مکروہ کاروباری حضرات کس سزا کے مستحق ہیں؟

Snake Soup

Snake Soup

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
ویسے تو دنیا میں سب سے مہنگی ڈش سانپ کا سوپ ہے جو کہ چائنا میں انتہائی مہنگے داموں اعلی ہوٹلوں میں بکتی ہے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح اور مقامی دولت مند افراد مزے لے لے کر اسے پیتے اور ڈکارتے ہیں ویسے بھی چائنا میں سانپ شوق سے کھایا جا تا ہے۔ کئی ممالک میں کوے کو بھی حلال جانور قرار دے کر کھایاپکایا جاتا ہے اور سور کا گوشت تو بیرونی ممالک میں ہر جگہ موجود ملتا ہے مگر حلال زبیحہ کا ملنا محال ہے۔ کسی پاکستانی یا اسلامی ملک کے ہوٹل کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں۔ ہمارے دین کے مطابق سور کا گوشت حرام ہے۔ نابغہ عصر اورعقبری اسلام مولانا سید ابو الاعلی مودودی سے سوال کیا گیا کہ سور کا گوشت کیوں حرام ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ جانور انتہائی بے غیرت واقع ہوا ہے۔

ایک ہی ریوڑ میں پیدا ہو کر اپنی ماں، بہنوں سے بھی بدفعلی کرنے سے بعض نہیں رہتا اس لیے جو قومیں اس کا گوشت کھاتی ہیں ان پر اس کے اثرات بھی ویسے ہی مرتب ہوتے ہیں اور وہ نائٹ کلبوں میں اپنی ہی بیویوں، بہنوں کو لے جاتے ہیں۔ دیر رات میں جب سبھی کلب کے ممبرز نشوں میں مدہوش ہو جاتے ہیںاور وقت مقررہ پر لائٹیں تک بھی بند کردی جاتی ہیں تو پھر کسی کو ہوش کہاں؟ کہ کونسی تھی کسی کی بہن اور کہاں گئی آپ کی زوجہ محترمہ صاحبہ۔ کپل ڈانسوں میں ہر جوڑا خود بخود تیار ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارادین اسلام ہر قسم کے زنا کے قطعاً خلاف ہے۔

ویسے بھی بیرونی ممالک میں جو عورت نقاب اوڑھتی ہے وہی مجرمہ ٹھہرتی ہے حالانکہ جس عورت کا حجاب ہی اتر گیا پھر کہاں گئی نسوانیت اور کہاں گیا اخلاق۔ جہاں بیوی اور بہن کا تصور ہی ختم ہو گیا پھر وہ معاشرے کیسے چل سکے گا۔کسی بیرونی ترقی یافتہ ملک کے اندر کوئی دس منٹ کے لیے بجلی بند ہو جائے تو زیر زمین چلنے والی ٹرینوں بڑے کاروباری پلازوں وغیرہ میںڈکیتی اور زنا کی ہزاروں وارداتیں ہوجاتی ہیں اور ایسی تباہی مچتی ہے جو عرصوں یاد رہے۔یہ ان قوموں کا احوال ہے جو اپنے آپ کو انتہائی قانون کی پابند اور محافظ بتاتی ہیں۔

Law

Law

پاکستان میں تو کبھی کبھار جب”محتری و مکرمی قصائی صاحبان ” خود گدھے اور کتے کا گوشت کھا کھا کر دل اچاٹ ہوتا محسوس کرتے ہیں تو ” مہربانی” فرما کر ہمیں بھی ان کا مزا چکھانے کے لیے انھیں ذبح کرکے ہماری خوراک کا بھی حصہ بنا ڈالتے ہیں۔کہ ہم ان کے مسلمان بھائی جوہو ئے۔شرم ہمیں اور انھیں مگر نہیں آتی!عید ،شب برات اور دیگر مذہبی تہواروں پر چونکہ افراتفری ہوتی ہے جس سے گوشت بیچنے کی دوکانوں پر چھینا جھپٹی کا سامان ہوتا ہے اس لیے قصائی بھائی اپنا “کام” ڈال دیتے ہیں ۔مذکورہ بالا گزارشات تمہید کے طور پر عرض کی ہیں میں اب اصل بات کی طرف آتا ہوںکہ کھالیں خریدنے اور بیچنے والوں کاایک انتہائی خفیہ کاروبار بھی ہے۔

جو کہ انتہائی کریہہ اور غلیظ ترین کاروباروں میں اولیت اختیار کرچکا ہے جب آپ کو پتہ لگے گا تو آپ بھی انگشت بدندان رہ جائیں گے یہ ہے “لیلی ” کا کاروبار ۔یہ غلیظ کاروبار کرنے والے ا ب تو اربوں پتی ہیں ۔اپنی زمینوں پر بہت ساری بھیڑ،بکریاں،دنبے پالتے ہیں پھر جو جانور حاملہ ہوجائے اسکی سخت تحقیق رکھتے ہیںکہ اب نوزائیدہ بھیڑ کا بچہ کتنے ماہ کا ہو گیا ہو گا۔ مختلف افراد مختلف تاریخوں پر جانورکو ذبح کرکے اس کا بچہ اسکے پیٹ سے نکال لیتے ہیں۔

نوزائیدہ معصوم بچے کی کھال بالکل ریشم کی طرح ہوتی ہے اور بیرونی دنیا میں اس کی قیمت پوری بھیڑ،بکری ،دنبے کی قیمت سے بھی سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔اغلب امر یہی ہے کہ جو سردیوں کے لیے ٹوپی بیرونی ممالک لاکھوں روپوں کی ملتی ہے وہ یہی ذبح شد معصوم بچے کی کھال کی بنتی ہے۔بھلا اس کاروبار کو کیا کہا جائے گا۔جو نوزائیدہ بچوں کو نارمل پیدائش سے قبل اس کی ماں کو زبح کرکے نکال کر صرف کھال استعمال ہوتی ہے۔اس طرح یہ مکروہ کاروباری حضرات لاکھوں کماتے ہیں۔

Murder

Murder

کسی جاندار انسان کو قتل کرنے پر تو پھانسی کا پھندہ لگ جاتا ہے مگر ابھی جو پیدائش کے قابل ہی نہ ہوا ہو تو اس کی والدہ بھیڑ بکری یا دنبے کو زبح کرکے اس کا چند ماہ یاکم کا بچہ نکال کر صرف اس کی کھال کے حصول کے لیے یہ مذموم اقدام کرناکیا قابل گردن زدنی اور تختہ دار پر کھینچ ڈالنے والا عمل نہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام بیچ اس مسئلہ کے؟ایسے کاروبار کرنے والے بظاہر اپنے آپ کو بہت نیکو کار ،مدارس مساجد،مندربنوانے والے ہوں گے نذر نیازوں اور خیراتوں پر بھی زور ہو گا تاکہ عام افراد اور انتظامی مہرے ان کا نقاب الٹا کر غلیظ اور مکروہ چہرہ نہ دیکھ سکیں۔خدا ہی انھیں ہدایت کی توفیق دے سکتا ہے۔

دوسری طرف ہندو بنیے تو آج بھی نوزائیدہ انسانی بچہ اگر فوت ہوجائے توتازہ دفن شدہ کے مختلف اعضاء قبروں و مرگھٹوں سے نکال کر مختلف جڑی بوٹیاں استعمال کرکے نام نہادادویات تیار کرتے ہیں۔انہی ہندو با بوئوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ شہد کے بڑے ڈرم میں نوزائیدہ بچہ اتنے عرصے تک ڈبو کر رکھا جائے اور اسے کئی درجن سالوں کے بعد استعمال کریں تو وہ امرت دھارا کاکام دیتا ہے وہ ایسی تمام بیماریوں کا علاج کرسکے گا جو مریض عام ادویات سے تندرست نہیں ہو سکے۔

ہندوئوںکے دیگررسم و رواج پر کبھی تفصیلاً بات ہو گی۔مسلمانوں کے عقائد کے مطابق تو کسی جادو ٹونے اور کالے علم کا کوئی اثر نہیں۔ہم خدا وند کریم اور اسکی طرف سے بھجوائی گئی راہ ہدایت پاک کتاب قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی دین و دنیا میںفلاح پا سکتے ہیں اور بدرجہ اتم سکون قلب بھی حاصل ہو گا۔ہماری تکالیف اور تمام مسائل کاحل اسلامی عقائد کی پیروی میں ہی مضمر ہے۔

Ihsan Bari

Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری