وطن عزیز کی نرالی جمہوریت اور سادہ لوح عوام

Democracy

Democracy

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
دنیا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے اور وطن عزیز میں وہی پٹ سیاپا چلا آرہا ہے کہ سپریم کون ہے آئین یا پارلیمنٹ ؟ یقین مانو عام آدمی بالخصوص سفید پوش طبقہ کو ان چیزوں سے زیادہ عزت کیساتھ اپنے دو وقت کی روٹی کا فکر سب سے زیادہ سپریم لگتا ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ اس ملک میں آپ کی یہ جمہوریت کچھ سیکھنے والا مزاج اپنائے گی۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کو چند ماہ گزرتے ساتھ اپنے ہی اداروں سے دشمنی کی بو آنے لگتی ہے اور پھر وہ سب کچھ بھول کر اس قدر بے زبان اور بے لگام ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی طرح کی ملکی دفاعی حکمت عملی ،وقار کو خاطر میں نہیں لاتے اور سرحدوں کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دینے والے عام جانباز سپاہیوں تک کو دشمنی کی لپیٹ میں لے جاتے ہیں ان دنوں عسکری اداروںسے بات آگے نکل چکی ہے جمہوریت پسند سیاسی شخصیات نے ملک کے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کیساتھ جنگ بنارکھی ہے۔بیس بائیس کروڑ کی عوام کیلئے فیصلے کرنے والی عدالتیں جب تمہارے کرتوتوں کے بارے کوئی فیصلہ سنادیں تو سڑکوں پر آکر اپنے ہی معزز اداروں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردو ،جمہوریت کوآڑ بنا لو کہ اس کے خلاف سازش ہورہی ہے کون سی جمہوریت ہے یہ جس کو روز مسئلہ بنا ہوتا ہے۔؟جمہوریت۔۔۔! اگریہ جمہوریت ہوتی تو بیس بائیس کروڑ عوام کے خلاف کسی ایک ادارے یا فرد کو بلاوجہ کاروائی کرتے ہوئے خوف آتا۔ ابھی تو یہ فیصلے بھی تمہاری جمہوریت کے خلاف نہیں ہوئے ان شخصیات کے خلاف ہیں جنہوں نے کوئی جرم کیا ان کے جرائم /غفلت پر قانون کے مطابق فیصلے ہیں لہذاانہیںاسی طرح مانا جائے جیسے بیس بائیس کروڑ عوام اپنی انہی عدالتوں کے فیصلوں کومان لیتے ہیں۔

رہی جمہوریت تو یہ اندھیرنگری ہے جس کوجمہوریت کا نام دیکر چند خاندانوں کی موج مستیاں لگی ہوئی ہیں یہ کسی بھی طرح جمہوریت نہیں ہے یہ کروڑوں پاکستانیوں کی حق تلفی ، انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھ کر ، ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر چند سیاسی خاندانوں اور ان کے حواریوں کو پالنے ، قانون سے بالاتر ہوکر من مانیاں کرنے کا لائسنس ہے، جو ہر چند سال بعد سیاستدانوں کی کرتوتوں ، لاقانونیت کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑتا ہے۔آپ کے رونے دھونے سن دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی اس جمہوریت کے مسئلہ کے سوا ملک سے ہر طرح کے مسائل کا خاتمہ ہوچکا ہے غربت کا نام ونشان باقی نہیں، صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولیات بلاتفریق ملنے سے ملک کے چپے چپے میں خوشیوں کا راج ہے بس ایک جمہوریت خطرے میں ہے اور پھر جمہوری لیڈروں نے اس وقت اپنی ساری توپوں کے منہ اپنے ہی اداروں پر کھول رکھے ہیں کیوں ؟کیونکہ ہم عادی ہوچکے ہیں اس طرز کی سیاست کے کہ کوئی ہمیں پوچھے مت ! شور شرابے، دھمکیوں اور پھر کہیں بہت زیادہ مصنوعی معصومیت،اس طرح کے طور اطوار سے اپنے من مانے ایجنڈوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جمہوریت اور ترقی کے راگ الاپنے والوں سے یہ پوچھناہے کہ کیوں سوائے آپ کے خاندانوں اور ذاتی کاروبار کی ترقی کے عام خاندانوں نے کہیں کوئی ترقی نہیں کی ؟ملکی خزانہ مقروض جبکہ آپ کے ذاتی بینک بیلنس نکو، نک”مطلب بھرے ہوئے۔

سمجھ سے باہر ہے کہ اقتدار میں آتے ہی اتنی دولت پا س آجانے کا فارمولہ کیا ہوتا ہے؟۔ حساب مانگنے والوں پر آپ برہم ہوجاتے اور جمہوریت کو خطرہ بتاتے ہیں آپ کے اسی چلن کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں اس وقت کسی شخص کی سوچ اجتماعی مفاد کی نہیں ہر جانب نفسا نفسی کا عالم ہے ،سرمایہ دارخاندان عام آدمی کا استحصال کررہے ہیں۔ دن بھر محنت مزدوری کرکے پانچ سو ،ہزار روپے تک کما لینے والوں کی جیبوں پر مختلف ٹیکسوں کے ذریعے قینچی چلائی جارہی ہے پروٹوکول کے نام پر قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔آپ کی پالیسیاں قطعا عوامی مفاد کی نہیں ہوتیں۔میرٹ پر نوکریاں اور انصاف نام کی چیز اس ملک میں ہوتی تو آج آپ کو ناانصافی کے نوحے نہ پڑھنے پڑتے۔ حکومتی رٹ کو قائم رکھتے تو کبھی اس سر زمین پر جرم کرنے والوں کو فرار نہ ہونے دیا جاتا فرار ہوجانے والوں کو ترجیحی بنیادوں پر انٹرپول یا دیگر ضروری کاروائیوں کے ذریعے ملک میں لاکر ان پر مقدمات بنائے جاتے اور تیز ترین ٹرائل کے ذریعے آئین قانون کی عملداری کو یقین بناتے اور انصاف کی مثالیں قائم کرتے۔

ملکی قرضوں میں اضافہ ،ادارے خسارے میں، ترقیاتی فنڈز میں غبن کارواج نہ ہوتا ۔اگر اس ملک کی عوام کو پڑھنے لکھنے دیا گیا ہوتا ،انہیں تعلیم ،شعور کے میدان میں آگے آنے دیا گیا ہوتا۔ مگر آپ ایسا کیوں کرتے کہ اس سے سیاست کا دم گھٹتا ہے گھٹن ہونے لگتی ہے باریاں نہ لگتیں، باری باری حکومت بنانے کی۔تعلیم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ہماری عوام سادہ لوح رہ گئی۔ نتیجہ؟یہی کہ انکی طرف سے چنائو ہی انہی افراد کا کیا جاتا ہے جنہیں عوامی مسائل سے زیادہ اپنی چوہدراہٹ کی فکر ہوتی ہے ویسے بھی ایک عام آدمی کیلئے یہاں سیاست کرنے کا چلن کبھی جگہ نہیں بنا پائے گا وجہ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ناپختہ شعور کی وجہ سے ہمارے ہاں پرکھوں کی روایات پر پہرہ دینے کی عادت بھی چلی آرہی ہے جس طرح زمانہ جاہلیت میں اندھی تقلید میں باپ دادا کے دین کو مقدم جانا تھا اسی طرح ہم اپنے بڑوں کی پیروی میں جمہوریت کے نام نہاد چمپیئنز کی محبت میں اندھے ہورہے ہیں ہم نے جمہوریت لفظ تو مہذب معاشروں سے اختیار کرلیا ہے مگر ہمیں اس جمہوریت کی الف ب کا بھی نہیں پتہ ہمیں اتنا معلوم نہیں کہ عام آدمی ہی جمہوریت کی اکائی دہائی سینکڑہ اور لاکھوں کروڑوں ہوتا ہے ہم اپنے لیڈروں کو ووٹ دیکر پانچ سال کیلئے اپنے اوپر مسلط تو کرلیتے ہیں مگر اس عرصہ کیلئے انہیں ہر طرح کی لاقانونیت کیلئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں کہ جائو اب جو ہوتا ہے کرو ہمیں جمہوریت کا درس دینے والوں کو یہ معلوم ہے کہ ہم (عوام)میں سے زیادہ تر سکولوں کے بھگوڑے ہیں جو اس سسٹم کے ثمرات کے نتیجہ میں ہی سکولوں سے باغی ہو کر گھروں کا چولہا گرم رکھنے اپنے مزدور باپ کا ہاتھ بٹانے کیلئے کسی بھٹہ یا فیکٹری پر مزدوری سے شام کو سو دوسو گھر لانے کی سوچ تک محدود ہوگئے پھر وہ بڑے ہوئے اور ان کی اولادیں بھی ایسی جمہوریت کی قائل مائل ہوگئیں ۔مہذب معاشروں میں عوام ناکام حکمرانوں کا احتساب کرنا جانتے ہیں ہم نے تو وہاں عوام کو ناکام لیڈروں کو کوڑے کے کنٹینروں میں ڈالتے ہوئے دیکھا ہے؟کیا یہاں کی جمہوریت میں ایسا ممکن ہے؟

