کُتے کی شہادت

Shahid

Shahid

اسلامی فقہ میں شہید سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے وطن ا ور اپنے مذہب کی حفاظت کیلئے اللہ کی راہ میں مارا جائے۔ اس کے علاوہ شہادت کی کچھ دوسری صورتیں بھی ہیں جو احادیث میں وارد ہوئیں مگر یہ وہ اصل شہادت نہیں جو مطلق معنی میں نصوصِ شریعت کے اندر مذکور ہیں۔ اصل شہادت یہی ہے کہ جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ حق پر قائم ایک شخص کو حق پر چلنے کی پاداش میں اہل باطل کی جانب سے موت دی جانے کی صورت میں واقع ہوتی ہے۔

یہی تعریف ہم بچپن سے نصابی کتب میں بھی پڑھتے آئے ہیں مگر حالیہ دنوں میں معرضِ وجود میںآنے والی ایک نئی تعریف کے مطابق اب کُتوں کو بھی شہادت کے اِس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے سے کوئی مائی کا لال نہیں روک سکے گا۔ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کے بعد جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان بیان بازی کا زبردست مقابلہ دیکھنے میںآیا۔ جماعت اسلامی کی طرف سے منور حسن صاحب نے بیان بازی کا زبردست چوکا لگا کر حکیم اللہ محسود کو ڈائریکٹ شہادت کے رُتبے پر پہنچا دیا تو جواب میں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے زوردار چھکا لگا کر کُتوں کو بھی اِص صف میں لاکھڑا کر دیا۔

موصوف فرماتے ہیں کہ اگر امریکا کسی کُتے کو بھی مارے گا تو اُن کے نزدیک وہ بھی شہادت کے رُتبے پر فائز ہو جائے گا۔ مولانا کے اس فرمان کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں جو لوگ مارے گئے وہ بھی شہید ہیں، ویتنام کی جنگ میں مرنے والے ہزاروں کمیونسٹ اور دوسری جنگ عظیم میں مارے جانے والے نازی بھی شہادت کے رُتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ گزشتہ ماہ اکتوبر میں مولانا کا خفیہ دورہ افغانستان پاکستانی اور افغان طالبان کو ناراض کر گیا تھا۔

طالبان کا خیال ہے کہ مولانا اُن کے نام پر سیاست کر رہے ہیں، اس لیے حالیہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مولانا صاحب نے ایسا بیان دے کر طالبان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن گتھی پھر بھی نہیں سلجھی کہ آیا مولانا کے اس بیان سے شہید کی توہین ہوئی یا پھر اِس سے کُتوں کی توقیر مقصود ہے، البتہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کا کہنا ہے کہ ایسی بات کرنے سے مراد اگر مثال دینا تھی تو کچھ بہتر مثال دے دیتے مگر مولانا نے شہید جیسے مقدس لفظ کو کُتے سے منسوب کرکے دین کا مذاق اُڑایا ہے۔

اردو ادب میں پطرس بخاری اور ابن انشاء جیسے ادیب کتوں کے بارے میں پہلے ہی اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نظر نہیں آرہی تھی۔ شاید اسی وجہ سے کبھی ہم نے بھی کُتوں پر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی البتہ اِس کے متبادل کُتوں سے انسانوں میں سرایت کر جانے والی خطرناک بیماری کُتّاپَن پر لکھنے کا شرف ضرورحاصل رہا۔ صحافیوں، اُدَبا اور شُعَرا کو مولانا صاحب کا ممنون ہونا چاہئے کہ اُنہوں نے پھر سے اِس موضوع پر لکھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

Taliban

Taliban

کُتا وفادار تو کہلاتا ہے مگر اس میں بعض ایسی عادتیں پائی جاتی ہیں جو اس کی وفاداری پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ چوں کہ وہ نسلاً کُتا ہوتا ہے، اس لیے اس کی سوچ بھی کُتوں والی ہوتی ہے اور ہمیشہ کُتا ہی رہا ہے۔ زمانہ بچپن کا ہے اور سڑک کنارے ایک کُتا بیٹھا ہے۔ راقم اس کے قریب سے گزرتا ہے اور ڈر سے مُرمُڑ کر پیچھے دیکھتا ہے کہ کہیں وہ اپنا کُتّاپَن ہی نہ دکھا دے لیکن کُتا بڑے مزے سے بیٹھا رہتا ہے۔ جب کوئی چالیس پچاس قدم چلا گیا اور دھیان بھی کُتے کی طرف سے ہٹ گیا تو اْس ”کُتی کے بچے” نے خاموشی سے آ کر کاٹ لیا۔

