صدیوں پرانی ایک کہانی آج بھی

King

King

تحریر:مسز جمشید خاکوانی

محمد شاہ بادشاہ (١٥٧) دہلی کے زمانہ میں ہند میں طوائف الملوکی کا زور تھا۔ سلطنت کی جڑیںاُکھڑچکی تھیں ملک میں بد امنی شورش اور نا انصافی کا چرچا تھا۔ بادشاہ رات دن مئے و معشوق میں رہتا خود اراکین بھی بادشاہ کی غفلت و سرشاری کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے تھے نظام الملک صف(١٥٨)جاہ اول جس نے بعد میں حیدرآباد دکن میں اپنی الگ مستقل سلطنت قائم کر لی یہ حال دیکھتا تھا لیکن خود غرض اراکین کی کثرت اور بادشاہ کی کم فہمی کی وجہ سے بادشاہ کو کچھ کہہ نہ سکتا تھا۔

آخر ایک دن جی کڑا کر کے بادشاہ سے کہا ملک کی حالت خراب ہو رہی ہے اجارہ دار رعایا پر شدید ظلم کر رہے ہیں اجارہ داری کا دستور جو ملک کی خرابی اور ویرانی کا باعث ہے برطرف ہونا چاہیئے اور رشوت جس کو پیشکش کی آڑ میں دل پسند بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور جو باشاہوں کے آداب سے بعید اور رائے سلیم کے خلاف ہے موقوف ہونی چاہیئے ایسی ہی چند باتیں اور کیں ۔

بادشاہ نے اپنے امرا سے مشورہ کیا بھلا وہ کب چاہتے تھے پیشکش اور اجارا داری محالات موقوف ہو کیونکہ یہ مدیں آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تھیں۔امرا نے بادشاہ کو نظام الملک کے خلاف ایسی پٹی پڑھائی کہ بادشاہ بد گمان ہو گیا اور نظا م الملک اپنی عاقبت اندیشی اور اپنی آبرو کے
لحاظ سے آخر ربیع اول ٦ ہجری میں جلوس محمد شاہی کو دکن کی طرف چلا گیا۔
محمد شاہ خود تو بندہ عیش تھا ہی اس کی نا لائقیوں نے ہندوستان کی مغل سلطنت کو بہت ضعف پہنچایا مگر اس کے امرا اور وزرا بھی خود غرضیوں ‘ چالبازیوں’ اور مکرو فریب کا ایک بدترین نمونہ تھے دیکھتے تھے

مرکز سلطنت سے باہر طوائف الملوکی کا دور دورہ ہے ہر صوبہ خود سر ہونے کی کوشش میں ہے مگر ان صوبوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش اس لیئے نہیں کرتے تھے کہ اگر بادشاہ سے جدا ہو گئے تو بادشاہ کسی اور کے اثر میں آ جائے گا اور پھر ہمارے خطاب و مناصب قائم نہ رہیں گے۔

چنانچہ ١٧٣٥ء میں جب بادشاہ اور اس کے خودغرض امرا ء کی غفلتوں کی بدولت مرہٹہ سپہ سالار دہلی تک آ گیا اور بادشاہ محل میں جا چھپا تو امیر الا امراء خان دوراں اور نواب قمر الدین وزیر نے صرف اپنے اعزاز و منصب کی خیر منانے کے لیئے انتہا درجے کی ذلت قبول کر کے صوبہ جات دہلی و آگرہ کی آمدنی کا چوتھا حصہ مرہٹوں کو دینا قبول کر لیا ۔ سعادت خان صوبیدار اودھ جو بہترین لشکر رکھتا تھا سلطنت دہلی کی اس بزدلی و بے شرمی سے بر افروختہ ہو کر محمد شاہ سے اجازت لیئے بغیر اودھ چلا گیا شاہان اودھ اسی سعادت خان کی اولاد میں سے تھے جن کے قبضہ اقتدار میں اودھ کی سلطنت ١٨٥٦ء تک رہی ہے۔

جنوری ١٧٣٩ء میں جب نادر شاہ نے ایران سے آ کر محمد شاہ پر فتح پائی ہے تو اس نے بھی شہنشاہ ہند کو اس کمزوری پر ملامت کی جو مرہٹوں کے مقابلے میں اس سے ظہور میں آئی تھی اور جس کی وجہ سے ادائیگی چوتھ کا اس نے اقرار کیا تھا بلکہ بقول فریزر صاحب نادر شاہ حملہ ہند کے لیئے جب کابل میں پہنچا تو اس نے وہاں سے محمد شاہ کو ایک خط میں لکھا کہ میرا کابل آنا اور صوبہ پر قبضہ کر لینا محض حمیت اسلامی اور آپکی دوستی پر مبنی ہے میرے ذہن میں بھی کبھی یہ بات نہ آئی تھی کہ دکن کے مرہٹے دہلی کے شہنشاہ پر ٹیکس لگائیں گے (کتاب ہندوستان پر حملے صحفہ ١٤٧ )۔۔۔۔۔محمود خان کشمیری جس کا بادشاہ کے دربار میں بڑا رسوخ تھا نے ملک کی یہ افسوس ناک حالت دیکھ کر ایک دن تمام امراء کو جمع کیا اور کہا ائے امرائے سلطنت ! ہمارے بادشاہ کی نا لائقیوں سے سلطنت برباد ہوئی جاتی ہے

قیام سلطنت کے اسباب نظر نہیں آتے دن رات مئے و معشوق میں غرق ہے ،اس کی متلون مزاجی آپ سے پوشیدہ نہیں ہے، کسی دشمن سے لڑنے کی اس میں جرات نہیں اپنے خیر خواہوں اور دوستوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتا اور ان کو اپنا دشمن بنا رہا ہے ،راست بازی کا اس میں شائبہ بھی نہیں اگر اکبر و اورنگ زیب کی وسیع سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو کسی اور شہزادے کو تخت پہ بٹھائو ۔ورنہ یاد رکھو نہ تم رہو گے نہ سلطنت رہے گی۔”

History

History

قارئین! میں تاریخ کے اوارق پر لکھی یہ کہانی پڑھ کر ماضی کے بجائے حال میں پہنچ گئی ایسا لگ رہا تھا صرف نام بدل گئے ہیں کام وہی ہیں نا اہلی ، نا لائقی ،بد عہدی،نا عاقبت اندیشی ،وہی کوتاہ بین وزیر مشیر ،وہی خوشامدی درباری جو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر محض اس وجہ سے ساتھ دینے کا عہد کرتے ہیں کہ ان سے ان کے خطاب و مناصب نہ چھن جائیں ،ہمارے سابق آقا انگریز تو یہ دور دیکھ چکے ہیں بھگت چکے ہیں اس لیئے انہوں نے بلا تامل ” ہز ہائی نیس ” کا خطاب دے دیا ہے

بجائے عزت دینے کے ۔۔۔ محمود خان کشمیری نے تو امراء کے ساتھ مل کر ایک اور شہزادے کو عالمگیر ثانی کا خطاب دے کر تخت پر بٹھا دیا تھا لیکن اس جمہوریت میں تخت نہیں صرف تختہ ہوتا ہے ۔۔۔۔ ( تذکرہ العلماء و المشائخ صحفہ ٤٥ ) پر لکھا ہے احمد شاہ ابدالی ابتدا میں نادر شاہ کا ایک فوجی افسر تھا لیکن نادر شاہ کی ناگہانی موت سے ایرا ن و افغانستان میں اس قدر انقلاب ہوا کہ یہ فوجی افسر رفتہ رفتہ افغانستان کا جلیل القدر بادشاہ ہو گیا جس کی قلمرو میں اس وقت ہرات و مشہد کے علاوہارد گرد کے اور ممالک بھی تھے ۔

اس کی طاقت اتنی مستحکم اور زبردست تھی کہ وہ چاہتا تو با آسانی تخت ایران حاصل کر سکتا تھا لیکن اس نے ہندوستان کی طرف نگاہ دوڑانی مناسب نہجھی جسکو نادر شاہ نے بڑی سختی سے لوٹا تھا تا ہم وہ اب تک ایک متمول ملک سمجھا جاتا تھا ۔لاہور کو ان فوجوں نے لوٹا ہے اور بار بار لوٹا ہے ایسی ہی ایک لوٹ کے دوران میں احمد شاہ ابدالی کو عید کا دن لاہور میں آ گیا مسجد وزیر خان میں نماز پڑھی مولوی محمد صدیق امام مسجد تھے انہوں نے خطبہ میں احمد شاہ ابدالی کو سلطان عادل کہا مولانا شہر یار بھی جو لاہور کے عالم متجر تھے

جن کا سلسلہ درس بھی لاہور میں محمد شاہ بادشاہ کے زمانہ میں جاری رہا وہ بھی شامل نماز تھے مگر ذرا دور تھے لوگوں نے ان کو خبر کی کہ امام صاحب نے ابدالی کو محض خوشامد میں سلطان عادل کہا ہے حالانکہ اس کے ظلم و ستم سے تمام شہر نالاں ہے ۔آپ امام کے پاس آئے ابدالی بھی وہیں تھا بادشاہ نے قدم بوسی کی ۔ آپ نے منع کیا کہ شریعت ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتی ۔پھر مولوی محمد صدیق سے (جو آپکے شاگرد بھی تھے )کہا تم کو معلوم ہے پٹھانوں نے شہر والوں پہ کس قدر ظلم و تشدد کیئے ہیں بادشاہ سے کتنی بار فریاد کی گئی کیا ایک مرتبہ بھی اس نے داد رسی کی ؟ اسلام ایسے بادشاہ کو عادل کہنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ بادشاہ ناراض ہوا اور آپکو جلا وطن کر دیا ۔

حق بات کہنے کی سزا تو آج بھی ملتی ہے بادشاہت کی طرز کی اس جمہوریت میں گستاخی کی سزا بھی ملتی ہے ۔۔ ارجمند نامی اس شخص کو نوکری سے نکلوا دیا گیا ہے جس نے وی آئی پی کلچر کو ہٹ کیا تھا ۔رحمن ملک گو کہ اب فلائٹ سے ایک گھنٹہ پہلے ائیرپورٹ پہنچ جاتے ہیں اس طرح دوسرے وی وی آئی پیز کو بھی کان ہو گئے ہیں عوام کے تیور ٹھیک نہیں ،شائد ان کے خیال میں یہ پرانی کہانی تا قیامت چلتی رہے گی ،لیکن اب ایسا ہوگا نہیں اس ظا لم نظام کے ٹوٹنے کا وقت آ پہنچاہے اب ظالم کو ظالم ہی کہا جائے گا عادل نہیں خدا کرے ہمیں بھی حقیقی جمہوریت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملے جس کا خواب عمران خان کے ساتھ لاکھوں لوگوں نے دیکھا ہے !

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر:مسز جمشید خاکوانی