شہر قبرستان

Cemetery

Cemetery

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے دوست کے والد کی وفات پر اُس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے میں لاہور کے قدیمی قبرستان میانی صاحب آیا ہوا تھا، مرحوم کا جنازہ پڑھا جا چکا تھا، اب ہم مرحوم کو اُس کی آخری آرام گاہ میں اُتارنے کے لیے جمع تھے۔ قبر کی تیاری آخری مراحل میں تھی۔ میں حسبِ معمول دور حد نگاہ تک پھیلے ہو ئے قبرستان کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا، کہ کیسے کیسے نابغہ روزگار لوگ اِس قبرستان کی مٹی کا حصہ بن چکے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک خو بصورت طاقتور صاحب اختیار غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک انسان یہاں دفن تھا۔ قبرستان کا سناٹا پراسرارئیت نئی اوربو سیدہ قبریں تازہ مر جھائے ہوئے پھولوں کی ملی جلی خوشبو اگر بتیوں کی مخصوص بونے ماحول کو اور سوگوار بنایا ہوا تھا۔

میں جب کبھی بھی قبرستان جاتا ہوں تو اپنی اوقات کا شدت سے احساس ہوتا ہے، کہ آج منو ں مٹی کے نیچے انسان بھی کبھی ہماری طرح جیتے جاگتے زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھے، لیکن اپنے اپنے وقت پر قبرستان کی مٹی میں اضافے کا موجب بنتے چلے گئے، میں انہی سوچوں میں غرق تھا، میرا جاننے والا میرے پاس آیا اور میرے کان میں سرگوشی کی جناب قبر تو کب کی تیار ہوچکی ہے، اب ان کے خاندان کے سربراہ کا انتظار ہے۔ اب ہم سب لوگ انتظار کی سولی پر لٹک گئے جب کافی دیر ہوگئی اور لوگ آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے تو میرا دوست میرے پاس آیا اور کہا سر میں انتظار کی معذرت چاہتا ہوں۔

لیکن ہما ری یہ مجبوری ہے کہ ہم خو شی غمی کوئی بھی کام اپنے خاندان کے اِس چوہدری کے بغیر نہیں کر سکتے، ہم تو اِن کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے یہ ہمارے سارے خاندان کے بڑے ہیں، اِن کے بغیر ہمارا کوئی کام نہ شروع اور نہ اختتام ہو سکتا ہے، اِن کے بغیر ہماری ساری خوشیاں ادھوری ہیں، ہماری خوشیوں کا دارومدار بھی اِن کی شرکت اور رضا مندی میں ہے۔

اِسی دوران میرے دوست کا چھوٹا بھائی آگے بڑھا اور اپنے بھائی سے مخاطب ہوا کہ بہت دیر ہوگئی ہے، آئے ہوئے لوگ اب تنگ آگئے ہیں، اب ہمیں والد صاحب کو دفنا دینا چاہئے، تو بڑے بھائی نے دھاڑتے ہو ئے کہا تم ۔ ”بڑے صاحب” کے بغیر والد صاحب کو دفنانے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہو، اگر وہ ناراض ہوگئے تو ہماری ہمت ہے کہ اُن کی ناراضگی برداشت کرسکیں میں اُن کی ناراضگی کا رسک نہیں لے سکتا۔

اب مجھے سمجھ آئی کہ جنا زہ بھی بہت لیٹ کیوں ہوا جنازے پر بھی بڑے صاحب کا بہت انتظار کیا گیا، بڑے صاحب نے جنازے کی اجازت دی اب ہم قبرستان میں بڑے صاحب کے رحم و کرم پر تھے، چند لوگوں نے دبے دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ میت کی بے حرمتی ہے جنازے کے بعد میت کو فوری طو ر پر قبر میں اتار دینا چاہیں لیکن لواحقین اِسی با ت پر اڑے ہوئے تھے کہ خاندان کے سربراہ کا آنا ضروری ہے بلکہ بہت ضروری ہے سربراہ کو بار بار فون کیا جا رہا تھا۔

