کیا کوئی اخلاق باختہ صادق و امین ہو سکتا ہے

Judiciary

Judiciary

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ہمارے اجداد نے یہ وطن بہت بڑی جانی و مالی قربانیاں دینے کے بعد سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔یہ بات بھی ہر ذی شعور پاکستانی جانتا ہے کہ آئین کے ابتدایئے میں اور بعد میں آئین کی ابتدائی شقوں میں سے بھی ایک شق یہ بھی ہے ،جس میں یہ بات طے کردی گئی ہے کہ ’’مملکت کے اختیارات استعمال کرنے کے مجاز عوام کے منتخب نمائندے ہیں‘‘پھر نہ جانے کیوں لوگ ،آئین کی تشریح توڑ مروڑ کے پیش کر رہے ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا آئین سُپریم ہے۔مگر یہ آئین بھی تو عوام کے منتخب نمائندوں کا ہی مرتب کر دہ ہے،جو پاکستان کے عوام کی منتخب کردہ اسمبلی نے بنایا ہے ۔لہٰذا پارلیمنٹ، اس کے نمائندے ،جو قانون ساز کہلاتے ہیں کی اپنی ایک اہمیت ہے،اور آئین کی عمل داری سب پر واجب ہے۔ کوئی شخص یا ادارہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانوں کو اُس وقت تک اپنی تعویلات سے ختم نہیں کر سکتا ہے۔ جب تک کے یہ بات ثابت نہ ہو جائے کہ یہ عوام کے حقوق سے متصادم ہے۔ پارلیمنٹ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت مذکورہ بات پائیہ ثبوت پر پہنچنے پر ہی عدالتِ عالیہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے قانون کی تنسیخ کر دے۔ اس کے علاوہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔وہ لوگ جو خود صادق وامین نہ رہے ہوں ۔وہ کسی کی صداقت و امانت پرکیسے فیصلہ دے سکتے ہیں؟ایسے لوگ ملک میں جمہوریت سے کھلواڑ کرنا چھوڑیں ۔پاکستان کا موجودہ سیاسی معاشرے کو غیر تربیت یافتہ سیاسی لوگوں نے اخلاق با ختگی کی ننگی دلیل بنا یاہواہے۔جو ہمیں اور ہمارے سماج کواخلاقی بگاڑ کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھاتے جارہے ہیں۔

عمران خان نیازی کہتے ہیں کہ میں اور میری جماعت عدلیہ کے پیچھے کھڑے ہیں، اور لگتا یوں ہے کہ آج بعض منصف بھی ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔مگر نیازی وہ دن بھول گئے جب کنٹینر پر کھڑے ہو کر عدلیہ کو شب شتم کا نشانہ بنا رہے تھے ۔کیا اس کی یہ وجہ تو نہیں کہ اُس وقت ایمپائر کی انگلی ان کے پیچھے ہل رہی تھی ۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ آج ایمپائر کا بوٹ اور اورانصاف کا ہتھوڑا بھی ان کی کمر ٹھونک رہے ہیں۔کیونکہ یہ کے سب سے زیادہ لاڈلے ہیں۔جبھی تو کہا گیا ’’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘ اور اُاس کو مصنوعی چاند دینے کی بھی بھر پور کوششیں جاری ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نیازی کافاؤل پر فاؤل کر کے بھی میدان میں موجود رہنا تعجب خیز ہے۔ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی بد زبان، اخلاق باختہ،گندے کردار کا مالک بھی صادق و امین ہو سکتا ہے؟ مگر لاڈلا ہے! یہ ملک تو وہ ہے جہاں ایگزیکٹ کی ہی ڈگریاں صداقت و امانت کے حوالے سے ایسے لوگوں پر نچھاور ہیں۔ عمران نیازی کی طرح آج کئی میڈیا ہاؤسز اور نام نہاد اینکر ز کے علاوہ زرد صحافت کے شہسوار بڈھے گھوڑے ،سب مل کر موجودہ جمہوریت کا جنازہ نکالنے پر متفق اورکمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ہماری بد قسمتی یہ ہی ہے کہ ہمیں عوام میں مقبول سیاسی رہنماؤں کی بجائے اداروں کی انگلیوں پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں چاہیءں ۔جو صرف وہ ہی گیت الاپیں گی جو ان کے ماسٹر چاہیں گے۔

جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا سوچنے والوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ سب سے پہلے باقاعدہ طور پر ٹرائل کئے بغیر ہی منتخب وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے کراوراُس کو مختلف عنوانات دے کر رسوا کیا جائے اور عوام کے ووٹوں کی توہین کیجائے، اوراس کے بعد ہمیشہ کیلئے ایک منتخب وزیر اعظم کو اقاما پر گھر بھیج کر مزید رسوا کیا جائے، اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو بائی پاس کر کے ان کی پارٹی صدارت پر بھی شب خون مار کر انہیں بے دست و پا کرنے کی نا کام کوشش کیجائے ہے۔حد تو یہ ہے کہ انکا پاٹی نشان شیر بھی چھین لیا گیا ہے۔اور پھرفرشتوں کی جانب سے الزامات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

سیانے کہتے ہیں، بہتر یہ ہوگا کہ سیاسی جماعتیں فوج اور عدلیہ کے ذریعے اقتدار میں آنے کی خواہش سے مکمل اجتناب برتیں۔مگر عام خیال یہ ہی کیا جا رہا ہے کہ عمران نیازی کے ساتھ کچھ بوٹ بردار اور ہتھوڑا بردار بھی شائد اس کوشش میں ہیں ،کہ اگر عمران کو اس ملک میں اقتدار نہیں دلایا جا سکا۔ تو یہاں ٹرپل بریگیڈ کو لا کھڑا کیا جائے، اور ملک سے ایک مرتبہ پھر جمہوریت کو چلتا کرو دیا جائے ۔جس کے لئے شائد پی سی او کی کھیپ بھی موجود ہے۔ کیونکہ آج جس طرح جمہوری لوگوں کی مختلف اسٹائل سے تذلیل کی جا رہی ہے ۔ وہ کسی بھی جمہوریت پسند کے لئے قابلِ قبول نہیں ہونی ہے۔

گذشتہ قریباََنو،دس ماہ سے پوری قوم کو کنفیوز کیا ہوا ہے ۔ اور ہر وہ جتن کیا گیا جس سے ن لیگ کی حکومت و قیادت کو نقصان پہنچتا ہو۔مگر اس کے باوجود وہہر میدان میں پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ کامیاب ہو رہی ہے۔بعض اداروں کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ مسلم لیگ ن کو سینٹ کے انتخابات میں جو کامیابی ملنے والی تھی،اُس کومسلم لیگ کے ہاتھ سے چھین کر زرداری اور کھلاڑی میں بانٹ دی جائیں اور(ہینگ پارلیمنٹ کو وجود بخشا جائے) شواہد موجود ہیں،زرداری کو تو بعض ڈنڈا برداروں نے ہارس ٹریڈنگ کرانے میں بھی مدد فراہم کر دی ہے۔اس ضمن میں بلوچستان کا ڈرامہ اسٹیج ہوتا پوری قوم نے دیکھا ۔عالمی جریدے بھی مذکورہباتوں کی مسلسل گوہی دے رہے ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ کو نقصان پہنچانے میں اسٹابلشمنٹ کا ہاتھ ہے،ن لیگ کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے بھی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے پر مجبور کردیاہے،ایوانِ بالا میں داخل ہونے سے پہلے کامیاب آزاد امیدوار وں کی ن لیگ سے وفا داریاں تبدیل کرائی جا سکتی ہیں! (رپورٹ اکنامسٹ)ہم کہتے ہیں کہ جس کو اقتدار دلانے کی ہمارے ادارے دن رات کوششوں میں مصروف ہیں!اگر وہ نہ آ سکا تو ہنگ پارلیمنٹ ہی کوشش کر کے بنوا دی جائے۔تکہ کوئی سوال کرنے والا سامنے آہی نہ سکے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.com