کبھی نہیں وجہ یہ کہ خود کو الفاظ میں عوامی ہمدرد کہنے والے اپنا الو سیدھا کرتے ہوئے خود کو اداروں سے بھی مضبوط بنانے کی کوششیں تیز کردیتے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں ریاست کے اندر منی ریاست قائم کرنے کی کہ کوششیں کہ جہاں آپ کی ذاتی فورسز ہوتی ہیںاسلحہ کی سرعام نمائش ، آگے پیچھے اسلحہ بردار جو چند ٹکوں کی خاطر فرعونی رویے اپنا کر اپنے آقا کی مصنوعی ہیبت عوام پر طاری رکھتے ہیں اس طرح کوئی ان سے زبانی باز پرس کی بھی جرات نہیں کرسکتا کوڑے کے کنٹینروں کی راہ دکھانا تو بڑی دورکی بات ہے۔کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ لیڈروں تک اپنے مسائل کی شنوائی کیلئے رسائی حاصل کرلے مگر وہ چند افراد جو سیاستدانوں کے پالتو ہوتے ہیں انہی کے کام ہوتے ہی انہی کی گلیاں نالیاں پکی ہوتی ہیں سرکاری فنڈز سے سرمایہ داروں کو مزید نوازہ جاتا ہے ۔بااختیار پوسٹوں پر اپنے اور عزیز واقارب کے چشم وچراغ کھپا دیئے جاتے ہیںباقی نچلے لیول کی پوسٹوں پر اپنے پالتو ئوں کے چہیتے۔۔ اسی طرح بندر بانٹ کے سلسلہ کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔

باقی رہ گئے وہ عوام کہ جنہیں خوشامد کا چلن نہیں آتا یاوہ اپنے جمہوری لیڈروں کے دورپار کے بھی کچھ نہیں لگتے تو ان کیلئے یہاں بنا دیئے گئے ہیں کمیشن، ٹیسٹنگ سسٹم ، پی ایچ ڈی لیول کے ڈگری ہولڈر کی سبھی ڈگریاں کسی ایک این ٹی ایس ٹائپ ٹیسٹ کے سامنے بے کار ہوجاتی ہیں ! اخبارات میں نوکریاں مشتہر کی جاتی ہیں نوکریوں کے ٹیسٹ دینے کیلئے بے چارے لاکھوں لوگ اس امید پر ٹیسٹنگ نظام میں حصہ لیتے ہیں کہ شایدکہیں ایک آدھی سیٹ ان شکاریوں کی بے رحمی سے بچ جائے اور اسی امید میں آنے والوں کو کچھ دینے کی بجائے ان سے فیسوں کی مد میں لاکھوں کروڑوں بٹور لئے جاتے ہیں۔اس 10سالہ جمہوری دورمیں اپنے اردگرد ایسے سینکڑوں جوانوں کو آج بھی روزگار سے محروم دیکھ رہاہوں کہ جنہوں نے ان ٹیسٹوں میں اپنے ہزاروں برباد کرلئے اور اوورایج ہو کر مایوسی کی راہ لی۔اس ملک کی جمہوریت اگر عوام کیساتھ اتنی ہی مخلص ہوتی تو عام آدمی تک اس کے ثمرات کو دیکھا جاتا پالیسیاں ایسی بنائی جاتیں کہ ان پالیسیوں کی کامیابیاں جمہوریت کی کامیابی کی ضامن بنتیں ۔میرٹ میرٹ کا ورد حکمرانوں کی زبانوں پر غریبوں کو ڈی میرٹ کرنے کیلئے ہے ۔71برسوں میں حکمرانوں نے تعلیمی نظام میں بہتری کیلئے سنجیدگی نہیں دکھائی حکمرانوں کی اپنی اولادیں اعلیٰ ترین ملکی، غیر ملکی اداروں میںزیر تعلیم ، اسی طرح حاضر سروس بیوروکریسی کی اولادیں ہیں جبکہ غریبوں کیلئے وہی سکولز اور کنویں کے مینڈک تیار کرنے والابوسیدہ نظام تعلیم ، حاضر سروس اور بااثر ریٹائرڈ افسران بیوروکریٹ خاندانوں کی اولادیں اور آگے رشتے دار عزیز واقارب ہی ہر جگہ قابل ہوگئے ہیں ،انہیں بظاہر امیدوار سینڑوں میںبٹھایا جاتا ہے مگر نگران عملہ کے ذریعے،اثررسوخ کے نتیجہ میں اندرون خانہ معاملات طے کرکے اپنے چہیتوں کا میرٹ بنا لیا جاتا ہے۔

دیکھا جائے تومیرٹ تو حکومت کی اپنی طرف سے کہیں نظر نہیں آتا جب آپ اپنی عوام کیلئے مساوی تعلیمی سہولتیں فراہم نہیں کرتے تو روزگار کے وقت میرٹ کی بات کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے۔ ناکام حکومتی پالیسیوں کے بعد شفاف ترین طریقہ لوگوں کو روزگار میرٹ اور برابری کی بنیادوں پر دینے کا یہی ہے کہ کسی بھی ادارے میں ہونے والی تقرریوں کیلئے فرسٹ، سیکنڈ ، تھرڈ ڈویژن ڈگری ہولڈروں کا کوٹہ مقرر کیا جائے اور کٹیگری وائز پوسٹوں کیلئے امیدواروں کے ناموں کی پرچیاں ڈالکر اوپن قرعہ اندازی کروالی جائے جس پر قسمت مہربان ہوئی کوئی دوسرا گلہ نہیں کرے گا۔جہاں تک کسی پوسٹ کیلئے تجربہ ،سمجھ بوجھ کا تعلق ہے کسی بھی کام کیساتھ وابستہ ہونے سے سب کچھ خود آجاتا ہے ووٹ کی پرچی سے جمہوریت جمہوریت کے نام پر قوم کے لیڈر بننے والے جب خود مشیر وزیر بنتے اور اداروں کا نظام چلاتے ہیں ان کے پاس کون سا تجربہ اورقابلیت ہوتی ہے؟ کام کرنے سے انسان سب کچھ سیکھ جاتا ہے۔

اگر ووٹ دینے والے کیلئے تعلیم اور شعور کچھ اہمیت نہیں رکھتے اور آ پ انہی کے ووٹوں پربغیر کسی ڈگری، تجربہ کے وزیر، مشیر وزارت اعلی و عظمٰی انجوائے کرسکتے ہیں تو کم ازکم ڈگری ہولڈر پڑھے لکھے عام آدمی کو نوکری دینے کیلئے بھی اتنے سخت میرٹ اور قوانین کا رستہ نہ اپنایا جائے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ قوم کی بہتری کیلئے انصاف سے کام لیا جائے اگر ایسا نہیں ہوگا تو آپ خود بھی انصاف کیلئے رل جائیں گے اور پھر یہ جمہوریت کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ یہ عوام پڑھی لکھی اور شعور والی تو بننے ہی نہیں دی گئی اور یہ لائی لگ (بہک جانے والی ) ہے کسی کے بہکاوے میں بھی آسکتی ہے چاہے وہ اسلحہ بردار ہو یا کوٹ والا ۔۔!!عوام کیساتھ عدم تعاون کے معاملہ کی موجودگی میںاگر آپ کہیں ناں کہ آپ کے دفاع میں لوگ یہاں ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں گے تو یہ آپ کی بڑی بھول ہوگی اس لئے اپنی عوام کیساتھ ہاتھ کرنا چھوڑ کر نیک نیتی اور دیانتداری سے کام لیںنام نہاد شرافت کا لبادہ اتار کر حقیقی معنوں میں عوامی خدمت ،ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے اقدامات اٹھائیں۔اگر وطن عزیز پر آپ اپنی جانیں قربان کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیںاور اس کی فلاح وبہبود کیلئے آپ واقعی سنجیدہ ہیں یا آپ پرعوام کی خدمت کرنے کا اتنا ہی جنون سوار ہے تو آئو بسم اللہ کرو ۔آغاز کرو اپنی نامی ،بے نامی جائیدادوں کو ملک وقوم کی ترقی پر وار دو،لائو اپنے ظاہری اور خفیہ اثاثوں کو ملک میں اس ملک کا قرض بھی اترے یہاں کی عوام بھی خوشحال ہو مگر ایسا ہر گز نہیں کروگے ۔کیونکہ ملکی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہاں ایک بارسیاستدان بن جانے والا پھر ساری عمر سیاستدان ہی رہتا ہے اسے کچھ اور بنانے کی چاہے جتنی بھی کوشش کرلی جائے وہ کچھ اور نہیں بن سکتا۔

AQEEL AHMAD KHAN LODHI

AQEEL AHMAD KHAN LODHI

تحریر : عقیل احمد خان لودھی