عام انتخابات اور ہمارے سیاستدان

Election

Election

تحریر : منظور احمد فریدی

اللہ جل شانہ کی بے پناہ حمد و ثناء اور فخر آدم و بنی آدم جناب محمد رسول اللہ کی ذات بابرکات پر درودوسلام کے ان گنت نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم الحروف نے دوستوں کے بے پناہ اصرار پر اپنے علاقہ کی سیاسی صورتحال پر زیر نظر مضمون ترتیب دینا چاہا مگر انتخابات کے پیش نظر صرف اپنے علاقہ کے بجائے اپنی بساط کے مطابق مجموعی صورت پر ہی چند سطور حوالہ قارئین کر دی ہیں اپنے غیور قارئین کرام کی آراء کا انتظار رہے گا۔

اللہ کریم نے انسان کو اپنی جمیع مخلوقات سے افضل اور با شعور تخلیق فرمایا ہے اور اس کے سر پر اپنے نائب ہونے کا تاج سجا کر پوری دنیا کو اس کے لیے مسخر فرمادیا ہے گویا انسان پوری دنیا کا حاکم ہے اللہ نے معاشرہ میں سب کو ایک جیسا چہرہ ایک جیسی دولت عقل فہم وفراست عطا نہیں فرمائی بلکہ اسکے مختلف درجات بیان فرما دیے اور رہن سہن کے طریقے وضع فرما دیے انبیاء کرام کے ذریعہ سے حاکم اور رعایا کے حقوق بھی بیان فرما دیے ۔وطن عزیز ملک پاکستان جسکی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر رکھی گئی لاکھوں مہاجرین نے اپنا تن من دھن سب قربان کرکے اسے حاصل کیا تو مقصد فقط ایک ہی تھا کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندو اور مسلمان دو الگ تھلگ قومیں ہیں اور مسلمانوں کو ایک ایسی ریاست درکار ہے جہاں اسلامی معاشرہ تشکیل پائے اور اقتدار کا تصور وہی ہو جو اللہ نے حکم دیا ہے مگر بد قسمتی سے ایسا ستر سال گزرنے کے باوجود نہ ہوسکا حصول پاکستان کے وقت سے ہی ایک ایسا گروہ اس تحریک میں شامل ہوگیا جس نے پہلے تو قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی پھر دال نہ گلنے پر اسی تحریک میں شامل ہوکر اپنے خفیہ ایجنڈے پر کام کرتے رہے اور بالآخر اس کی باگ ڈور سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا اور آج تلک کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہی ہیں بد قسمتی سے یہ لوگ اسلام سے بے۔

بہرہ اسلامی اقدار سے محروم اور دنیا کے حصول میں فنکار ٹھہرے انہی لوگوں نے اسلام کے پیروکاروں کا مذاق بنا کر ملک کے جاگیر دار طبقہ کو اسلام سے دور کر دیا جس سے علماء کرام اور مشائخ عظام کی بے قدری ہونے لگی نتیجہ میں علماء حق نے اپنا نماز روزہ کرلینا ہی کافی سمجھا اور مشائخ نے اپنے حجرے سنبھال لیے اس ٹولہ کا یہ وار اتنا کامیاب رہا کہ عوام اس حد تک گمراہ ہو گئی اور یہاں تک بچشم خود دیکھا اور سنا ہے کہ ،،،پیروں کا سیاست میں کیا کام وہ اپنی اللہ اللہ کریں ،،، علماء حق کی جگہ بہروپیے ملائوں نے لے لی جنہوں نے حاکم وقت کے ہر جائز ناجائز کالے سفید کرتوت کو حلال کے ٹھپہ سے ملک پر نافذ کرنے میں اپنے نمک حلال ہونے کا حق ادا کردیا اور یوں وطن عزیز ایک اسلامی ریاست کے بجائے ایک وہ ریاست بن گئی جو نہ تو یورپی اقوام کے قوانین اپنا سکی اور نہ اسلامی جسکی لاٹھی اسکی بھینس جیسے قانون کا راج رہا اور ہر طاقت والے نے کمزور کا استحصال کیا خیر آج کا موضوع انتخابات ہیں عوامی جمہوریہ چین کے بانی نے کہا کہ میں نے جاہل کو ووٹ کا حق نہیں دیا اور تمھاری تو لاریب کتاب میں ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے پھر تم جاہلوں کو ووٹ کا حق کیوں دیتے ہو پاکستان میں ہر اس شخص کو سیاست میں آنے کا حق ہے جو امیر ہو غنڈہ گردی کر جانتا ہو اور وقت پڑنے پر انصاف اور قانون کو خرید سکے قیام پاکستان سے اب تک اس پر حکومت کرنے والا طبقہ آپس میں رشتے دار اور ایک دوسرے کے دکھ درد کا ساتھی ہے عوام کو بے وقوف بنا کر ایک دوسرے پر طنزیہ تقریریں کر کے باری باری اقتدار میں رہ رہا ہے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ ایک پارٹی میں چچا تو اس کی سیاسی مخالف پارٹی میں بھتیجے نے الیکشن میں حصہ لیا۔

ووٹ مانگنے کے دوران ایک دوسرے کی خوب مخالفت کی اور باری باری اقتدار کے مزے لوٹے چچا حاکم بنا تو بھتیجے کے سارے کام وہ کرتا رہا اور اگر بھتیجا اقتدار میں آیا تو اس نے چچا کو ہر طرح کا تعاون فراہم کیا اور بھولی بھالی پاکستانی قوم ان کے دائو کو سمجھ ہی نہ پائی اب پھر انتخابات قریب ہیں سیاسی وفا داریاں تبدیل ہو رہی ہیں سیاسی پنڈتوں کی پشین گوئیوں کے مطابق اقتدار میں آنے والی پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لیے زور لگائے جا رہے ہیں مگر عوام کو سوائے طفل تسلیوں کے کسی نے کوئی ایسا منشور نہ دیا ہے جس میں اسے عزت سے دو وقت کی روٹی صحت کی سہولت بچوں کی تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہو ذوالفقار علی بھٹو ایک انقلابی لیڈر تھا جس نے عوام کو پہلی بار روٹی کپڑا اور مکان کا منشور دے کر اقتدار حاصل کیا اس کے منشور پر کس قدر عمل درآمد ہو ایہ تو میں نہیں جانتا مگر اس نے اپنے اقتدار کی قربانی دینے کی بجائے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اس کے بعد اس کے خودساختہ جانشینوں نے عوام سے روٹی کپڑا اور مکان بھی چھین لیا پیپلز پارٹی جو کہ خالص عوامی پارٹی تھی اس کے عہدیداران نے اپنے ہی کارکنوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ پارٹی کے وہ کارکن جو بھٹو کو اپنا روحانی باپ مانتے تھے انہوں نے بھی پیپلز پارٹی کو خیربا کہہ دیا ۔مرد مومن جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے جانشین میاں محمد نواز شریف کو بھٹو مخالف لابی اکٹھی کر کے ایک مضبوط سیاسی پارٹی بنانے کیلئے ہر طرح کی جائز نا جائز امداد فراہم کرتے رہے ان کا مقصد پیپلز پارٹی کے سامنے ایک ایسی مضبوط سیاسی پارٹی کھڑی کرنا تھی جس سے ملک میں پیپلز پارٹی کا اقتدار میں آنے کا کوئی خدشہ ہی نہ رہے۔

