ترقی کی بنیاد

Labor -Struggle

Labor -Struggle

یوں تو دنیا میں زندگی گزارنا آسان نہیں ہے اس کے لئے بڑی محنت اور جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے ، نہ جانے کتنے دنوں کو رات میں بدلنا اور کتنی راتوں کو دن میں تبدیل کرنا ضروری ہوتاہے۔کتنی ہی صبح ہیں جو شام کی صورت میں ڈھل جاتی ہیں اور کتنی شامیں ہیں جو رات کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں، ہر لمحہ بھاگ دوڑ ، تلاش، جستجو اور کچھ پا لینے کا خیال اور کچھ حاصل کر لینے کا جذبہ دلوں میں کارفرما رہتا ہے۔اور جو لوگ ان اوصاف سے مالا مال ہیں وہ ایک زمانہ تک اسی نہج پر زندگی گزارتے ہیں۔پھر آہستہ آہستہ ان میں ٹھہرائو آجاتاہے اور ساتھ ہی عمرِ رواں بھی بڑھتی رہتی ہے ، ضعیفی اور کمزوریوں کا حملہ بھی ہوتاہے اعضائے جسمانی بھی سُست اور مضمحل ہو جاتے ہیں مگر جن لوگوں نے اپنی جوانی کی توانائیاں خود کو جمانے،بسانے اور آباد کرنے میں صرف کیں یقینی طور پر ان کا بڑھاپا آرام دہ اور اطمینان بخش گزرتاہے۔

مگر جن لوگوں نے اپنی جوانی کو ضائع کیا اور وقت کی قدر نہ کی، صحت سے فائدہ نہ اٹھایا، مواقعوں کو نہ پہچانتے ہوئے اسے ضائع کیا اور سب سے بڑھ کر گزرتے ہوئے وقت کی قدر نہیں کی،اپنے صحت سے فائدہ نہ اٹھایا وہ تمام عمر دکھی ہی رہتے ہیں۔اور ان کا آخر بھی دکھوں میں ہی گزرتاہے۔جب ہم سب کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں بغیر اصول اور ضابطۂ اخلاق کے وقت گزارنا نہایت مشکل ہے اور یہاں کچھ پانے کے لئے بہت کچھ کھونا شرط ہے ، مثلاً نیند کھونی ہے، آرام کو تج دینا ہوتاہے، خواہشات کو قربان کرنا پڑتا ہے اور دیگر تقاضوں سے منہ موڑنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر کامیابی قریب آتی ہے اور کامرانی کی منزلیں آسان نظر آتی ہیں۔یہ دنیا جس میں انسان کو بہت مختصر عرصہ گزارنا ہے ایسے میں اس کا وقت کاکھونا درست نہیں ہوتاجب تک اپنا سب کچھ اس کے دامن میں نہ ڈال دیاجائے، دنیا مٹنے والی ہے مگر دیکھئے کہ اس کا حصول کتنا دشوارہے۔

یہ ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ، تو پھر آپ سب کا کیا خیال ہے اُس زندگی کے بارے میں جو دائمی ہے اور جو شروع ہوگی تو پھر اس پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔جس کا آغاز ہوگا تو اس کی انتہا نہیں ہوگی نہ اسے دنوں میں سمیٹا جا سکتا ہے اور نہ مہینوں سے اس کا احاطہ کیاجاسکتاہے۔ نہ سالوں میں اسے قید کیاجاسکتاہے ۔اس کی شروعات تو ہے اختتام کوئی نہیں، آغاز اچھا ہو کبھی اس کے بارے میں بھی آپ سب کے ذہنوں میں کوئی خیال اُمڈ کر آیاکبھی آپ سب نے تصورکیاکہ یہاں سے جب آپ کی رخصتی عمل میں لائی جائے گی تو آپ کے پاس کوئی توشہ اور کوئی سامان ایسابھی ہے جو آپ کی نجات کا ذریعہ بن جائے اور رضائے رب کا موجب ہو جائے، اسے غفلت ہی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے کہ پچاس ساٹھ سال یا اس سے کچھ زائد سالوں تک کی زندگی میں تو اتنے ڈھیر سارے سامان فراہم کئے جائیں کہ ان کی فراہمی میں انسان دوہرا ہوجائے۔

Injustice-Oppression

Injustice-Oppression

اس کی پیٹھ زمین سے لگ جائے، نہ اسے صبح کا پتہ چلے نہ شام کا احساس ہو، نہ دن گزرنے کی خبر ہو اور نہ رات ختم ہونے کا اندازہ ہو سکے۔انسان کی اصل کامیابی تویہ ہے کہ اس دنیا میں سچائی اور ایمانداری کے بعد جیسی بھی گزرے اسے انسان صبر و رضا کے ساتھ گزارے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی فکر کرے، ہم سب کا المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس دنیا میں جس مقصدِ عظیم کے لئے بھیجا گیا ہے اسے ہم نے بھلا دیا اور اسکی بنیاد کو فراموش کر دیاہے، جو ہماری زندگی کا اصل جڑ ہیں۔بہت بار آپ سب نے پڑھا بھی ہوگا اور یقینا سنابھی ہوگا کہ بے ایمانی، نا انصافی، ظلم، جبر اور زیادتی جن انسانوں میں پائی جاتی ہے وہ بہ ظاہر تو بڑے آرام کی زندگی گزارتے ہیں مگر حقیقت میں وہ ہمہ وقت بے چین اور مضطرب ہی رہتے ہیں۔

حقیقی سکون اور راحت ان کو نہیں مل پاتی، وہ اپنے ہتھکنڈوں، مکر و فریب، جھوٹ و دغا بازی، عیار ی ، مکاری سے دولت جمع کر نے کے تگ و دُو میں مصروف رہتے ہیں ، زمین جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں لیکن ان کے نامہ اعمال میں کسی نیکی کا، کسی بھلے کام کا اندراج نہیں ملتا۔چنانچہ وہ جب دنیا سے کُوچ کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ نہ صرف خالی ہوتے ہیں بلکہ تاسف اور تحسر کی نظریں اپنے گرد و پیش میں ڈالتے ہیں تو انہیں محرومیوں ، مایوسیوں اور نامرادیوں کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا، انہیں یہ احساس ستانے لگ جاتا ہے کہ ان کا وقت آخر ہے انہوں نے اس دنیا میں رہ کر کچھ کمایا نہیں بلکہ بہت کچھ کھویا ہی ہے۔

اگر یہ احساس و خیال انہیں اپنی جوانی میں، اپنی صحت اور اپنے اچھے دنوں میں آجاتا تو بات اس طرح نہ بگڑتی اور انہیں کوئی شکوہ بھی نہیں ہوتا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ہر نعمت دی تھی، صحت بھی دی، دل و دماغ کی قوتیں بھی بھرپور دیں، سب کچھ عطا کیا گیا تھا مگر ان کو ایسے کاموں میں ضائع کیا گیا جو باقی رہنے والا نہیں تھا، اس زندگی کا حاصل کیا رہ گیااور اس شخص کی زندگی کیا جو اپنی ذات کے خول میں قید رہنے اور صرف اپنے بارے میں سوچنے اور اپنے بارے میں فیصلے کرتا۔ یہ بھی غنیمت ہی تھا کہ وہ ایسا کر رہا تھا مگر اس نے اپنی اس زندگی کا جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی جو ہمیشہ رہنے والی تھی۔ہمارے نزدیک تو کامیابی کا معیار یہ نہیں ہے کہ آپ کے پاس کتنے مکان ہیں، کتنی دکانیں ہیں، کتنے باغات ہیں، کتنی ایکڑ زمین ہے، اور کتنا بینک بیلنس ہے۔

Allah

Allah

بلکہ معیار یہ ہے اور اسے ہی ترقی کی بنیاد سمجھنا چاہیئے کہ کتنی نمازیں پڑھیں ہیں کہ جنہیں قبولیت حاصل ہوئی، کتنے روزے رکھے ہیں جنہیں لوٹایا نہیں گیا، کتنی نیکیاں کی ہیں جنہیں قبولیت مل گیا۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو زندگی بے معنی لا حاصل اور بے سود ہے۔ اس سچائی کو قبول کر لینے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیئے اور ہم سب کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں اپنی شکست نہ سمجھنی چاہیئے
کہ خدا نے ایک نظام کے تحت اس دنیا میں بھیجا ہے اور ہمیں نظم و ضبط کے ساتھ یہاں رہنا ہے نہ تو دنیا کی طرف اتنا جھکے کہ آخرت سے بے پرواہ ہو جائے اور نہ دنیا سے اتنا بیزار ہو کہ ایک ایک ٹکڑے اور ایک ایک لقمے کے لئے ترسنے لگے ۔ اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو۔ دنیا کا پانا بھی ضروری ہے اور آخر کی تیاری کرنی بھی سب پر لازمی ہے جو اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں کامیابی دراصل انہیں ہی کہا جائے گا اور ایسے لوگ ہی مقصدِ زندگی سے کما حقہ,واقف سمجھے جائیں گے۔ ایک سمت میں برق رفتاری اور تیزی کے ساتھ دوڑے اور دوسری سمت کہ جس کا تعلق اس کی دائمی زندگی سے ہو اس سے منھ موڑ لے اسے دانشمندانہ عمل نہیں کہا جا سکتا۔

ہم سب خود بھی دیکھتے ہیں اور ہمارا روز کا مشاہدہ بھی ہے کہ اگر آدمی چند کام بیک وقت چھیڑ دیتا ہے تو کسی کام کو بھی ڈھنگ اور سلیقے سے مکمل طور پر انجام نہیں دے پاتا، نہ تو وہ ان کاموں میں کوئی درک اور مہارت حاصل کر سکتا ہے اور نہ اس کے واقعی منافع پا سکتا ہے تو جب دنیا اور دین دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں تو ایک کو چھوڑ دینا دوسرے کو پکڑ لینا، دوسرے کو نظر انداز کرنا اور پہلے پر نظریں گاڑے رکھنا کسی باشعور انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ بہت باریک بینی کے ساتھ اپنے احوال کا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ اسی محاسبہ میں ہمارے اُخروی انجام کا راز مضمر ہے جنہوں نے اس راز کو پا لیا سمجھ لیجئے کہ ان کے لئے یہاں اور وہاں یعنی دنیا اور آخرت کی منزلیں بہت آسان ہو جائیں گی۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی