ٓڈاکٹر عافیہ رہائی، امید اب بھی باقی ہے

Dr. Aafia

Dr. Aafia

تحریر : حفیظ خٹک

گذشتہ انتخابات جیتنے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تیسری بار حلف لینے کے بعد جب کراچی آئے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور بچوں کو گورنر ہاﺅس بلوایا اور ان سے وعدہ کیا کہ اب وہ پریشان نہ ہوں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے اور اس کی بیٹی مریم، میری بیٹی مریم کی طرح مجھے عزیز ہے۔ اب میں ہی امریکہ سے سو (100) دنوں کے اندر عافیہ کو واپس لاﺅنگا۔ ۔۔۔وہ سو (100)توکیا ایک ہزار سے بھی زیادہ دن گذر گئے لیکن ان کو اپنا کیا ہوا وعدہ یاد نہ رہا۔

وقت کی طرح حالات بڑی تیزی سے گذرتے اور بدلتے ہیں۔ وہ سابق وزیراعظم،اب نااہل وزیر اعظم بن چکا ہے اوراس کے بعد بھی آج جن کیفیات سے وہ، اس کی مریم سمیت پورا گھرانہ گذر رہا ہے ان سے زیادہ بہتر انداز میں کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ صرف ایک جملہ عوام کے احساس کی ترجمانی کیلئے کافی ہے اور وہ یہ ہے کہ نواز شریف، کاش کہ عافیہ کو وطن واپس لانے کا وعدہ پوراکیا ہوتا۔۔۔۔۔

بحرحال وقت گذر گیا اور اب نئے انتخابات کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کامیابی کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہے۔ ماضی میں حکمرانی کرنے والی جماعتیں اور ان کا ساتھ دینے والی دیگر سیاسی، مذہبی جماعتیں ہر طرح سے 25جولائی کیلئے تن من دھن سے تیاریاں جاری رکھے ہوئی ہیں۔ ان کے اس عمل میں ذرائع ابلاغ میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ ایک جانب جلسے اور جلسیاں ہورہی ہیں تو دوسری جانب کارنر میٹنگ بھی ہورہی ہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی ریلیاں کی جاری ہیں تو اس کے ساتھ گھروں پر بھی رابطے کئے جارہے ہیں۔

ان حالات میں ملک کی حفاظت سرانجام دینی والی قوتیں بھی اپنے فرائض احسن انداز میں نبھارہی ہیں۔ ملک کی دشمن قووتیں بھی پوری صورتحال پر نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ وہ جب بھی اور جہاں بھی اپنی کاروائیوں کیلئے موقع پاتے ہیں، وہ کر گذرتے ہیں۔ پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے میں دھماکہ بھی اس کی اک کڑی ہے۔ اس سانخے میں ہارون بلور سمیت دیگر متعددشہری شہید اور زخمی ہوئے۔ تاہم آفرین ہے شہداءکے اہل خانہ پر، ان کے ساتھ اس جماعت سمیت دیگر تمام جماعتوں کے کارکنان پر اور اس سے بھی بڑھ کر پوری عوام پر کہ جو دہشت گردوں کے خلاف اس سانخے کے باوجود ذرا بھی ڈرے نہیں۔ جو اب تلک باہمت ہیں اور باہمت رہیں گے۔ انہوں نے اب تک دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ہے اور ان مقابلوں میں سرخروئی حاصل کی ہے، یہی کامیابی اسی جنون و جذبے کے ساتھ انہیں مستقبل میں بھی حاصل ہوگی۔

قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی اسی قوم کی بہادر بیٹی ہے، وہ قید ضرور ہے لیکن اس کی قید کسی بھی جرم کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔ اسے تو امریکی سپاہیوں نے اپنے طور پر شہید کردیا تھا لیکن آفرین ہے، اس پر جو آج بھی بے باکی کے ساتھ کھڑی ہے۔ جس نے ایک بار امریکیوں سے معافی نہیںمانگی اور نہ ہی ان کے کسی حکم کو پورا کیا ہے۔ وہ تو ایک بار نہیں متعددبار امریکی شہریت کی رد کرچکی ہیں لیکن وہ قید ناحق ہیں اور ناکردہ گناہوں کی سزاوہ برسوں سے بھگت رہی ہیں اور اگر اس کی رہائی کیلئے حکومت پاکستان نے کچھ نہیںکیا تو یہ قید وہ مزید برسوں سے بھگتے گی۔ اس کی اب تلک کے قید کے ذمہ دار حکومت ہے۔ نواز شریف جیسے وزیر اعظم جو وعدہ کرکے پورا نہیںکرتے اور عافیہ کو بھول جاتے ہیں اور پھر سابق امریکی صدر اوبامہ کی جانب سے مواقعوں سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ اوبامہ تو چلا گیا اور نواز شریف کو بھیج دیا گیا ہے، اب جبکہ نئی حکومت بننے کیلئے انتخابات ہونے جارہے ہیں، جو بھی انتخابات جیتتا ہے اور تنہا یا دیگر جماعتوں کے ساتھ حکومت بناتا ہے ان کے سامنے قوم کی بیٹی کی واپسی کا سوال موجود ہے۔ ہاںعافیہ منتظر ہے، اس کی والدہ عصمت صدیقی منتظر ہے، احمد اور مریم منتظر ہیں، ان سمیت پوری قوم منتظر ہے۔ سابقہ وعدے ختم ہوئے سابق لوگ بھی چلے گئے لیکن عافیہ ابھیتلک وہیں پر ہے وہ اب بھی منتظر ہے، آزاد فضا میں آنے کیلئے، وطن عزیز پاکستان میں شہر قائد میں آنے کیلئے منتظر ہے۔ ہاں عافیہ کی رہائی کی امید اب بھی باقی ہے۔۔۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائش گاہ شہرقائد کے گلشن اقبال کے بلاک 7میں ہے اور یہ وہ قومی اسمبلی کا حلقہ 243کاہے۔ اس حلقے سے 15امیدواران مقابلے میں شریک ہیں۔ ان امیدواروں میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی موجود ہیں جبکہ دیگر اراکین مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل، ملی مسلم لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، سرزمین پارٹی اور تحریک لبیک سمیت متعددآزادامیدوار ہیں۔ انتخابات میں مختلف حلقے اہمیت کے حامل ہوجایاکرتے ہیں اسی وجہ سے وہاں کے نتائج پر سبھی کی نظریں مرکوز رہتی ہیںاور بے چینی نتائج کا انتظار کیا جاتاہے۔ قوم کی بیٹی کی رہائش گاہ کی اہمیت کے سبب اس حلقے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ عمران خان ہی وہ رہنم ہیں جنہوں نے برطانوی صحافی ایوان ریڈلے جو کہ قبول اسلام کے بعد مریم ریڈلےبن چکی ہیںان کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تھی اور اس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا افغانستان میںقید کی خبریں آئی تھیں۔ عمران خان نے عافیہ کے معاملے پر ہمیشہبات کی ہے اور اس کی باعزت رہائی کاوشیں کی ہیں۔ اپنے دھرنوں کے خطابات سمیت دیگر جلسوںاور ٹی پروگرامات میں بھی قوم کی بیٹی کی جلد باعزت رہائی پر بات کی ہے۔ حال ہی میںاک نجی ٹی چینل کو انٹریو میں بھی انہوںنے یہ کہا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد صرف عافیہ ہی نہیں اور بھی وہ ہم وطن جو دیگر ممالک میں قید ہیںان کی بھی واپسی کیلئے وہ اقدامات کریں گے۔ حتی کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور تک میں عافیہ کی باعزت رہائی کو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔

تحریک انصاف علاوہ دیگر جماعتوں کو عافیہ کی رہائی عزیز ہے اور وہ سبھی یہ جانتے ہیں کہ اس حلقے میں چونکہ عافیہ کی رہائش گا ہے اور عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی ہیںجوکہ بہن کی رہائی کیلئے عافیہ موومنٹ برپا کیئے ہوئی ہیں۔ لہذا اس حلقے کی عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے یہ ازحد ضروری ہوگا کہ عافیہ کی رہائی کی نہ صرف بات کی جائے بلکہ منتخب ہوجانے کے بعد اسے کی رہائی کیلئے ٹھوس اقدامات بھی کئے جائیں۔ لہذاعافیہ موومنٹ کے کارکنان ہوں یا عام عوام سب کو اور سبھی کو اپنی سطح پر کاوشیں جاری رکھی چاہئیں اور مایوسی کو اپنے پاس پنپنے نہیںدینا چاہئے۔ انہیںامید رکھی چاہئے کہ بننے والی حکومت اگر عمران خان کی ہوتی ہے یا پیپلز پارٹی کی، مسلم لیگ ن کی یامتحدہ مجلس عمل کی،ایم کیوایم کی یا سرزمین پارٹی، ملی مسلم لیگ کی یا آزاد امیدواروں کی ہر جماعت عافیہ کی رہائی کو ترجیح دے گی اور اس ضمن میں حقیقی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

عمران خان، شہلاءرضا، مزمل اقبال ہاشمی، مزمل قریشی، خواجہ اظہار الحسن، اسامہ رضی، کامران رضوی، علی رضاعابدی و دیگربقیہ امیدوران کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ آپ جس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں اس پر نظریں صرف اس حلقے کی عوام کی نہیں، شہر قائد کی عوام کی بھی نہیں، پورے ملک سے بڑھ دنیا بھر کی کی عوام کی ہیں لہذا عافیہ کو واپس لانا ہے اور یہ پہلا کام کرنا ہے۔ صرف وعدہ نہ کرنا اور وعدہ کرکے بھول بھی نہ جانا بلکہ نواز شریف کو یاد رکھنا کہ جس نے وعدے کر کے بھلا دیا اور پھر اس کے جو کچھ ہوا سب بھی۔ لہذا عافیہ کو لانا ہے اور اس ضمن میں کیا گیا وعدہ گر گیا تو اس کو پورا کرنا ہے، اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا کہ وقت اور حالات بہت تیزی سے گذرتا اور بدلتا ہے۔۔۔۔۔

تحریر : حفیظ خٹک