تم رکھ نہ سکے اپنی جفاؤں کا بھرم بھی

Election

Election

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر

الیکشن کی آمد آمداور سیاسی جماعتیں اپنا اپنا چورن ،اپنی اپنی پھَکی بیچنے نکل کھڑی ہوئیں۔ پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھر ”روٹی ، کپڑا اور مکان کی” پھکّی” بیچنے کو تیار۔ 48 سال ہونے کو آئے ،ابھی تک اِس بھٹو مارکہ پھکّی نے ”کَکھ” اثر نہیں کیا۔ اِسی لیے لوگ اِس سے” اوازار” ہو گئے۔ اب اِسی پھَکّی پر بلاول کا لیبل لگا کر بیچنے کی تگ ودَو جاری۔ کپتان کے پاس ”تبدیلی” کا چورن جس میں ”میوزیکل کنسرٹ” کا تڑکہ ۔ کپتان پچھلے پانچ سالوں میں دو دفعہ تبدیلی لائے ضرور لیکن صرف اپنے گھر میں ۔ دراصل کپتان کو گھر میں تبدیلی لانے کا تو اچھا خاصا تجربہ ہے، ملکی تبدیلی کا نہیں۔ اِسی لیے اب وہ بار بار کہتے ہیں کہ شکر ہے اُنہیں 2013ء میں حکومت نہیں ملی کیونکہ اُنہیں تو اِس کا تجربہ ہی نہیں تھا۔ ہمارے خیال میں تجربہ اُنہیں اب بھی نہیں کیونکہ اُنہوں نے تو سارا وقت دھرنوں، احتجاجوں اور ”دھوم دھڑکوں” میں گزار دیا۔

ایم ایم اے ایک دفعہ پھرکتاب پر ”دینی چورن” رکھ کر گلی گلی گھوم رہی ہے ۔ 2002ء میں یہی چورن بڑا مقبول ہوا اور دَھڑادَھڑ بِکا بھی۔ اُن دِنوں ”بیسٹ سیل” کا اعزاز اِسی چورن کے حصّے میں آیااور مولانا فضل الرحمٰن وزارتِ عظمیٰ سے ”بال بال” بچے۔ البتہ خیبرپختونخوا کی حکومت ایم ایم لے اُڑی۔ اِس حکومت کا فائدہ یہ ہوا کہ جمعیت علمائے اسلام کے” مولانا حضرات” سائیکلوں سے اُتر کر لینڈکروزروں میں جا بیٹھے اور بیچاری جماعت اسلامی گاتی ہی رہ گئی ”مُفت ہوئے بدنام سانوریا تیرے لیے”۔ نوازلیگ کے پاس ”ووٹ کو عزت دو” کا َاکسیر چورن ہے جو نوازشریف کی نااہلی کے بعد بڑا مقبول اور قومی وبین الاقوامی سرویز کے ہاں بھی یہی چورن صفِ اوّل پر لیکن کچھ خفیہ ہاتھ اِس مقبولیت کو ختم کرنے کے دَرپے۔ چودھری برادران کے پاس بھی ایک پھکّی لیکن جب تک اِس پھَکّی کو ”آمریت کا تَڑکا” نہ لگے، یہ بالکل بیکار۔

آمر پرویز مشرف کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے کے دعویدار چودھری پرویز الٰہی نے کہا ”ووٹ ڈالنے کے لیے ابھی تک عوام میں شعور بیدار نہیں ہوا۔ پارٹیاں بدلنا جمہوری عمل ہے”۔ ہم یہ لکھ لکھ کر تھک بلکہ ”ہَپھ” گئے کہ پارٹیاں بدلنے والے لوٹے اور ضمیر فروش ہوتے ہیں، رائے عامہ بھی یہی اور غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کا نچوڑ بھی یہی لیکن چودھری پرویز الٰہی نے پارٹیاں بدلنے کو جمہوری عمل ہی قرار دے دیا۔ وجہ شاید اِس کی یہ ہو کہ چودھری صاحب خود بہت بڑے ”لوٹے” ہیں۔ اُنہوں نے ہواؤں کا رُخ پہچان کر نوازلیگ سے پرویز مشرف کی طرف چھلانگ لگانے میں ایک لحظے کی دیر نہیں لگائی۔ جہاں تک عوامی شعور کی بیداری کا تعلق ہے تو چودھری صاحب کے خیال میں عوامی شعور تو تبھی بیدار ہو سکتا ہے جب کوئی آمر آئے اور اُنہیں پنجاب کا وزیرِاعلیٰ بنائے لیکن اب اِس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ چودھری شجاعت حسین تو چودھری پرویز الٰہی کو بار بار ”مَت” دے رہے ہیں کہ لے دے کے ایک مشاہد حسین سیّد ہی باقی بچے تھے، وہ بھی نوازلیگ کو پیارے ہو گئے اِس لیے ”مٹّی پاؤ” لیکن چودھری پرویز الٰہی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ویسے ہماری سیاست ہے بڑی عجیب۔ چودھری برادران ساری زندگی پیپلزپارٹی کو چودھری ظہور الٰہی کا قاتل قرار دیتے رہے۔ اُدھر پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا آصف زرداری نے بینظیر کی شہادت پر قاف لیگ کو ”قاتل لیگ” قرار دے دیااور چودھری برادران کو بینظیر کا قاتل ٹھہرایالیکن پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ اُسی قاتل لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیرِاعظم بھی بنا دیا۔ واقعی سیاست کے سینے میں دِل ہوتا ہے نہ غیرت۔

