گدھے اور آستین کے سانپ

Donkeys

Donkeys

تحریر : عبدالجبار خان
میڈیا میں کچھ عرصے سے گدھوں کی خبریں گردش میں ہیں کبھی گدھا اور قصائی تو کہیں گدھوں کا گوشت اور ان کی کھال تو کبھی گدھوں پر سرمایہ کاری کے متعلق اب کچھ مہینے پہلے کی بات ہے ہمارے دوست ملک چین کے سرمایہ کاروں نے ہمارے گدھوں کو خریدنے کی خوش خبری سنائی ہے اور یہ بھی خبریں آتی رہی ہیں کہ چینی سرمایہ کاروں ک اہمارے کسی صوبے کے ساتھ گدھے خریدنے کا باقاعد ہ معاہد ہوگا اب ان سرمایہ کاروں کی وجہ سے روزگار کے نئے مو اقعے پیدا ہو نگے اگر دیکھا جائے تو دنیا میں گدھوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں گدھوں کی کثیر تعداد مو جود ہے جو اپنی کار کر دگی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں ہمارے ملک کے تمام صوبوں میں خاطر خواہ تعداد میں گدھے پائے جاتے ہیں اعلی اور معیاری بھی اور ادنیٰ درجے کے تمام گدھے پائے جاتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے ہمیں گدھے عام نظر نہیں آتے اب پتہ نہیں قصابوں کے ڈر سے کہیں رو پوش ہو گئے ہیں یا روپ بدل گئے ہیں اگر گدھے کے سینگ غائب ہو سکتے ہیں تو گدھا روپ بھی بدل سکتا ہے یہاں پائے جانے والے گدھوں کی قیمت ان کے معیار کو دیکھ کے لگائی جا تی ہے۔

گدھوں میں نر اور مادہ اقسام تو مو جو د ہیں پر ہم انسان ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتے اب گدھاہے تو اس کو بھی گدھا اور گدھی ہے تو اس کو بھی گدھاحالانکہ ان کی تعدا د نراورمادہ میں تقریباً برابر ہو گی یعنی جتنے گدھے ہو نگے اتنی گدھیاں بھی تو ہو نگی اب ہم ان گدھے گدھیوں کی گنتی تو نہیں کر سکتے پر جب گدھوں کی فروخت کے معاہدے ہو نگے ان کی افزائش کے فارم اور ادارے بنا ئے جا ئیں گے تو پھر ممکن ہے کہ گدھا شماری کر کے ان کی تعداد کا اندازہ لگا یا جا سکے گا بات ہو رہی تھی گدھے اور گدھی کی تو دیہات میں رہنے والے ان کے ساتھ انصاف کر جا تے ہیں گدھے کو کھو تا اور گدھی کو کھو تی جیسے خطاب سے نو از کر ان کی الگ الگ شناخت بنا ئی جا تی ہے مجھے یہاں بچپن کی ایک بات یاد آرہی ہے ہمارے ایک کزن تھے جب ہم ان کے ہاں جا یا کر تے تھے تو ہمارے وہ کزن ہم تمام بچوں سے عمربڑاتھا اور شرارتی بھی حد درجے کا تھا شیطان بھی اس مانگتا تھا وہ ہر وقت بچوں کو مارتا رہتا تنگ کرتا رہتا تھا اوراکثر اوقات بچوں کو حکم صادر فرماتا کہ میرے لئے قریب باغ سے چوری آم توڑ لاؤاب سارے بچوں کے اوپر اس کا خوف طاری رہتا تھا کہ آم نہ توڑ لائے تو یہ مارے گا اگر گئے تو ادھر گڑگڑحقہ پینے والا مالی بھی بڑا ظالم تھا اب چھترول کا خطر ہہم دونوں اطراف محسوس کرتے تھے جس دن کزن نے اپنا آڈر جاری کیااس دن سارے بچے چھپے رہے اس جلاد کزن کے سامنے نہیںآئے اسی دوران تمام بچوں نے کہا اس جلاد کزن سے کیسے جا چھڑوائی جا ئے سب بچوں نے خفیہ میٹنگ میں متفقہ فیصلہ کر تے ہو ئے کہا کہ اس کا کو ئی ایسا نام تجو یز کر تے ہیں جس سے اس کی چڑ بن جا ئے اور سے ہماری جان بخشی ہو جا ئے۔

