ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کا دورہ اور درپیش چیلنجز

Abdullah bin Abdulmohsen al-Turki

Abdullah bin Abdulmohsen al-Turki

تحریر: حبیب اللہ سلفی
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی سات روزہ دورہ پاکستان اختتام پذیر ہونے پر واپس سعودی عرب روانہ ہو چکے ہیں۔ اس ادارہ کا قیام 1962ء میں عالم اسلام کے ممتاز اور جید علماء کرام کے مکة المکرمہ میں ہونیو الے ایک اجلاس کے دوران عمل میں لایا گیا۔ یہ ایک بین الاقوامی فورم ہے جس کی بنیاد امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے ہر وقت فکرمند رہنے والے نیک سیرت حکمران شاہ فیصل بن عبدالعزیزنے رکھی اور اسے عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ ، اسلامی عقائدو تعلیمات کی تشریح اور ان کے متعلق معاندین اسلام کی جانب سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات اور اعتراضات کو بہتر اندازسے زائل کرنا ہے۔

اس ادارہ کا صدر دفتر روز اول سے مکة المکرمہ میں ہے اور اس کے موجودہ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ہیں جوسات دن کے دورہ پراسلام آباد پہنچے اور وطن عزیزپاکستا ن کی اہم قومی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے سربراہان،حکومتی شخصیات، جید علماء کرام اور شیوخ الحدیث سے ملاقاتیں کیں۔اکیس نومبر کو اسلام پہنچنے پر انہوںنے اسلام آباد میں مجلس صوت الاسلام کے زیر اہتمام بین المذاہب کانفرنس میں شرکت کی اور متعدد تقریبات سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ایسے موقع پر اسلام آباد پہنچے ہیں کہ جب پورے عالم اسلام کو کئی اندرونی و بیرونی چیلنجز درپیش ہیں ۔ ایک طرف مشرق وسطیٰ کی تشویشناک صورتحال ہے۔ شام اور عراق جیسے مسائل ہیں تو دوسری جانب مسلم ملکوں میں فتنہ تکفیرپھیلنے اور داعش کی دہشت گردی نے مسلم امہ کو شدیدپریشانیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔

یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ مسلم ملکوں میں حملے کرنے والے اسلام کا لبادہ اوڑھ کرہماری نوجوان نسل کو گمراہ اور اسلام کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں۔ان کے خیالات اور افکار تباہ کن ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے اللہ کے گھرمسجدوں کو بھی نہیں چھوڑا اور وہاں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ اسلام نے ظلم کو حرام قرار دیا ہے اس لئے فتنہ تکفیرو خارجیت کا شکار گمراہ گروہوں کے باطل نظریات سے امت مسلمہ بالخصوص نوجوان نسل کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں عصر حاضر کے سب سے بڑے فتنہ سے مکمل آگاہی ہو اور وہ دشمن کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچ سکیں تاہم افسوسناک امریہ ہے کہ چند علما ء اور مذہبی قائدین کے علاوہ کوئی اپنا یہ فریضہ ادا نہیں کر رہا اور مصلحتوں کا شکار ہو کر خاموشی اختیا رکی جاتی ہے جس سے مسلم ملکوں و عوام کو سخت نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔

Successes

Successes

تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب کبھی میدانوں میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں دشمنان اسلام نے ہمیشہ مسلمانوں کے اندر تکفیر اور خارجیت کا فتنہ کھڑ اکرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انہیں باہم دست و گریباں کر کے مذموم ایجنڈے پورے کئے جاسکیں۔ آج بھی جب مسلمانوں کے ہاتھوں روس کوشکست ہوئی’امریکہ و نیٹوفورسز کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑااور مسلمان دنیا کے نقشے پر مضبوط قوت بن کر ابھرنے لگے تو عرب ملکوں میںداعش کو کھڑ اکیاگیا’ پاکستان میں تحریک طالبان کو پروان چڑھایا گیا اور امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کے خلاف حوثی باغیوں کی پشت پناہی کی گئی۔ یہ سب کچھ طے شدہ منصوبہ بندی اور کفار کی مسلمانوں پر مسلط کردہ جنگوں کا حصہ ہے۔

مسلم ملکوں میں حکمرانوں اور افواج کے خلاف حملوں کو جائز قراردینے والے جتنے گروہ کھڑے کئے گئے وہ کشمیر، فلسطین، افغانستان و دنیا کے دیگر خطے جہاں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہاں جا کر جہاد کرنا درست نہیں سمجھتے لیکن اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر کفرے کے فتوے لگا کر ان کا خون بہانا افضل جہاد سمجھتے ہیں۔ یہ گمراہی کی بدترین شکل ہے اور ایسے لوگوں کے متعلق شریعت میں واضح احادیث موجود ہیں جن میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کا شکار گمراہ لوگوں کی واضح نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف خودکش حملے کرنے والوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ فلسطین میں یہودی کس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں؟۔

قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کر نے کیلئے کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں ؟یا مقبوضہ کشمیر میں ہر روز نت نئے مظالم ڈھاتے ہوئے کس طرح مائوں، بہنوں و بیٹیوں کی عزتیں پامال اور ان کی املاک برباد کی جارہی ہیں۔ان کی ساری توجہ مسلم ملکوں و خطوں میں مسجدوں، بازاروں اور مارکیٹوں میں بم دھماکوں اور افواج کو نشانہ بنانے کیلئے حملوں پر مرکوز ہے۔ اس کیلئے وہ دشمنان اسلام سے مدد لینے کوبھی اپنے لئے حلا ل سمجھتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیںاور افغانستان میں دشمن کے کیمپوں میں ٹریننگ لینا بھی وہ اپنے لئے باعث عار نہیں سمجھتے۔

Peshawar incident

Peshawar incident

ہم پاکستان میں ہی دیکھ لیں تو سانحہ پشاور ہو’ جی ایچ کیو اور نیول ہیڈکوارٹرہو یا فضائیہ کا ایئر بیس’ حملہ آوروں کے پاس حساس مقامات کے نقشے، جدید اسلحہ اور مکمل معلومات موجود ہوتی ہیں اس لئے حملے کرتے وقت جہاں وہ پاک فوج، فضائیہ اور دیگر اداروں کے افسران و سپاہیوں کو شہید کرتے ہیں وہاں ان قیمتی اثاثہ جات کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیںجو دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ وطن عزیز پاکستان کے پاس یہ سب کچھ ہو۔مسلم حکمرانوں کو ان حقائق کو بخوبی سمجھنا اوراس فتنہ کے خاتمہ کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی سیرت کا مطالعہ کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں۔ جب تک ہم باطل گروہوں کے نظریات کا علمی بنیادوں پر رد نہیں کریں گے نوجوان نسل کو مکمل طور پر گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب دونوں ممالک دہشت گردی کے خوفناک فتنہ سے دوچار ہیں۔رابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم سے فکری محاذ پر تکفیر اور خارجیت کے فتنہ کی بیخ کنی کیلئے بھرپور کردار ادا کر نے کی کوشش کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران مختلف تقریبات و کانفرنسوں سے خطاب اور علماء کرام سے ہونیو الی ملاقاتوں میں اسی بات پر سب سے زیادہ زور دیا اور علماء کرام سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلم معاشروں میں بسنے والے افراد کی رہنمائی کریں کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور داعش جیسی اسلام کی بدنامی کا سبب بننے والی تنظیمیں اسلام کی نمائندگی نہیں کرتیں۔

King Salman bin Abdul Aziz

King Salman bin Abdul Aziz

خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں سعودی عرب میں فتنہ تکفیر کے خاتمہ کیلئے سرکاری سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں پاکستان میں بھی تمام مذہبی جماعتوں اور علماء کرام کو چاہیے کہ مسلم امہ کی فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ تکفیراور خارجیت کے پھیلائو کیلئے سوشل میڈیاکو ایک بڑے ہتھیا رکے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید درست کہتے ہیں کہ یہ فتنہ ہر گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور اس کا شکار دینی مدارس کے طلباء نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوان ہو رہے ہیں جو اسلام کی محبت میں دشمنان اسلام کی آلہ کار تنظیموں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں اور گمراہ نظریات سے محفوظ رکھنا ہے۔مسلم امہ کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ‘ ان سے نمٹنے کیلئے مسلم ملکوں ومعاشروں سے فرقہ واریت کا خاتمہ، باہمی اتحادواتفاق اور یکجہتی کا ماحول پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔

اس کے بغیر امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ اور بیرونی قوتوں کی سازشوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اپنے دورہ کے دوران کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی بھی کھل کر حمایت کی اور واضح طور پر کہا کہ ہم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں سعودی عرب اور رابطہ عالم اسلامی کا ایجنڈامسلمانوں کو باہم متحدکرنا اور مظلوم مسلمانوں کے حق میں بھرپورآواز بلندکرنا ہے۔ پوری پاکستانی و کشمیری قوم امت مسلمہ کے محسن ملک سعودی عرب اور رابطہ عالم اسلامی کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ کشمیر و فلسطین جیسے مسلمانوں کے مسائل جلد ان شاء اللہ حل ہوں گے۔

Habibullah Salafi

Habibullah Salafi

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005