نئے انتخابات میں 24 دن باقی ہیں لیکن نوازلیگ نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا کہ اُسے انتخابات کی شفافیت پر شک ہے ۔ نوازلیگ کا یہ کہنا کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ عدلیہ کے سارے فیصلے نوازلیگ کے خلاف اور نیب کا ڈنڈا بھی نوازلیگیوں کے سر پر۔ اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کی مسند خطرناک ترین ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو جان سے گئے، اُن کی بیٹی بینظیر کو دہشت گردی نے نگل لیا، میاں نوازشریف نااہل قرار پائے اور باقی 15 وزرائے اعظم بیچارے کان سے پکڑ کر نکالے جاتے رہے۔ کبھی 58-2B کی تلوار بے نیام ہوئی تو کبھی آرٹیکل 62/63 نے گلا کاٹا۔ حیرت ہے کہ اِس کے باوجود بھی لوگ وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے مَرے جا رہے ہیں اور کپتان کی بیقراری تو سب سے الگ ، سب پہ عیاں۔

الیکشن کمپین شروع کرنے سے پہلے عمران خاں اپنی نئی اہلیہ کے ساتھ نئے گھر لاہور میں آئے۔ اُن کی آمد پر گھر میں داخل ہونے سے پہلے کارکنوں نے دہلیز پر ”تیل چویا”۔ تیل ٹپکانے کی یہ روایت تو ہندوؤں میں ہے لیکن اب یہ رسمِ بَد مسلمانوں میں بھی سرایت کر جائے گی کیونکہ کپتان کی پیروی تو سونامیوں کا فرضِ عین ٹھہری۔ عام انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کا آفیشل گانا تیار کیا جا رہا ہے جسے فرحان سعید گائیں گے۔ دراصل ابرارالحق اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے اب اتنے گھِس پِٹ چکے ہیں کہ سونامیوں کی اِن میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ وہ ”تبدیلی” چاہتے ہیں اور تبدیلی کے علمبردار عمران خاں نے نیا گانا تیار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ویسے ہمارے خیال میں اِس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر کپتان کے جلسوں میں ”اے مردِمجاہد جاگ ذرا” سنا دیا جاتا تو وہی کافی تھا کیونکہ اُن کی ”سیاسی شہادت” کا وقت قریب ہے۔

اِس کے باوجود کہ پی ٹی آئی کے دو اہم ترین رَہنماء جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی باہم جوتم پیزار (ترین صاحب ناراض ہوکر لندن جا بیٹھے)کپتان کو پھر بھی یقین کہ اگلے وزیرِاعظم وہی لیکن ہمیں کپتان سے کہیں زیادہ یقین کہ اگر ساری دنیا کے بادشاہ مر جائیں تو پھر بھی ”جَٹ دا پُتر کَدی بادشاہ نئیں بن سکدا”۔ کپتان خواہ چڑھاوے چڑھائیں یا درگاہوں پہ سجدہ ریز ہوں ، کم از کم اِس جنم میں تو وہ وزیرِاعظم نہیں بن سکتے کیونکہ وہ زورآوروں کے محبوب ومرغوب ضرور لیکن وزارتِ عظمیٰ کی حد تک ہرگز نہیں۔ اُنہیں نوازلیگ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیے جانے کے لیے استعمال کیا گیا اورتاحال کیا جا رہا ہے لیکن زورآوروں کا فارمولا وہی جو بلوچستان میں استعمال کیا گیا اور ایک چھوٹے سے آزاد گروپ کے ایک رکن کو بطور چیئرمین، سینٹ پر مسلط کر دیا گیا۔ میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد مائنس وَن تو ہوگیا، اب مائنس تھری کی تگ ودَو جاری لیکن مسٔلہ یہ آن پڑا کہ نوازلیگ کی مقبولیت میں کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔

دانیال عزیز کی نااہلی کے بعد میاں نوازشریف نے کہا ” الیکشن سے پہلے دھاندلی شروع ہو چکی۔ انتخابات میں 1970ء والا کھیل کھیلا جا رہا ہے جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا تھا۔ اگر دھاندلی نہ روکی گئی تو حالات خطرناک ہو جائیں گے۔” میاں شہباز شریف نے کہا ”نَیب یہ تاثر ختم کرے کہ نون لیگ اُس کے نشانے پر ہے”۔ مریم نواز کہتی ہیں ”ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے۔ ایک ایک کی بجائے سب مسلم لیگیوں کو ایک ہی بار نااہل کر دیا جائے”۔ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ نون لیگ کے خلاف سرگرمیاں عروج پر ہیںاور الیکٹیبلز کو ایک ایک کرکے نون لیگ سے باہر دھکیلا جا رہا ہے۔ اِس کے باوجود میاں نوازشریف میں کوئی لچک نظر آرہی ہے نہ خوف۔ شاید زندگی میں پہلی بار وہ بھرپور سچائیوں کے جَلو میں ڈَٹ کر کھڑے ہیںجس پر اُن کی اپنی جماعت کے کچھ لوگ بھی پریشان ہیں لیکن میاں صاحب ڈَٹے ہوئے اوراب عالم یہ کہ

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

میاں صاحب کا یہ روپ ہم نے 1999ء میں دیکھا لیکن پھر سعودی دوستوں کے مجبور کرنے پر اُنہوں نے جلاوطنی قبول کر لی البتہ اب کی بار وہ اپنا بڑھایا ہوا قدم پیچھے ہٹانے کو ہرگز تیار نہیںاور وہ بَرملا اپنے مہربانوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ

تم رکھ نہ سکے اپنی جفاؤں کا بھرم بھی
تم نے میرا اُمید سے کم ساتھ دیا ہے
اے قافلے والو ! میری ہمت کو سراہو
ہر چند کہ زخمی ہیں قدم ، ساتھ دیا ہے

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر