ایک روپے کی کرپشن ثابت ہو تو پھانسی دے دیں: اسحاق ڈار

 Ishaq Dar

Ishaq Dar

کراچی (جیوڈیسک) سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عمران خان کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا یا بچوں کا شریف خاندان سے کبھی کوئی کاروباری لین دین نہیں ر ہا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا عمران خان بے بنیاد الزامات لگانے کے ماہر ہیں، وہ ہمیشہ جھوٹے الزامات لگاتے رہے ہیں، عمران خان میرے بیٹے کی کمپنی میں بیرون ملک سے آنیوالے پیسے کا ثبوت دیں۔

انہوں نے جن کمپنیوں پر الزام لگایا ہے ان ہی سے وہ چندہ لیتے رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ ان کا بیٹا 2003 سے دبئی میں کام کر رہا ہے اور دبئی میں کوئی بھی کام بغیر قانونی کارروائی کے نہیں ہوتا جبکہ میں بھی قانونی طریقے سے کام کر رہا تھا اور میرا کوئی فعل ڈھکا چھپا نہیں تھا، میں نے عہدہ کا حلف لینے سے پہلے ہر جگہ سے استعفیٰ دیا تھا۔

عمران خان کی جانب سے دبئی میں 2 ٹاورز اور 52 ولاز کے حوالے سے اسحاق ڈار نے کہا اس حوالے سے تمام دستاویزات میرے بیٹے کے پاس موجود ہیں اور وہ تمام تفصیلات فراہم کر دیگا۔ خان صاحب اتنے گھٹیا پن پر اتر آئے ہیں کہ میرے والد پر الزام لگا رہے ہیں حالانکہ جب خان صاحب کچھ نہیں تھے تو میں لندن میں ڈائریکٹر فنانس تھا۔

ان کا کہنا تھا خان صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ وہ 1992 اور 93 میں لاہور چیمبر آف کامرس میں میرے پاس شوکت خانم کے لیے چندہ لینے آتے تھے اور گھنٹوں میرا انتظار بھی کرتے تھے۔ انہوں نے کہا میں ہر سال ٹیکس باقاعدگی سے جمع کراتا رہا ہوں، علی ڈار کا ایک پیسہ بھی سوئٹزرلینڈ سے نہیں آیا، آج بھی چیلنج کرتا ہوں ایک روپے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو مجھے پھانسی دیدیں۔

اسحاق ڈار نے اعتراف کیا کہ میری بیٹی شریف خاندان کی بہو ہے۔ انہوں نے اپنی وطن واپسی کو ڈاکٹروں کی اجازت سے مشروط کر دیا۔ انہوں نے کہا جتنی جلد ڈاکٹر اجازت دینگے انشا اللہ وطن واپس آجاؤنگا۔ ادھرسابق وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے بیٹے علی مصطفی ڈار نے بتایا کہ دبئی میں ہمارے 2 ٹاورز اور 52 ولاز ضرور ہیں لیکن ہم ان کے مالک نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ڈویلپر ٹاور کا مالک نہیں ہوتا، وہ پلاٹ قسطوں پر خریدتا ہے اور پھر پراجیکٹ لانچ کرتا ہے، ایک جانب سے بکنگ ہولڈرز اقساط دیتے ہیں تو دوسری جانب ہم اس جگہ کی اقساط ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2003 میں دبئی میں کام شروع کیا اور 2007 میں ایچ ڈی ایس ٹاورز خریدے، ہم نے پلاٹ کی بکنگ کے لیے 5 ملین درہم دیئے اور ہمارے پاس اس حوالے سے تمام دستاویزات موجود ہیں۔ سوئٹزرلینڈ سے 6 کروڑ درہم کی منتقلی کے حوالے سے علی ڈار نے بتایا کہ ایسی کوئی رقم میرے یا مجتبیٰ ڈار کے اکاؤنٹ میں نہیں آئی۔ علی ڈار نے بتایا کہ آف شور کمپنی اس لیے بنائی کہ دبئی میں غیر ملکیوں کے لیے کام کرنے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ نہیں لیکن ہماری کمپنی کا باقاعدگی سے آڈٹ ہوتا ہے، مسقط، ترکی یا برطانیہ میں ہماری کوئی کمپنی نہیں ہے۔