میاں محمد نواز شریف کو مرد مومن نے وزیر خزانہ وزیراعلیٰ اور اپنا معتمد خاص بنائے رکھا اس طرح ایک نئی سیاسی پارٹی مسلم لیگ وجود میں آئی جس میں شامل تمام لوگ بھٹو مخالف بھی تھے مگر اقتدار کی ہوس میںاس پارٹی کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر سے میثاق جمہوریت کے نام پر ایک معاہدہ لکھ کرباری باری اقتدار میں رہنے کے عہدوپیمان کیے معزز قارئین 2008سے آج تک نواز زرداری بھائی بھائی ہیںاور بھولی بھالی عوام کو مسلسل بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں حال ہی میں ایک خود رو سیاسی لیڈر سابقہ کرکٹر سامنے آیا جس نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک الگ سیاسی پارٹی بنا کر یہ اعلان کیا کہ وہ کسی بھی متنازعہ یا کرپٹ شخص کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کرے گا اس کی پارٹی صرف محب وطن اور نظریاتی سیاست دانوں کی پارٹی ہو گی مگر کپتان بھی اپنے اس عہد پر پورا نہ اتر سکا اور دوسری پارٹیوں سے چلے ہوئے کارتوس پاکستان تحریک انصاف میں شامل کر لیے معززقارئین کرام میرا علاقہ ضلع پاکپتن میں ہے جس میں صرف دو خاندان ہی سیاست کے مضبوط ارکان تھے مرحوم رائو محمد ہاشم خان جو جیتے جی پیپلز پارٹی کے ہی رہے اور ضلع پاکپتن میں پی پی پی کی صدارت بھی ان کے گھر میں رہی دوسری طاقت مانیکا فیملی ہے جو قیام پاکستان سے اب تک سیاست میں اپنا لوہا منواتی چلی آئی ہے ان دونوں حریفو ںکی باہمی چپقلش سے علاقہ میں ڈوگر فیملی اور کھگہ خاندان بھی سیاست میں آیا جنہوں نے ان دونوں حریفوں کو پچھاڑ کر خود کو منوا لیا سردار منصب علی ڈوگر مسلسل دو بار ہمارے علاقہ کے ایم این اے منتخب ہو چکے ہے حالیہ انتخابات میں ابھی تک صورت حال واضح نہ ہو پائی ہے۔

سابق وفاقی اور صوبائی وزیر میاں غلام احمد خان ماینکا مرحوم کے صاحبزادے احمد رضا خان مانیکا جو کہ کپتان کی پارٹی کے ضلعی صدر تھے اور حلقہ میں ایم این اے کے مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے تھے چند انتہائی ذاتی معاملات پر انہوں نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا جس سے کھگہ برادری اور ڈوگر صاحبان اپنے طور پر ایم این اے بن کر بیٹھے ہیں جب کہ ہاشم خان کے بیٹے نسیم ہاشم اور ایم پی اے میاں نوید کے والد رانا احمد علی نے بھی اسی حلقہ سے ایم این اے کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے ایم پی اے کی سیٹوں پر حالیہ صوبائی وزیر ن لیگ عطا ء محمد ما نیکا اورسردار منصب علی ایم این اے کے بھائی واجد ڈوگر مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں اگر احمد رضا خان مانیکا اپنے چھوٹے بھائی فاروق مانیکا کو صوبائی امیدوار لے کر میدان میں اترتے ہیں تو بغیر کسی پارٹی ٹکٹ کے بھی دوسرے امیدواروں کیلئے خاصی مشکلات پیدا کر لیں گے عطاء مانیکا کے بھتیجے فرخ ممتاز مانیکا بھی ایم پی اے کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں مانیکا فیملی میں اقتدار کا عروج کچھ ایسے بھی رہا ہے کہ چچا صوبائی وزیر اور دونوں بھتیجے ضلع اور تحصیل کے ناظم رہے مگر علاقہ کی عوام کو وہ بنیادی سہولیات بھی نہ ملی جو ساتھ واقع ضلع اوکاڑہ کے دیہاتوں میں دستیاب ہیں سوئی گیس بنگہ حیات سے دونوں اطراف میں ضلع اوکاڑہ کے گائوں صرف چند سو میٹر کے فاصلہ پر موجود ہے مگر بنگہ حیات کی عوام اس سہولت سے تا حال محروم ہے علاقہ میں کئی چکوک اور آبادیا ں آج بھی رابطہ سڑکوں بجلی تعلیم اور صحت جیسی بنیاد ی سہولتوں سے محروم ہیں عوام نے ہمیشہ اس خاندان کو اقتدار میںرکھنے کیلئے کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ نہ دیا دیکھیں اس بار اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ والسلام

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی