حذراے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

Target Killing  in Karachi

Target Killing in Karachi

تحریر: پروفیسر مظہر
حکمت کی عظیم الشان کتاب نے منادی کر دی ”جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، وہ اِس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب نازل ہو گا۔ اس پراللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے”(النسائ)۔ میرے نبیۖ نے تو فیصلہ ہی کر دیا کہ”مسلمان تووہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں” لیکن بزعمِ خویش مسلمان کہلانے والوں نے کراچی خونم خون کر دیا۔ اُدھر سے آنے والی ہواؤں کے جھونکے بھی سوگوار کہ اُن میں خون کی بو رچی تھی۔

موجِ خوں سروں سے گزرتی رہی لیکن لبوں پہ مہرِ خاموشی، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیابھی ”ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم”۔ایساہرگز نہیںکہ اذہان وقلوب کی کھیتیاںبنجر ہوئیںیافہم وادراک زنگ آلودالبتہ خوف ۔۔۔ جوزبانوںپہ لکنت طاری کردیتا، خوف جوکسی اندھی گولی کے جسم میںترازو ہوجانے کاتھا، خوف ، جرمِ ضعیفی کاخوف ۔خوف کی تنی چادرتلے تلاشِ رزق میںنکلے ”پرندے بہ نوکِ تیر سجتے رہے لیکن کسی منصورِحقیقت نے صدابلند نہ کی ، سچ یہی کہ”اناالحق” کانعرۂ مستانہ بلندکرنے والا منصورِ حقیقت کوئی تھاہی نہیں، سبھی طاغوت کے خوف سے لرزہ براندام۔ کھلی چھٹی تھی لندن میںبیٹھے اُس ”زبان دراز”کو جس کے ہاتھ سے کوئی محفوظ تھا نہ زبان سے ۔ وہ سمجھتارہاکہ لوگ اُس کی تعظیم کرتے ہیںلیکن حقیقت اِس کے برعکس کہ اُس کی تعظیم محض اُس کے شَر کے خوف سے تھی۔

الیکٹرانک میڈیا پر اُس کی اجارہ داری ،وہ گھنٹوںبلکہ پہروں”زباںدرازی” کرتارہا لیکن اُسے تواِس قولِ علی کاپتہ ہی نہیںتھاکہ ”انسان جب عقل میںپختہ ہوجاتا ہے تواُس کاکلام مختصرہو جاتاہے”۔اُس کے زہرمیں بجھے نشترچلتے رہے ، فضائیںزہرناک ہوتی رہیںلیکن اُس کی طرف بڑھتے ہاتھوںپر لرزہ طاری ہوجاتا۔ غلط فہمی تھی اُس نرگسیت کے شکارکو کہ وہ پاکستان کامالک ہے اورعزووقار کی رفعتوںپر، لیکن آقاۖ کاتو فرمان ہے ”لوگوںمیں سب سے براوہ ہے جس کی تعظیم اُس کے شَر کے خوف سے کی جائے۔

پھرمیرے رَبّ کی درازرسی تَن گئی اورفضائے بسیط میںاُمیدوںکے چراغ ٹمٹمانے لگے۔ سیاسی اورعسکری قیادت ایک صفحے پر، ”شریفین” کایہ عہدکہ بَس اب بہت ہوچکا۔ سیاسی جماعتیںبھی ساتھ دینے کے لیے آمادہ وتیارلیکن خباثتوںسے متعفن دلوںمیں یہ تمسخرکہ ”یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں”۔ شایداُنہیں ادراک ہی نہیںتھاکہ اب کے موسموںکے تیورکچھ اورہیںاورفضاؤں میںجاںفزاء اُمیدوںکی سرگوشیاں۔ جب عزمِ صمیم میںگندھے ہاتھ خائنوں ،بددیانتوں ،کرائے کے قاتلوں، بھتہ خوروںاور دہشت گردوںکے گریبانوںتک پہنچنے لگے توسبھی چونک اُٹھے۔ ایک نے کہا”اینٹ سے اینٹ بجادیںگے”۔ دوسرے نے کہا”جن افسران نے نائن زیرومیرے گھرپر چھاپہ مارا، وہ بڑے مردکے بچے ہیں، وہ رینجرز کے افسران تھے ،وہ تھے اور انشاء اللہ ”تھے”ہوجائیں گے”۔ ایک دبئی میں”پناہ گزین”ہوااور دوسراتو 92ء سے ہی لندن میں بیٹھا ہزیان بک رہا ہے۔

Karachi Rangers Operation

Karachi Rangers Operation

جب ایک اینکر نے اُس سے سوال کیاکہ وہ ایسی متنازع زبان کیوںاستعمال کرتاہے تواُس کاجواب تھا ”دو، تین سالوںسے ذہنی دباؤ کاشکار ہوں، اسی لیے زبان سے غلط باتیںبھی نکل جاتی ہیںلیکن معافی بھی مانگ لیتاہوں۔کیامعافی کافی نہیں؟”۔ حقیقت یہی کہ وہ عالمِ بیخودی میںہزیان بکتااور معافی مانگتارہتا ہے ۔ پہلے وہ سیاستدانوں پرگرجتا برستارہتا تھا لیکن اب افواجِ پاکستان اوررینجرز براہِ راست اُس کے نشانے پر۔ اِ ددریدہ دہنی پر پوری قوم تلملااٹھی اورحکمرانوں کوبھی ہوش آگیا ۔اُس نے انتہائی محترم جنرل راحیل شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ پاک فوج کواِس میںشامل کالی بھیڑوںسے صاف کریں۔ ڈی جی رینجرز کراچی میجربلال اکبرکو طنزیہ اندازمیں کراچی آپریشن کی بجائے کشمیرمیں لڑنے کامشورہ دیااور رینجرزکو کہاکہ وہ نوکری چھوڑیں، دوسال بعداپنی سیاسی جماعت بنائیںاور کرنل طاہرکو جنرل سیکرٹری بناڈالیں۔ اُس نے اتنی گھٹیازبان استعمال کی کہ اخبارات نے اسے چھاپنابھی گوارانہ کیا۔

