بیٹیاں بوجھ نہیں بلکہ رحمت ہیں

Daughters

Daughters

تحریر : عتیق الرحمن
زمانہ جاہلیت میں بیٹیاں بوجھ کیوں بن گئیں تھیں کہ کسی کو اپنا داماد بنانا معیوب سمجھا جاتا تھایہی وجہ تھی کہ بعثت نبی مکرم و رسوم معظمۖ سے پیش تر ہوشربا بیٹیوں کا قتل عام اجتماعی و سماجی طور پر کیا جاتا تھا۔اگر کوئی فرد محبت و مودت کی وجہ سے اپنی لخت جگر کو پالتا پوستا تھا تو سماج کے سرداروجاگیردار اور قبیلوں کے بڑے جبرو استبداد کے ذریعہ اس کو مجبور کردیتے تھے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح اپنی جگر کے ٹکڑے کو اپنے ہی ہاتھوں سے زمین میں تڑپتے دل و کانپتے ہاتھوں سے درگور کردیتاتھا۔یہ سب اس لئے ہورہاتھا کہ معاشرے کا رابطہ آسمان سے منقطع ہوچکا تھا کہ وہ ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھر چکے تھے۔ حضرت عیسیٰ کے انتقال سماء کے بعد زمانہ کے طاقتورلوگ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق فیصلے کرتے تھے کہ ان کی جانب سے ہر صادر ہونے والی بات خواہ فطرت انسانی اسے قبول کرے یا نہ کرے مگر عمل کرنے پر مجبور تھے۔تاہم بعثت دین اسلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضور سروردوعالمۖ نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے ممانعت فرمائی ۔ اور بیٹیوں کی نیک و صالح پرورش کرنے، اس کی تعلیم و تربیت میں کسر نہ چھوڑنے اور اس کو باعزت طریقہ سے رشتہ ازواج میں منسلک کرنے،نان نفقہ کی ذمہ داری پوری کرنے، سرپردست شفقت رکھنے، ان کی خدمت کو لازم پکڑنے اور میراث میں حصہ دینے والے باپ ،بھائی ،بیٹا اور شوہر کیلئے دوہرے اجر و ثواب کا وعدہ فرمانے کے ساتھ جنت کی بشارت دی۔یہی اسلام ہی دین برحق ہے کہ جس نے عورت کو ماں،بہن ،بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے معاشرے میں عزت و عظمت عنایت کردی کہ فرمادیاکہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے، اور نیک میاں بیوی دونوں جنت میں بھی رفیق و ایک ساتھ ہونگے۔اسی پر بس نہیں بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اگر کوئی بیٹی کی عزت و عفت کو محفوظ نہیں کرتا اور اس کی جان کو بغیر کسی وجہ و سبب کے چھین لیتا ہے تو اس وحشی صفت انسان سے قیامت کے روز یہ سوال کیا جائے گا کہ سورة التکویر میں آیا ہے” کس جرم میں وہ قتل کی گئی؟”۔

سوئے اتفاق کہیے یہ سرکشی و طغیانی کی ریت کی دوہرائی کہ آج وہی اسلام کا دم بھرنے والامسلم معاشرہ تعلیمات الٰہی و نبویۖ کا منحرف ہوکر اپنی مائوں ،بہنوں،بیٹیوں اور بیویوں کا بدترین استحصال کرتا نظر آرہاہے۔کہیں جہیز کی لعنت ہے تو کہیں طلاق کی فراوانی،کہیں غربت و افلاس کی چکی میں پسنے کی وجہ سے ماں بیٹیوں سمیت خودکشی کرنے پر مجبور تو کہیں باپ اپنی اولاد کو دریائوں میں پھینک کر تو کہیںریل کے نیچے دیکر انہیں قتل کردیتے ہیں تو کہیں ظلم و جور کا سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا کہ وحشی و موذی ترین جانور بھی انسانوں کی بے حسی و دیدہ دلیری پر شرمندہ ہوجاتے ہیں کہ خودکم سن معصوم کلیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد مسل دیا جاتاہے یعنی دوہرے جرم کا ارتکاب کرلیا جاتاہے اول تو جنت کے پھول کو داغ دارکرنا اور دوسرا بے گناہ کی جان چھین لینا ۔یہ دونوں ایسے جرم ہیں جو فساد فی الارض کے مترادف ہونے کی وجہ سے ناقابل معافی ہونے کے ساتھ عبرتناک سزا کے مستوجب بھی ہیں کہ ایسے بھیڑیا صفت انسانوں کو سرعام ایسی تکلیف دہ اور اذیت ناک سزا دی جائے کہ وہ رہتی دنیا تک کیلئے مثال بن جائے۔کیونکہ ملک پاکستان میں مندرجہ بالا مذکور برائیوں کی فراوانی ہے اور آئے روز اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اس طرح کی دلدوز خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں جس سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔اس ڈھٹائی کی بے غیرتی کی بنیادی وجہ قانون کی عدم دستیابی و انصاف کا مفقود ہوجانا ہے۔

