بچے، اسمارٹ فون اور ہم

Children and Smartphone

Children and Smartphone

تحریر : کامران غنی صبا
کیا آپ نے کبھی اپنے بچے یا اپنے کسی شاگرد سے اُس کا اسمارٹ فون مانگ کر دیکھا ہے؟ کیا وہ آپ کو اپنا فون دینے میں ہچکچاتا ہے؟ کیا اس کے فون میں Pattern Lock لگا ہوتا ہے؟ کیا آپ کے پوچھنے پر بھی وہ Pattern Lock کا پاسورڈ بتانا نہیں چاہتا؟ اگر ایسا ہے تو کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ اس کی کیا وجوہ ہو سکتی ہیں۔۔۔۔؟ ان سوالوں کا جواب جاننے سے پہلے ذرا یہ سوال خود سے بھی پوچھ کر دیکھیں۔۔۔؟ کیا آپ اپنا اسمارٹ فون اپنے اہلِ خانہ کو دینے سے ہچکچاتے ہیں؟۔۔۔ کیا آپ اپنے پیٹرن لاک کا پاسورڈ اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتانا چاہتے؟(باہر کے لوگوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کیوں کہ ممکن ہے کہ آپ کے اسمارٹ فون میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہوں جنہیں باہر والوں پر ظاہر کرنے میں Privicy کا مسئلہ ہو۔) اگر ایسا ہے تو پہلے آپ کو خود سے یہ پوچھنا ہوگا کہ آپ پرائیویسی کے نام پر ”اعتبار کی مضبوط” دیوار کو کیوں کمزور کر رہے ہیں؟

عام طور سے والدین اور بچوں کے سرپرست یہ شکایت کرتے ہیں کہ اسمارٹ فون نے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں سے اسمارٹ فون ”چھین” کر وہ انہیں ”راہِ راست” پر لے آئیں گے۔ اگر آپ بھی ایسا سوچتے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی بھول ہے۔ یاد رکھیے ! نفسیات کا یہ اصول ہے کہ انسان کو جس چیز سے جبراً روکا جاتا ہے وہ اُس کی طرف نسبتاً زیادہ تیزی سے راغب ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کے ڈر خوف سے بچہ آپ کے سامنے اسمارٹ فون کا استعمال بند کر دے لیکن موقع ملتے ہی وہ اپنی خواہش کی تکمیل کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ڈھونڈ نکالے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اُسے اسمارٹ فون کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے اچھی طرح واقف کرایا جائے۔ بچے کی ”آن لائن سرگرمیوں” پر نظر رکھی جائے۔اُس کے دوستوں کی فہرست اور ان کی سرگرمیوں سے واقف رہا جائے۔لیکن سب سے پہلے آپ کو خود بچوں کا یہ اعتبار حاصل کرنا ہوگا کہ آپ اسمارٹ فون کا استعمال مثبت کاموں کے لیے کر رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق کا یہ قول اگر پیشِ نظر رہے تو شاید ہم اپنے اسمارٹ فون کو غلاظتوں سے پاک رکھ سکتے ہیں۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ: ”حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ جو کچھ تیرے دل کے اندر ہے اُسے ایک کھلے طباق میں رکھ کر اگر تو بازار کا گشت لگائے تو اس میں ایک چیز بھی ایسی نہ ہو جسے اس طرح آشکار کرنے میں تجھے شرم محسوس ہو۔” اس قول میں ”دل ” کی جگہ ”موبائل یا اسمارٹ فون” رکھ کر اگر ہم خود کا جائزہ لیں تو شاید بہت ساری باتیں خود بخود سمجھ میں آسکتی ہیں۔

ایک بات اور بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آج کے بچے ٹکنالوجی کے معاملہ میں آپ سے بہت زیادہ ذہین ہیں۔ اگر آپ موبائل کے منفی پہلوئوں پر بات کرتے ہوئے ان سے کھل کر گفتگو نہیں کرتے ہیںاور کچھ موضوعات پر بات کرتے ہوئے شرم و جھجھک محسوس کرتے ہیں تو یہ بھی آپ کی بہت بڑی بھول ہے۔ بچوں کو اپنے اعتماد میں لے کر اگر آپ نے صحیح نہج پران کی رہنمائی نہیں کی تو یاد رکھیے کہ اِس اسمارٹ فون کی وجہ سے آپ کا لختِ جگر جنسی مریض، جرائم پیشہ یا مختلف قسم کے ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔

Kamran Ghani Saba

Kamran Ghani Saba

تحریر : کامران غنی صبا
رابطہ:9835450662