اگر وہ یہ سمجھتاہے کہ یہ سب کچھ میاں نواز شریف صاحب کی ایماء پرہو رہاہے توبالکل درست کہ یہ سعادت میاںصاحب کے حصے میںہی آنی چاہیے تھی لیکن شایدوہ نہیںجانتاکہ صرف میاںصاحب ہی نہیں محترم جنرل راحیل شریف بھی کراچی آپریشن کومنطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پُرعزم ہیں۔وہ شایدیہ بھی نہیںجانتا کہ محترم سپہ سالار اور ڈی جی آئی ایس آئی محترم جنرل رضوان اخترذاتی طورپر ”نیشنل ایکشن پلان” کی نگرانی کررہے ہیں۔ یہ وہی جنرل رضوان اخترہیں جوکچھ عرصہ پہلے کراچی میںڈی جی رینجرزہوا کرتے تھے۔اُس وقت اُنہوںنے کہاتھا کہ نیٹوکے اسلحے سے بھرے ہزاروںکنٹینر کراچی میںغائب ہو جاتے ہیں۔ تب لوگوںکی سمجھ میںیہ بات آئی کہ پورٹس اینڈشپنگ کی وزارت ہمیشہ ایم کیوایم کے وزیربابر غوری کے پاس کیوںرہتی تھی اورایم کیوایم اِس وزارت پرسمجھوتا کرنے کوتیار کیوںنہیں ہوتی تھی۔ جنرل رضوان اخترصاحب سے بہتر ایم کیوایم کی اصلیت اورکون جان سکتاہے ، وہ توایم کیوایم کی خباثتوںکے چشم دیدگواہ ہیں۔

اُنہی دنوں مہاجر ریپبلکن آرمی کاشور بھی اٹھااور وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے یہاںتک کہہ دیا” مہاجر ریپبلکن آرمی کی رپورٹ توتھی لیکن یہ رپورٹ سپریم کورٹ میںپیش کرنے کے لیے نہیںتھی”۔اُس وقت بھی حکومت کے پاس ”ایکشن” کے لیے بہت کچھ تھالیکن نامعلوم مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ جب پانی سَرسے اونچاہونے لگاتو پھرچودھری نثاراحمد کوبھی کہناپڑا ”متحدہ کے قائدنے اپنی تقریرمیں تہذیب ،شائستگی اورشرافت کی تمام حدیںپار کردیں، فوج اوررینجرز کے بارے میںاخلاق سے گری ہوئی باتیں ،باعزت لوگوںکو گالم گلوچ اوردھمکیاںدینا ناقابلِ برداشت ہے۔ موجودہ صورتِ حال کاذمہ دارپاکستان، افواج یارینجرز نہیں، اُن کے اپنے کرتوت ہیں۔ اب وقت آگیاہے کہ برطانیہ سے اِس سلسلے میںباضابطہ بات کی جائے”۔ اُنہوںنے یہ بھی کہا”الطاف حسین نے ہمارے سکیورٹی اوردفاعی اداروںکے حوالے سے ایسی بدترین زبان استعمال کی جوکسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ۔یہ زبان ہمارے دشمن بالخصوص بھارت عرصۂ درازسے ہمارے خلاف استعمال کررہا ہے ۔1971ء کے حوالے سے الطاف حسین نے جوزبان استعمال کی ہے ہوبہو وہی زبان بھارت بھی استعمال کرتا ہے”۔ عرض ہے کہ کیاحکمران نہیںجانتے الطاف حسین تو عشروں سے ایسی زبان ہی استعمال کرتے چلے آرہے ہیں؟۔

کیا انہوں نے کارکنوں کو گھریلو سامان بیچ کراسلحہ خریدنے کاحکم نہیں دیا تھا؟۔کیا حکمران لاعلم تھے کہ الطاف حسین نے بھارت میںجا کربرِصغیر کی تقسیم کوغلط قراردیا،جناح پورکا منصوبہ بنایا، عسکری ونگز قائم کیے ،نوگو ایریازاور عقوبت خانے بنائے، بھتہ خوری اورٹارگٹ کلنگ کوعروج دیا، کارکنوںکو ”را”سے تربیت دلوائی اوربھارت سے پاکستان میںافراتفری پھیلانے کے لیے فنڈزبھی وصول کرتے رہے ؟۔ پھر حکمران کس مصلحت کے تحت خاموشی کی ”بُکل”مارے سوتے رہے؟۔ جوکام عشروںپہلے ہوجانا چاہیے تھااُس کے لیے اگرآج ڈول ڈالاجا رہا ہے توپھر اسے منطقی انجام تک پہنچنا بھی چاہیے ،قوم کی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔

Prof Mazhar

Prof Mazhar

تحریر: پروفیسر مظہر