اس میں تردد نہیں کہ معاشرے میں انصاف و قانون صرف طاقتور کو ہی میسر ہے غریب و نادار کیلئے ملک کی پولیس، عدلیہ،ہسپتال، میڈیا اور حکومت سبھی ادارے ایک خیال و تصور سے زیادہ کچھ بھی فرہم کرنے سے قاصر و عاجز ہیں کہ ان کو ہر مسئلہ کی تحقیق و چھان بٹھک اور فراہمی انصاف یا داد رسی و ہم آواز بننے کیلئے زر زمین میں سے کچھ نا کچھ فراہم کرنا لازمی ٹھہر چکا ہے کہ جو بات طاقتور کہے گا خواہ وہ غلط ہو یا صحیح اس کو بڑھا چڑھا کرپیش کردیا جائے گا مگر مظلوم کی حق و سچ بات کو بھی زیر زمین دفن کردیا جائے گا الا یہ کہ معاشرے کے بعض باحمیت افراد سوشل میڈیا کے ذریعے یا احتجاج و دھرنوں کے زور پر یک جان و قلب ہوکر نداء بلند کردیں کہ ان کی بات کو سننا مجبور ہوجائے ۔حال ہی کا واقعہ قصور اسی پر دال ہے۔یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے واقعات ملک کے طول وعرض میں مختلف شکلوں اور ہئیتوں میں آئے روز رونما ہوتے ہیں مگر ان مجرموں کو گرفت میں نہ لائے جانے کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اس طرح کی گہنوئی وارداتیں ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی کی صورت میں ،سردار و وڈیروں کی سرپرستی و نگرانی میں انجام دیتے نظر آتے ہیں۔جو کہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہی نہیں قابل مواخذہ ہے اور اگر ہمارا معاشرہ اپنے ہی حصہ افراد کی جان و مال اور عزت کی تحفظ کو یقینی نہیں بناتا جو کہ اسلام نے ہر انسان کو بغیر کسی امتیاز و تفریق کے عطا کیا ہے تو بدیہی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر عذاب الیم ضرور بالضرور مسلط کرے گا اور ہمارے متبادل کوئی نئی مخلوق برپا کرے گا کہ وہ اپنے ہم جنسوں کو انصاف و تحفظ فراہم کرسکیں۔

آخر میں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سانحہ قصور جیسے واقعات کی روک تھام اور سدباب کیلئے کام کرنا صرف حکومت کا کام نہیں بوجود اس کے کہ اہل حکومت کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہیںکہ انہوں نے اپنی مرضی سے ملک کی قیادت و سیادت سنبھالی ہے اور اس میں عوام نے ان کو منتخب کرکے اپنا محافظ جب مقرر کرلیا تو یقینی بات ہے کہ حکومت اپنی رعایا کو تحفظ جانی و مالی اور نسبی و عزت عصمت ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرے۔اس کے ساتھ معاشرے کے تمامی طبقات والدین، اساتذہ، مصلحین و داعی، سیاسی و مذہبی اور سماجی طبقات کے ساتھ صحافتی شعبہ سے وابستگان پر ضروری ہے کہ اپنے کم سن بچوں کی نگہبانی و نگرانی کریں کہ ان کے ہاتھوں میں جدید ٹیکنالوجی کے آلات دینے کے بعد اس کا مزید اہتمام کریں کہ کہیں بچہ بری سوسائٹی و گروپ کا حصہ نہ بن جائے ،تعلق و واسطہ قریبی عزیزوں اور دوستوں کے علاوہ قائم کرنے سے منع کیا جائے۔اجنبی افراد کی شیطانی نظروں سے حفاظت کے ٹھوس انتظامات کیے جائیں۔

سکول ،مدرسہ اور کالج و یونیورسٹی میں والدین یا خونی رشتہ دار خود چھوڑ نے اور لینے جائیں کیس ڈرائیو ر مالی یا ملازم پر بھروسہ نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی معاشرے میں اباحیت پھیلانے والے تمام ذرائع ٹی وی ،موبائل، سوشل میڈیا ، آئی فون، ٹیب وغیرہ کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے بوقت ضرورت استعمال کرنے کیلئے کڑی نگرانی کی جائے۔الیکڑانک و پرنٹ میڈیا کے وابستگان پر لازمی ہے کہ برائی کو دعوت دینے والی تمام خبروں ،اعلانات و اشتہارات کا انسداد کیا جائے کہ صرف چند سکوں کے حصول کی خاطر نیم عریاں تصاویر یا جرائم کی خبروں کی نشرواشاعت سے معاشرے میں اس کو مزید فروغ ملتا ہے اور بجائے روکنے کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اس مقولہ کو بطور مثال استعمال کرتے نظر آتے ہیں کہ” بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوگا ”اسی طرح مساجد و مدار اور سکول و کالج اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو اپنی جان و مال اور عزت کے تحفظ بارے رہنمائی و ہدایا ت دی جائیں اور بلوغت کو پہنچتے ساتھ ہی نوجوانوں کو رشتہ ازواج میں منسلک کردیا جائے تاکہ معاشرے میں فحاشی و عریانی کا خاتمہ ہوسکے چونکہ حضور ۖ نے فرمایا کہ نکاح کو عام کرو اور آسان کرو تو بے راہ روی خود بخود ختم ہو جائے گی۔

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر : عتیق الرحمن
(اسلام آباد)
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com