ان دونوں ہمارے کزن کے گھر میں ایک گدھی تھی جس پر وہ گھاس لاد کر آتے تھے اور سب اس گدھی کو پیار سے کھو تی کہتے تھے ہم سب نے اس کھو تی کو ذہن میں رکھتے ہو ئے اپنے کزن کا NICK NAME کھو تی تجو یز کر دیا حالانکہ وہ لڑکا تھا اس اعتبار سے اسے گدھا یعنی کھو تا کہا جاتا بس کہتے ہیں نہ بچے مصوم ہو تے ہیں شا ید اس وقت ہم بھی مصوم ہو نگے جو اس بچارے کا نام کھوتی تجو یز کر بیٹھے واقعی یہ نام اس پر بہت زیادہ فٹ ہو اکہ ان کی بستی کے دوسرے بچوں نے بھی پسند کر تے ہمیں سراہا اور اس کو کھوتی کے نام پکارنے لگے اب بجائے ہماری جان چھوٹنے کے ہمارے اوپر توجیسے ظلم کے پہاڑ ٹو ٹ پڑے خیر یہ تو بچپن کی باتیں ہیںاب دوبارہ اصلی گدھوں کی بات پر آتے ہیں واقعی اگر گدھوں کا کاربار پھلنے پھولنے لگا تواس سے کافی روزگار بھی بڑھے گا اور بڑے بڑے فارم ہو نگے اگر کو ئی اس فارم کا منیجر ہو گا تو اپنے دوستوں سے تعارف میں بڑے فخر سے کہے گا میں جی فلاں DONKEY فارم کا منیجر ہو ں اب میر ے جیسے دیہاتی بند اس کو کہے گا اچھا او کھو تے دا فارم جیڑا شہر توں باہر ہے گابڑی گل ہے یارجب ایسے فاررم ہو نگے تو ساتھ ہی ان کی ادویات اور الگ سے ڈاکٹر بھی ہو نگے جو گدھوں اور کھو توںکو مو ذی امر اض سے بچانے کے لئے ان کا علاج معالجہ کر یں گے کسی مو ذی امراض کے خطر ے پیش نظر آگا ہی پر وگر ام بھی شروع ہو نگے جس میں ایسے اعلانات اور اشتہار ات ہو سکتے ہیں گدا پال حضرات متوجہ ہو ں گدھوں میں فلاں بیماری پھیلنے کا خدشہ ہے۔

اپنے اپنے گد ھوںکو حفاظتی انجکشن لگوالیںمو جودہ دور میں گدھوں نے اپنی شہرت بنا ئی جس کی وجہ سے اب ان گدھوں کی اہمیتاور بھی بڑھ گئی ہے ایک بڑے شہر میں گدھوں کا مقابلہ حسن بھی چکا ہے جس کی خبر ٹی وی پر نشر ہو چکی ہے لیکن خبر میں یہ و اضع نہیں کیا گیا تھا ان میں سے گدھے کتنے تھے اور گدھیاں کتنی تھیں اب یہ بات جب تمام گدھوں کے کان میں پہنچی ہو گی کہ ہم بھی حسن والے ہیں تو ملک کے تمام گدھوں نے اگلے مقابلے کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہو گی ابچین کے سرمایہ کاروں کی مہر با نی ہے وہ یہاں کے اچھے گدھوںکو چن چن کر خرید کر لے جائیں گے حالانکہ کے ان کے پاس اپنے بھی گدھے ہو نگے پر ہمارے گدھے ان کی نظر میں بہتر ہو نگے اس لئے وہ یہاں کے گدھوں سے فائدہ حاصل کر تے ہو ئے ان کی کھال مختلف اشیاء تیار کر یں گے اگر وہ گدھوںکو نہ خریدنے آتے تو قصاب بھی ان کے خاتمے کے لئے ان کے جا نی دشمن بنے ہو ئے تھے اب دنیا میں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں پر سانپ بھی کھا ئے جا تے ہیں اگر ان ممالک کو پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں کاپتہ چل جائے تو وہ بھی ہمارے ساتھ معاہدہ کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔

ہمارے ملک میں سانپ بڑی تعداد میں ہیں جو بہت خطر ناک اور زہریلے بھی کچھ اقسام کے سانپ تو یہاں پر پہلے پائے جا تے ہیں کچھ قریب ہمسایوں کی طرف سے ہمارے ملک میں آجا تے ہیں کہتے ہیں سانپ روپ بھی بدلتے ہیں اور شاید باہر سے آنے والے سانپ روپ بد ل کے آتے ہونگے جس کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سانپ ہیں یا کچھ اور اب سب قسم کے سانپ زہر یلے بھی ہو تے ہیں اور خطر ناک بھی پر سب سے زیادہ زہر یلے اور خطر ناک سانپ آستین کے سانپ ہو تے ہیں جو اچانک وار کر تے ہیں آستین کے سانپوں میں خوبی ہو تی ہے وہ روپ بدل سکتے ہیں اب پتہ نہیں کہ کو ن آستین کا سانپ ہے یا دوسرا قسم کا سانپ ہے یا کچھ اور ہے جب وہ اپنا وار کر تا ہے تو تب پتہ چلتا ہے اچھا یہ تھا آستین کا سانپ اب اگر کو ئی ملک ہم سے سانپ نہیں خرید تا تو کچھ ایسا طر یقہ بنا یا جائے تمام آستین کے سانپوں کو کسی بحری جہاز میں سوار کر کے بحری قزقوں کے علاقے میں چھو ڑ دیا جائے اب وہاں پر پہلے سے مو جو د سانپ اور یہ سانپ آپس میں بھائی بن کے رہیں یا لڑتے رہیں ان کی بلا سے ہماری تو جان چھو ٹ جا ئے گی۔

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان