کیپٹن صفدر کی تقریر اور اقلیتیں

Captain Safdar

Captain Safdar

تحریر : واٹسن سلیم گل،ایمیسٹرڈیم
ان دنوں ہر طرف کیپٹن صفدر کی تقریر کا چرچہ ہے یہ تقریر کیپٹن صاحب نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں کی تھی۔ اس تقریر میں وہی خدشات تھے جن کا زکر میں نے اپنے گزشتہ کالم جو” مدرسوں سے یونی ورسٹیوں تک کا سفر” کے عنوان سے لکھا تھا ۔ انتہا پسندی کی سپورٹ کے حوالے سے حکومتی لیگ کے ایک انتہائ معتبر ممبر اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر کی پارلیمنٹ میں تقریر نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم سدھرنے والے نہی ہیں۔ میں نے اتنی بے وقعت، غیرمنطق اور غیرزمہ دارانہ تقریر کبھی نہی سُنی ہوگی۔ اس تقریر سے اقلیتوں میں ایک بے چینی کی کیفیت ہے ۔ کیپٹن صاحب کی تقریر کا سب سے اہم جملہ جو اقلیتوں کی پاک افواج میں شرکت پر پابندی کی قرارداد پیش کرنے کے حوالے سے تھا۔ اس قرارداد میں یہ شرط رکھی جائے گی کہ جو کوئ بھی جہاد فی سبیل اللہ پر ایمان نہی رکھتا اس پر پاک فوج میں بھرتی پر پابندی لگائ جائے گی۔ یہ جملہ کوئ عام آدمی نہی بلکہ حکومت وقت کا ایک طاقتور شخص یہ دعوٰی کر رہا ہے۔ اور یہ دعوٰی بھی وہ کسی جلسے جلوس میں نہی بلکہ پاکستان کے سب سے معتبر فورم یعنی پارلیمنٹ میں کر رہا ہے۔

اس سے قوم میں تعصب اور انتشار پھیلے گا۔ اب یہ بات جو ہم غیر مسلم اکثر کہتے ہیں کہ ہم پر پاکستان کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں۔ کیا غلط کہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مجھے یہ سمجھ نہی آئ کہ اس قسم کی تقیر کا نہ تو کائ موقع تھا نہ ہی کوئ وجہ تھی تو کیوں اس وقت اس طرح کی تعصب سے بھری تقریر کی گئ۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ 1974 میں پاکستان قانونی طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے اور وہ اب اقلیت کا حصہ ہیں۔ تو کیپٹن صفدر نے یہ تقریر کر کے کس کو یہ پیغام دیا ہے۔ اس تقریر نے ہماری تاریخ کا حُلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے کیا گزشتہ 70 سالوں مین اقلیتوں نے پاکستان کی کوئ خدمت نہی کی۔ مجھے کسی نے کہا کہ گل صاحب صفدر صاحب کی تقریر احمدیوں کے لئے تھی تو میں نے کہا کہ بھائ غلط بات تو غلط ہے ان کے عقیدے پر آپ کا اعتراض ہو سکتا ہے ان کے نظریہ سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر احمدی پاکستان دشمن ہیں اس کا حق آپ کو کس نے دے دیا اور آج آپ کہتے ہیں کہ قادیانی غدار ہیں کل کہوں گے کہ پاکستان کے ہندو غدار ہیں پھر مسیحی پھر پارسی۔ کیپٹن صفدر نے 1965 کی جنگ میں ہمارے فوجی ہیروز کی تزلیل بھی کی ہے جنہوں نے اپنی جانئیں خطرے میں ڈال کر پاکستان کی بقا اور حرمت کی حفاظت کی۔ جنگ کے دوران یہ فوجی نہ تو مسلمان تھے نہ ہی مسیحی یا احمدی بلکہ یہ پاکستان کے بیٹے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ 1965 میں چاونڈہ کے مقام پر لڑی گئ جس میں پاکستان کے بیٹے لیفٹنٹ عبدل علی مالک جو اس وقت برگیڈئیر تھے۔

انہوں نے دشمن کے دانت توڑ دئیے۔ اسی بیٹے نے 1971 کی جنگ میں مجرجنرل کے عہدے پر سیالکوٹ سیکٹر پر آٹھوئیں انفینٹری ڈویژن کی کمانڈ کی۔ اور دشمن کو آگے بڑھنے سے روکا ہم آج ایسے بہادر سپوت کو بے عزت کر رہے ہیں کیونکہ اس کا یہ قصور کہ وہ قادیانی تھا۔ سر ظفراللہ خان پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے جو قادیانی تھے یہ وہی ظفر اللہ خان ہیں جن کو انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں جو ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع ہے نائب صدر بنے، دنیا کی سب سے بڑی اور معتبر عدالت کے نائب صدربن کر انہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا۔ ڈاکٹر عبدل السلام نے پاکستان کا نام روشن کیا ان کو طبعات میں نوبل انعام دیا گیا۔ دنیا ان کو قادیانی کی حثیت سے نہی بلکہ پاکستانی کی حثیت سے جانتی ہے۔

نوازشریف کی حکومت نے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ قائداعظم یونی ورسٹی کے شعبہ طبعیات کو ڈاکڑ عبدل السلام کے نام سے منسوب کیا جائے آج ان کا داماد اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں جسٹس کرنلئیس، سیسل چوہدری ،پیٹر کرسٹی اور بہت سے نام شامل ہیں۔ ہندو ، پارسی اور دیگر کمیونٹی کی بھی اپنی خدمات ہیں تو کیا پاکستان کی تاریخ کے صفحات سے اقلیتوں کی خدمات کو پھاڑ کر کچرے میں پھینک دیا جائے گا۔ آج بھی جب میں یہ سطور ٹائپ کر رہا ہوں تو شیخوپورہ میں ایک مسیحی طالب علم ارسلان مسیح کو قتل کر دیا گیا۔ 15 سالہ ارسلان کو اسکول کے چند بچوں نے مسلمان ہونے کے لئے کہا تو وہ ان سے لڑ پڑا بعد میں پتا چلا کہ ایک بچے کا باپ پولیس والا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد چھ پولیس والے اسکول آئے اور بچے کو اتنا مارا کہ وہ مر گیا اسے گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی۔ اسکول کے بچوں میں مزہبی نفرت اور اس وجہ سے دو یفتوں میں یہ دوسرا مسیحی بچہ ہے۔

یہ ہے ہمارا پاکستان۔ کیپٹن صفدر نے پارلیمنٹ میں تو جو کیا سو کیا مگر پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں وہ ممتاز قادری زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے ان باتوں کا کیا مقصد ہے اس پر اب میں تفصیل میں نہی جاؤنگا ۔میں صرف اتنا جانتا ہوں ہمارے عقیدے فرق ہیں مگر ہمیں انتہا پسندی کی عنیک سے اس تفریق کو نہی دیکھنا چاہئے۔ احمدی کبھی بھی مسیحیوں کے دوست نہی رہے اور میں ان ختم نبوعت اور اس کے منکر کے عنوان سے کئ بار لکھ بھی چکا ہوں مگر پھر بھی سمجھتا ہوں کہ ایک اکائ ایسی ہے جس نے ہم کو آپس میں باندھ رکھا ہے یہ اگر ٹوٹ گئ تو ہم بکھر جائیں گے اور یہ اکائ ہے “پاکستان”

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل،ایمیسٹرڈیم