آخر طویل انتظار کے بعد سربراہ اپنے حواریوں کے ساتھ پورے کروفر کے ساتھ آتا دکھائی دیا، لواحقین کو مرحوم کا دکھ بھول گیا، خو شی سے چہرے کھل اُٹھے اگر میت نہ پڑی ہوتی تو یہ یقینا نعرے مارنا شروع کر دیتے، سب جاکر باری باری مراثیوں کی طرح ہاتھ چوم رہے تھے، سربراہ نے آکر دیر سے آنے کی کوئی معذرت نہ کی بلکہ حکم نامہ جاری کیا کہ میں نے کسی اور جگہ بھی جانا ہے، جلدی جلدی میت کو دفنائو اُس کے حکم کی دیر تھی، اب برق رفتاری سے میت کو دفنایا جانے لگا، دعا کے وقت سربراہ صاحب نے چند الفاظ میں دعائیہ کلمات ادا کئے، دعا ابھی پوری طرح ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ سربراہ صاحب نے واپسی شروع کر دی، میں شدید حیرت سے اِس بڑے صاحب کو دیکھ رہا تھا تکبر خودی میں بلکل ہی بھول چکا تھا، کہ ایک دن اس نے بھی یہاں آنا ہے جہاں کیڑوں مکو ڑوں نے اِس کو اپنے نظام ہضم سے گزار کر غلاظت میں تبدیل کر دینا ہے۔

Society

Society

اِس بد دماغ انسان کو دیکھ کر مجھے معاشرے کے بے شمار اِسی طرح کے انسان یاد آنے لگے جو اِسی مرض میں مبتلا ہیں کہ میں بہت ضروری ہوں میرے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا، بزم حیات کی رونقیں صرف میرے ہی دم سے قائم و دائم ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انبیا ء کرام کا گروہ جو حقیقت میں خلا صہ کا ئنات ہے زندگی کا نچوڑ تھا جب وہ اِس جہان ِ فانی میں نہیں رہا تو اور کون ہے جو زندہ رہے گا انسان نے اپنی بقا کے لیے لو ہے اور پتھر کے قلعے تعمیر کئے پہا ڑوں کی چوٹیوں پر شاہی محلات بنا ئے لیکن مو ت نے جب آنا چاہا اُس کو لو ہے کے پنجرے شاہی قلعے فصیلیں ڈاکٹر ہسپتال لیبارٹریاں نہ بچا سکیں تا ریخ انسانی کا کو ئی بھی دور ایسانہیں جو موت سے آشنا نہ ہو پھر بھی غافل انسان اِس میں مبتلا ہے کہ جو لو گ چلے گئے وہ غیر ضروری تھے مگر میرا یہاں رہنا بہت ضروری ہے حیران کن با ت یہ ہے کہ یہ سوچ کہ میں بہت ضروری ہوں عام آدمی سے با دشاہ تک سب میں سرائیت کر گئی ہے ‘کو ئی بھی ذی روح اِس ضروری اور اہم ہو نے سے دستبردار ہو نے کو تیار نہیں میں ضروری کا مرض اہل سیاستدان میں بہت زیا دہ نظر آتا ہے جو انی کے دور میں بر سراقتدار آنے والا بڑھا پے میں بھی مسند اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے اُس کے بغیر سلطنت کا شیرازہ بکھر جا ئے گا ملک بر باد ہو جا ئے گا عوام بے سہا را ہو جا ئے گی قومی استحکام خطرے میں پڑ جا ئے گا اپنے اقتدار کو مضبو ط اور طویل کر نے کے لیے حکمران ظلم جبر کی آخری حدیں کرا س کر جا تے ہیں اِس خیال میں مست کہ میں نہ رہا تو ملک عوام کیسے رہیں گے میرے بنا دنیا کا کیا بنے گا گائوں کے معمولی چوہدری سے لے کر امریکہ کی صدارت تک ہر ایک کو یہی خما ر کہ ان کا وجود بزم دنیا کے لیے بہت ضروری ہے اور پھر اپنے ضروری پن کے لیے یہ مذہب اخلا قیات اور انسانیت کی تمام اقدار کو پا ئوں تلے روندتا چلا جا تا ہے۔

ضروری پن کے مرض میں مبتلا ہر چوہدری حکمران با دشاہ اقتدار کے ایوانوں تک تو پہنچ ہی جا تا ہے لیکن وہ اچھا انسان نہیں بن پاتا جبکہ دنیا کو چنگیز ہلا کو تیمو ر ہٹلر سکندر فرعون کی کبھی بھی ضرورت نہ تھی بلکہ ہر دور میں اچھے انسان کی ضرورت رہی ہے ایسا انسان جو خو د بھی جئے اور دوسروں کو بھی جینے کا حق دے یہ اہم نقطہ ہر دور میں اہل حق اولیا ء اللہ نے دوسروں کو سمجھا نے کی کو شش کی کہ لوگو ضروری پن کے خو ل سے جلدی نکل آئو اہل حق انسانوں کو یہ نقطہ سمجھا تے رہے کہ عام انسانوں کی تو با ت ہی کیا ہے بہت اہم جن کے کُلے K2سے ٹکراتے تھے آج منوں مٹی کے نیچے مٹی میں تبدیل ہو چکے ہیں جن انسانوں نے خاک نشینوں کی آواز پر لبیک کہا وہ سر کے خاک پر مزے کی نیند لے کر سوتے رہے اور جو اولیا ء اللہ کی پکا ر کو دل میں نہ اتا ر سکے وہ ریشمی مسہریوں پر بھی کروٹیں بدلتے رہے جو یہ راز پا گئے اُن کی کچی قبریں مرجع خلا ئق ٹھہریں اور جو بے خبر رہے ان کے شاہی مقبرے چمگا دڑوں کے گھر بن گئے جنہیں یہ حقیقت سمجھ آگئی اُن کی مٹی کی جھونپڑیاں عاشقوں کی سجدہ گا ہ بن گئیں جو غفلت کا شکا رہو ئے اُن کے شاہی محلا ت بھی عبرت کدے بن گئے فرعون اپنے زمانے کا بہت بڑا اہم اور ضروری شخص تھا لیکن دریا ئے نیل میں شکر کی طرح گھُل گیا کرہ ارض پر سینکڑوں شا ہی محلات کو اب کھنڈرات میں تبدیل ہو تا دیکھتے ہیں یہاں رہنے والوں کو بھی شدت سے یہ احساس تھا کہ ہم اس دنیا کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن سالوں کے غبار نے عما رات اور اینٹوں کو تو سلامت رکھا لیکن اِن کے مکینوں کو گمنا می کے اندھیرے غاروں میں اتار دیا۔

آج کے عام انسانوں سے چوہدریوں سرداروں جا گیرداروں حکمرانوں مشہور لوگوں کے حضور عرض ہے کہ آپ شہرت دولت اختیار کے مزے ضرور لیں لیکن کبھی بھی اگر وقت ملے تو ملکوں کی سیر سے پلا زوں کی نقاب کستا نی سے شاندار فنکشنوں سے خاص محا فل سے بڑے لوگوں کی ملا قاتوں سے دولت کے ڈھیر لگا نے سے تھو ڑا وقت نکال کر کبھی کبھی قبرستان جا کر دیکھ لیا کر یں اِن بو سیدہ قبروں میں جو ہڈیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں یہ بھی اپنے زما نے کے بہت اہم اور ضروری لو گ تھے اپنے زما نے میں ان کو بھی ضر وری اور اہم کے مر ض نے حقیقی بصیرت سے محروم رکھا تھاورنہ آج کا انسان ما دیت پرستی میں غرق جا نور کا روپ نہ دھا ر چکا ہو تا بلکہ اپنی حقیقت سے آشنا ہو چکا ہوتا۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956