت کر رہے ہیں۔۔۔ ایک طرف لڑکیوں کو اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے اپنے مزعومہ ذہنی معیارات کے رشتے تلاش کرنے میں گھر بٹھا کر بوڑھی کر رہے ہیں ۔۔۔ تو دوسری طرف ان لڑکیوں کی پہلی شادی کے چکر میں ان سے پانچ سات سال بڑے بھائیوں کو بھی کنوارا بوڑھا کر رہے ہیں۔۔۔ کیوں کہ آپ کے خیال میں اگر بڑے بھائیوں کی پہلے شادی کر دی تو چھوٹی بہنوں کی شادی نہیں ہو پائے گی۔۔۔

آپ اپنی خودغرضی میں یہ مگر نہیں سوچتے کہ اگر سب والدین یہی سوچیں کہ پہلے لڑکیوں کی شادی کریں اور کئی کئی سال بڑے لڑکوں کو ان کے چکر میں بٹھائے رکھیں تو کیا لڑکیوں کے لیے لڑکے آسمان سے اتریں گے؟! کرنے کا کام یہ ہے جو شریعت ہمیں بتاتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی سرپرستوں کو حکم دیتے ہیں ،’’تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں )کا اس وقت نکاح نہ ہو، اْ ن کا نکاح کراؤ‘‘، پھر ایک جملہ کے بعد ہم جیسے بھوک کے مارے مرجانے کا خدشہ رکھنے والوں کو اطمینان دلایا کہ،’’اگر وہ تنگ دست ہیں، تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا۔‘‘ مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ ، ’ فی الحال ‘جو نکاح کی استطاعت رکھتے ہوں ، ان کا نکاح اس خوف کے مارے مؤخر نہیں کرنا چاہیے کہ شادی کے بعد بڑھتے اخراجات سے کہیں بالکل مفلس ہی نہ ہو کر رہ جائیں، بلکہ اللہ ان کو ایسی پریشانیوں سے بے نیاز کردے گا۔ہاں البتہ جو ’فی الحال‘ بھی استطاعت نہیں رکھتے ، ان کے لیے اگلی آیت میں فرمایا گیا،’’ اور جن لوگوں کو نکاح کے مواقع میسر نہ ہوں،ان کو چاہیے پاک دامنی کے ساتھ رہیں، حتی کہ اللہ اْن کو وسعت عطا فرمادے۔‘‘یہاں تک تو ہم قرآن کی بات مانا کرتے ہیں، کہ ’فی الحال ‘ ہمارے بچے نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے۔کیوں کہ ہمارا معاشرہ کہتا ہے کہ لڑکے کی شادی آٹھ سے بارہ لاکھ میں ہونی چاہیے۔

جبکہ لڑکی کی شادی بارہ پندرہ لاکھ سے کم میں کردی تو خدا کی قسم قیامت ٹوٹ پڑے گی۔صرف ایک دن کے ہال کا خرچہ کم از کم پانچ لاکھ لگا لیجیے، اس کے بعد اپنی’ ناک ‘ کے لیے جتنی رسمیں بڑھاتے جائیں ،اسی لحاظ سے خرچہ کو ضرب دیتے جائیے ۔۔۔ البتہ لوگوں نے آپ کے کھانے اور رسموں میں کیڑے پھر بھی نکال لینے ہیں۔ لیکن رکیے! اس ’فی الحال ‘ استطاعت کا مطلب بھی شریعت سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟۔ فقہاء فرماتے ہیں کہ ’فی الحال‘ استطاعت یہ ہے کہ لڑکا مہر کی اتنی رقم دے سکتا ہو، جس قدررقم اْن کے ہاں فوری ادا کی جاتی ہے، مزید یہ کہ وہ ’نفقہ ‘دینے کی قدرت بھی رکھتا ہو۔ بلکہ بعض نے تو یہاں تک فرمایا کہ بس نفقہ دے سکنے کی ’صلاحیت‘ ہی کافی ہے،مطلب کوئی ہنر آتا ہو یا سیکھ رہا ہو، اسی طرح تعلیم کا حامل ہو یا ابھی حاصل کر رہا ہو کہ بعد میں وہ نفقہ دے سکے۔نفقہ کو آپ آسان الفاظ میں روٹی ، کپڑا ، مکان سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

Nikah

Nikah

امید ہے کہ آپ فائیو سٹار کی روٹی، گل احمد کا کپڑااور بحریہ ٹاؤن کا مکان مراد نہیں لیں گے۔ گوکہ اگر آپ یہ مراد نہ لیں تو ’لوگ‘ کیا کہیں گے۔ فطری جنسی خواہش کو پورا کرنا نکاح کا ایک ضمنی مقصد ہے، لیکن ذکر اِس لیے پہلے کر نا پڑا کہ یہی فساد کی جڑ بنا ہوا ہے۔ یہی وہ محرک ہے جو آپ کے بیٹے کی نگاہ ِبد غیر کی عورت پر ڈلواتا ہے، اور غیر کے لڑکے کی نگاہ ِبد آپ کی عورت پر۔یہی محرک فحاشی و عریانی کے اڈوں کی کفالت کرتا ہے۔ یہی محرک جب انتہا کو پہنچتا ہے تو مشرق کی با حیا بیٹی ،حیا کی چادر سے تنگ آتی ہے۔دراصل نکاح کا اصل مقصد توالد و تناسل ہے ۔۔۔ ایک بڑا خاندان فخر کا باعث ہے،اولاد باپ کے لیے قوتِ بازو ہے، دادا کو اپنے پوتے پوتیوں سے بے پناہ لاڈ اور پیار ہوتا ہے۔ لیکن ادھر آپ اپنے بیٹے کی شادی تیس برس کی عمرمیں کرتے ہیں، وہ اپنے بیٹے کی شادی تیس برس کی عمر میں کرتا ہے، اْس وقت تک آپ کا بیٹا اکسٹھ برس کا ہو چکا ہوگا۔ اگر اْس کا پوتا ہوتا بھی ہے تو وہ بمشکل تین سال اْس کو دیکھ پائے گا۔

پینسٹھ برس میںاوسطا آپ کے بیٹے نے مر جانا ہے پاکستانی ہونے کے ناطے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پوتے کو دس سال دیکھ سکے ، اور یہ بھی کہ اپنے بیٹے کی شادی تک نہ کر پائے۔ یہ بھی تب جب آپ کا بیٹا بلوغت کے بعد کنوارہ پن کے اٹھارہ سالوں میں بے اولادی کے مرض میں نہ جکڑا گیا ہو۔آپ کی اگلی کوئی بھی نسل، اگر ہو تو۔۔۔ اپنی تیسری نسل کو دیکھ تک نہیں سکے گی ، آپ کی اولاد بانجھ ہو رہی ہے ۔یعنی آپ اولاد کے نکاح میں تاخیر کرکے اپنی ہی نسل کشی کرنے پر تلے ہیں؟ یااسفاہ!! میں کہتا ہوں ایک مرتبہ ہمت کیجیے، بچوں کا جلد نکاح کردیں۔ خداکی بات پر یقین کریں کہ وہ آپ کے بیٹے کو بے نیاز کردے گا۔۔۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ کی بات مان کر غِنی ٰ کو نکاح میں تلاش تو کریں ۔۔۔ حضرت عمرؓ کے تعجب کو تو مد نظر رکھیے، کہ جو مالداری چاہتا ہے اور نکاح نہیں کرتا، عمر بن الخطاب ؓ کو اس پر تعجب ہے۔ خدارا اگر آپ کے بچے بچیاں عفیف زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اْن کو اپنے ’ناک‘ کی خاطر گناہوں میں مت دھکا دیجیے۔ نکاح کو آسان بنائیے، زنا سے بھرا معاشرہ خود غائب ہوگا۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

ہمارے نبی ﷺ نے ہی فرمایا ہے کہ،’’نکاح کرنا، نگاہ کو جھکا دیتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔آج جو آپ کی اولاد نکاح سے ڈرتی ہے، وہ کل کو زنا سے ڈرے گی۔ ساتھ ہی اپنے بڑھاپے سے پہلے کم عمر ’بہو ‘لانا گھر کے لیے بھی پْر راحت ثابت ہوگا۔۔۔ آپ اپنی دانائی کے زمانے میں نازک مرحلوں کو سنبھال سکیں گے، دلہن بھی سہولت سے آپ کے رسم و رواج اپنا لے گی۔ سیدھا سا حل ہے، اگر تو آپ کروڑ پتی ہیں ، تو کھلے دِل سے سنت نبوی ﷺ کی تکمیل میں بیشک دس لاکھ کا ولیمہ کیجیے، غریبوں مسکینوں کی جھولیاں بھردیں،بھلا اس سے کون روکے گا آپ کو۔ لیکن اگر اتنی وسعت نہیں، تو دس لاکھ کے فنکشن کی خاطر اولاد کو مت لٹکائیے، اْسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بہانے اپنے ’ناک‘ کی حفاظت مت کیجیے، دس ہزار میں ولیمہ کی سنت پوری کر دیجیے۔ آپ شادی پر لگائے جانے والی رقم کا نصف، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ محض ولیمہ پر لگائے جانے والی رقم کا نصف اپنے بیٹے کو بطورِتحفہ دے دیں، ممکن ہے اگر وہ تاجر ہے تو اِس رقم سے اچھے روزگار پر لگ جائے، تعلیم حاصل کر رہا ہے تو دورانِ تعلیم اس سے ضروریات پوری کرلے، بے فکری سے تعلیم حاصل کرے ، اور اچھی جاب حاصل کرکے بِنا کسی دباؤ کے خاندان والوں کی ایک شاندار دعوت بھی کر سکے۔

لیکن اگر منگنی، مایوں، مہندی، نکاح۔۔۔اور جو بھی فنکشنز ہیں، معذرت کہ مجھے سب کا علم نہیں،اْن پر لاکھوں خرچ کیے بنا آپ کے مذہب میںاولاد کی شادی نہیں ہوسکتی، آنے والی نسل کودنیا میں لانے کے خرچے کا آپ کو قلق ہے، پیمپرز پر ہونے والی لاگت نے آپ کی نیندیں اڑا رکھی ہیں،ایک عورت کے کھانے کا بوجھ سوچتے آپ کی روح تڑپتی ہے۔۔۔ میری کی ہوئی باتیں آپ کو ’’بلی کے خواب میں چیچھڑے ‘‘ محسوس ہوتی ہیں ۔۔۔ تو ٹھیک ہے! لائیے ایسی عمر میں ’بہو‘ ، جس عمر میں آپ کی عقل سٹک چکی ہو، معاملے کی نزاکتوں کو سمجھنا آپ کے حواس کا کام نہ رہا ہو،بڑھاپے کے مارے آپ چڑچڑے ہوچکے ہوں، بہو کے لیے آپ صرف ایک بڈھے ہوں۔۔۔ تاکہ وہ جلد ہی آپ کو اکیلا چھوڑ جائے، اور باقی زندگی آپ اولاد کا عیدوں پر انتظار ہی کرتے رہ جائیں۔

Sad Man

Sad Man

اگر تاخیر سے شادی کرنے کے نقصانات کا خاکہ (خدانخواستہ )آپ کے بدن میں خوف کی جھرجھری پیدا کرچکاہو، تو کوئی مسئلہ نہیں، آئینہ کے سامنے جا کر اپنے اونچے ’ناک‘کو فخر سے دیکھیے، اور جھرجھری کو پْر سکون بنا لیجیے۔باقی اگر اخلاقیات کاجنازہ نکلتا ہے تو خیر ہے، لیکن جلدی شادی کردی تو آخر ’لوگ کیا کہیں گے؟ سوچئے اور عمل بھی کیجئے. دوسروں کے لئے آواز بھی اٹھائیے

تحریر : محمد عبداللہ خالد القروشی