بس اُس دن سے ہی ہمارے دل میں کُتوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے مگر مولانا صاحب کے تازہ فرمان کے بعد سے ہم نے کُتوں سے نفرت ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ مولانا کے اس تازہ بیان یا فتوے سے کسی کو خوشی ہوئی ہو یا نہ مگر جب کُتوں تک یہ بات پہنچی ہو گی تو یقیناً انہوں نے بھنگڑے ڈالے ہوں گے کہ کسی نے اُن کو اِتنی عزت تو بخش دی ورنہ بیچارے ہمیشہ ”کُتے کی موت” ہی مرتے رہے۔ ایک بات طے ہے کہ پاکستان میں کون شہید ہے اور کون نہیں یہ اختیار صرف میڈیا، سیاست دانوں یا پھر چند مذہبی جماعتوں کے پاس رہ گیا ہے۔

وہ جب چاہیں اور جسے چاہیں شہادت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیں۔ یہاں تک کہ ہم نے لفظ شہید کو بھی حقیقتاً شہید کر دیا ہے۔آج اس ملک میں قوم پرست بھی شہید، لسانیت پرست بھی شہید، وطن پرست بھی شہید، ڈاکو بھی شہیدہے بس نہیں تو ایک شہید شہید نہیں ہے۔ جب تہذیبی گماشتوں کو شہید کہا جا سکتا ہے تو پھر ایک کُتے کو کیوں نہیں؟ کہنے والے تو بھگت سنگھ کو بھی شہید کہہ ڈالتے ہیں اور اس کے نام کی یادگار منسوب کرواتے ہیں۔ اصحابِ کہف کے کُتے نے اپنی صرف ایک فطرت چھوڑی تو اس پر جنت واجب ہو گئی۔

جبکہ باقی کُتوں کو مولانا صاحب نے جنت کا راستہ دکھا دیا ہے۔ پچھلے دنوں سابق وزیر داخلہ عبدالرحمان مَلک کے تین کُتے مردہ حالت میں پائے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک نہ ہی قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی کسی نے ذمہ داری قبول کی ورنہ حکومت میں رہتے ہوئے مَلک صاحب طالبان سے زبردستی ذمہ داری تک قبول کروا لیتے تھے۔ اس وقت مَلک صاحب کے پاس اپنے مرحوم کُتوں کو شہادت کا سرٹیفکیٹ دلوانے کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ یا تو خود بیان جاری کر دیں یا پھر مولانا صاحب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں انکشاف کر دیں کہ اِن کُتوں کی شہادت میں امریکا کا ہاتھ ہے۔

آخر مولانا صاحب اُن کی حکومت کے اتحادی رہے ہیں اور پانچ سال تک کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کے مزے بھی لوٹتے رہے تو کیا وہ مَلک صاحب کیلئے اتنا کام بھی نہیں کریں گے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ میونسپل کارپوریشن کے محکمے کو ختم کرکے تمام کُتوں کو میدانِ جنگ بھیج دے۔ بہت سارے شہادت کا رُتبہ پا لیں گے اور جو بچ گئے وہ غازی کہلائیں گے ، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کُتے تو پوری دنیا کے کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے، پھر بھلا امریکا انہیں مارے گا کیوں؟ مولانا صاحب آپ جتنے چالاک اور معاملہ فہم سیاست دان ہیں اتنے ہی سیاست کی زمینی حقیقتوں کے بہترین نباض بھی ہیں۔

U.S. Military

U.S. Military

تھوڑا ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ عراق میں ایک امریکی فوجی اہلکار نے ایک کُتے کو پہاڑی سے پھینک کر اُسے ”شہادت” کے رُتبے پر پہنچا دیا تھا اور پھر کیا ہوا۔۔۔؟ ارے جناب !امریکا میں خوشیاں نہیں منائی گئیں بلکہ کُتے کی ہلاکت بارے منظرعام پرآنے والی ویڈیو کی تحقیقات شروع کر دی گئی اور بڑھتی ہوئی امریکی تذلیل کے باعث ویب سائٹ سے بھی ویڈیو ہٹا دی گئی تھی۔ امریکا جو بے گناہوں پر توپوں، بارودوں، ٹینکوں اور میزائلوں کے حملوں سے نہیں تھکتا مگر جانوروں خاص کر کُتوں کی اِن کی نظروں میں کتنی اہمیت ہے۔

ماضی کی اس خبر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امریکا میں انسداد بے رحمی حیوانات کیلئے کام کرنے والی متعدد تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی فوجیوں کے ہمراہ افغانستان اور عراق کے میدانِ جنگ میں خدمات سرانجام دینے والے کُتوں کو وہی درجہ دیں جو لڑاکا امریکی فوجیوں کو دیا جاتا ہے۔

ایک طرف امریکا میں کُتوں کو امریکیوں کے برابر درجہ دینے کے مطالبے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا صاحب کُتوں اور انسانوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مولانا صاحب نے اپنے تازہ فرمان سے اگر پاکستانیوں کو نہیں تو کم از کم کُتوں کو ضرور خوش کر دیا ہے مگر خوش فہمی میں مُبتلا اِن کُتوں کو کون سمجھائے کہ امریکا کے نزدیک کُتوں سے زیادہ مسلمانوں کا خون سستا ہے۔

Najam Saha

Najam Saha

تحریر: نجیم شاہ