بڑھتے ہوئے بھکاری۔۔۔ انفرادی و اجتماعی رویے

Beggar

Beggar

تحریر : شہزاد حسین بھٹی
راولپنڈی اور اسلام آباد میں سفر کے دوران ہر چوک پر آپ کو ایسے بھکاری ملیں گے جن میں کوئی اندھا ہو گا تو کوئی لنگڑا اورکسی کے تن پر پھٹے پرانے کپڑے ہوں گے۔ یہ بھکاری پیدل چلنے والوں اور ٹریفک اشاروںپر رکنے والی گاڑٰیوں کے شیشے کے پاس جا کر بھیک مانگتے ہیں ۔ جن چوکوں میں بھکاریوں کا عموما ہجوم نظر آتا ہے ان میں اسلام آباد ایئر پورٹ کے قرب و جوار کے چوک اہم ہیں ۔ چوہڑ بازار راولپنڈی میں تو ایک ایک فٹ کے فاصلے پر بھکاری بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ یہ وہ پیشہ ور بھکاری ہیں جن کی آمدنی اوسطاً پچاس ہزار کے قریب ہے اور یہ عوام کو بیمار بن کر مسکین بن کر اپنی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں اور اپنی کوششوں میں کافی حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔ یہ بھکاری ان لوگوں کا حق بھی چھین لیتے ہیں جو واقعتا لاچار اور مسکین ہیں ۔ ہمارے ملک میں بھیک باقاعدہ ایک شعبہ بن چکی ہے پورے پورے خاندان اسی شعبے سے وابسطہ ہیں اوریہ وہ لوگ ہیں جو اﷲ اوررسول ۖ کے نام پر مانگتے ہیں جبکہ یہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔

یہاں ایک واقعہ بتانا ضروری ہے جو کہ مختلف کتابوں میں آپ کو ملے گا ۔ ایک صاحب ثروت صاحب کو خوش قسمتی سے ایک مولانا صاحب کا درس سننے کا موقع ملا اس درس میں مولانا صاحب اللہ کی قدرت و وحدانیت کا درس دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ اللہ کی ذات اس قدر قادر ہے کہ وہ تو پتھر کے اندر موجود کیڑے کو بھی رزق پہنچاتی ہے اور اسے بھوکا نہیں مرنے دیتی ۔ ان صاحب پہ اس درس کا فوری اثر ہوا اور انہوں نے سب جمع پونجیلُٹا کے دُور جنگل کا رخ کیا اور ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے کہ رزق کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے تو انہیں کوشش کرنے کی پھر کیا ضرورت ہے کیوں کہ ان کو تو ان کا رزق ہر حال میں ملنا ہے لیکن نتیجہ الٹ ہوا اور صاحب ہڈیوں کا ڈھانچہ بننا شروع ہو گئے کیونکہ انہوں نے اپنے ہاتھ پائوں تک ہلانے چھوڑ دیے تھے پریشانی حاوی ہونے لگی ،اسی اثناء میں ان کی نظر ایک لاچار کتے پر پڑی وہ اسی سوچ میں گم ہو گئے کہ اس کو رزق کیسے ملتا ہو گا۔ اسی اثناء میں ایک عقاب اپنے منہ میں گوشت کا ٹکڑا لیے آیا اور اس کتے کے آگے کر دیا جسے اس لاچار و بیمار کتے نے کھا لیا۔ یہ منظر دیکھ کر ان صاحب پہ یہ راز کھلا کہ واقعی اللہ رزق دینے کا وعدہ پورا کرتا ہے۔ اور ہر ایک کو اس کے حصے کا رزق پہنچاتا ہے۔ لیکن رزق پہنچنے کے راستے الگ الگ ہیں۔ کتا لاچار ہے چل پھر نہیں سکتا لیکن اس کے حصے کا رزق اللہ نے عقاب کے ذریعے اس تک پہنچانے کا بندوبست ضرور کر دیا ہے۔

اس واقعے یا حکایت سے ایک بات یقیناسامنے ضرور آتی ہے کہ رزق انسان تک ضرور پہنچتا ہے لیکن اس بات پہ تکیہ کر کہ بیٹھ جانا یقینا درجے میں کم ہے کہ اللہ ہم تک ہمارا رزق بہم پہنچائے گا اس کے برعکس یہ درجہ بغیر کسی شک کے بلند ہے کہ انسان نہ صرف اپنے رزق کے لیے جدو جہد کرے ، مسلسل کوشش کرے بلکہ دیگر ضرورت مندوں کے لیے ان کے رزق میں وسیلہ بن جائے۔ یعنی اپنا رزق حلال طریقے سے حاصل کرنا تو اہم ہے ہی لیکن ساتھ ہی دوسروں کے رزق کا وسیلہ بن جانا ایک طرف تو خوشنودی رب کعبہ کے لیے اہم ہے تو دوسری طرف مخلوق خدا کی بھلائی اور بہتری کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے اور معاشروں میں اصلاح کا ذریعہ یہی سوچ ہوتی ہے ۔اس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ بھیک مانگنا کسی بھی طرح سے عزت و منزلت کا باعث نہیں بنتا۔ خدا نے خود فیصلہ کر دیا کہ وہ محنت کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ خدا کے قریب ہونے کے بجائے ہاتھ پھیلانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اور مزید افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ گداگری اور بھیک نے باقاعدہ ایک صنعت کا روپ دھار لیا ہے۔ منظم انداز میں گداگری کی لعنت نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔

Beggers

Beggers

انتظامی سطح پر منظم گداگری کی لعنت معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ پہلے کوئی ضرورت مند واقعی حقیقی معنوں میں ضرورت کے تحت گداگری کا رویہ مجبوراً اپناتا تھا اور لوگ اس کی مدد بھی اس کو ضرورت مند سمجھتے ہوئے کرتے تھے۔ لیکن اب رجحان بہت تبدیل ہو چکا ہے اور رجحانات کی تبدیلی ہی معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ اب جب سے اس پیشے نے منظم صنعت کا درجہ پا لیا ہے تو اس میں مختلف گروہ شامل ہوگئے ہیں۔ اس لعنت میں باقاعدہ ایسے لوگ سرگرم ہو گئے ہیں جو مجرمانہ پس ِمنظر رکھتے ہیں۔ وہ لوگوں کو گداگری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے چھوٹے بچوں کو اغواء تک کر لیا جاتا ہے اور پھر انہیںمختلف جسمانی مسائل کا شکار کر کے ان کو اس پیشے میں باقاعدہ طور پر شامل کیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ سوچ مضبوط ہو چلی ہے کہ جسمانی طور پر زیادہ سے زیادہ لاچارگی زیادہ سے زیادہ بھیک کے ملنے کا سبب ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ گداگری اور بھیک کی لعنت معاشرے کو جرائم کی دلدل میں بھی دھکیل رہی ہے۔ اکثر گلی محلوں میں نام کے بھکاری مختلف جرائم اور وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیںحتکہ یہ خوفناک حقیقت تک عیاں ہوئی ہے کہ اکثر جگہوں پر قتل جیسی سنگین وارداتوں مین بھی اس علاقے سے تعلق رکھنے والے بھکاریوں کا تعلق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو عورتوں کو لوٹنے کے لیے بھی بھکاری عورتوں کے باقاعدہ گروہ سرگرم عمل ہیں۔ وہ دن کے اوقات میں گھر پہ موجود اکیلی گھریلو عورتوں کو کسی نہ کسی بہانے سے اپنی باتوں کے دام میں پھنسا کر ان کو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کر رہی ہیں۔ یہ ہمارا عمومی رویہ بن چکا ہے کہ ہم اپنے زور ِ بازو پر بھروسہ کرنے کی بجائے دوسروں کی جانب دیکھتے ہیں کہ ہماری امداد کی جائے ۔ کوئی زلزلہ ہو ، سیلاب آئے یا کوئی اور آسمانی آفت ہمارے حکمران اور عوام اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کی بجائے بیرونی امداد کی جانب نظریں گاڑے نظر آتے ہیں ۔ملکی معیشت کی بہتری کے لیے بھی ہم بیرونی امداد کے منتظر ہیں ۔ واضع رہے کہ پہلے پہل ایسا ہوتا تھا کہ پاکستان کسی قدرتی آفت کا شکار ہوتا تھا تو اقوام ِ عالم مدد کو آگے بڑھتی تھیں۔

لیکن سیلابوں اور تباہیوں کے باوجود ہماری حکومتوں نے نہ تو کوئی ڈیم بنایا اور نہ ہی سیلابوں سے بچائو کی کوئی پیشگی پیش بندیاں کی گئی یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریاں نہ رک سکیں اور اقوام عالم نے بھی اب تو شاید یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہم امداد اس کے اصل مدعے پہ صرف نہیں کرتے اسی لیے موجودہ سیلاب اور تھر کی صورت حال میں یہ محسوس ہوا کہ اقوام عالم امداد کرنے میں کسی درجہ تامل سے کام لے رہی ہیں۔ اور یقینا ایسا ہو گا بھی اگر ہم مستقل بنیادوں پر اغیار کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھیں گے تو وہ کیوںکر ہماری عزت کریںگی او رکچھ بعید نہیں کہ ہم نے اگر انفرادی کے ساتھ اجتماعی سطح پر بھی اپنی روش نہ بدلی تو جو عزت ایک ایٹمی قوت ہونے کے سبب ہم کو ملی بہت جلد وہ عزت ہم کھو دیں گے۔ گداگری کی لعنت اور بھکاریوں نے ہمارے معاشرے کو اب داغدار کرنا شروع کر دیا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ لعنت ہمارے معاشرے کے لیے ایک ناسور بن جائے گی ۔ ایک رستا ہوا ناسور۔کیونکہ جب ہم خود ، ہمارے حکمران ، مرتے لوگوں کی کھوپڑیاںپائوں تلے رکھے خود فسٹیول مناتے رہیں گے تو کوئی ہماری امداد کیوں کرے گا ؟

Shahzad Hussain Bhutti

Shahzad Hussain Bhutti

تحریر : شہزاد حسین بھٹی