تجاوزات خاتمہ یا ڈرامہ بازی

Encroachment

Encroachment

تحریر : محمد جواد خان
ہمارے معاشرے میں روز مرہ کی زندگی کے اندر اگر کسی کے سر میں درد ہو تو اس کے لیے ضروری نہیں کے ہر قسم کے سر دردکا علاج سر کے درد کی گولی ہی ہے۔ اگر آپ گولی لیں گئے تو وقتی طور پر تو آپ کو آرام ہو گامگر ابدی آرام کے لیے درد کی وجوہات کا معائنہ کروانے کے بعد اگر اس وجہ کو ختم نہ کیا جائے تو کچھ دیر بعد سر درد پھر سے شروع ہونے لگتا ہے۔ جو کہ رفتہ رفتہ دیگر اور مسائل کی اماج گاہ بن کر وبال ِ جان بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح حکومت جو کہ پچھلے 65سالوں سے بے حس سوئی ہوئی تھی ، آج اچانک خیال آ جانے پر جب اس کو ہوش آئی تو اس نے تجاوزات کو ختم کرنے کا عہد تو کر لیا جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔

مگر اس بات کی طرف بھی حکومت توجہ دے کہ کن کن محکموں/ افسران کی زیر نگرانی یہ تجاوزات تعمیر کی گئی تھیں۔ ۔۔۔؟ کیاحکومت ِ وقت ان کے خلاف بھی کوئی ایکشن لے گئی۔۔۔؟یاایک غریب آدمی جس کی دال روٹی اس کی ایک دکان سے چل رہی ہو اس غریب کی دکان کو گرِا کر تجاوزات کا نعرہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے لگایا جا ئے گا۔ سرکاری اراضی پر قابض اور غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن تو ہر دور ِ حکومت کا فرض بنتا تھاکہ وہ ان تجاوزات کو تھوڑا تھوڑا کر کے ختم کر تے آتے۔

تقریبا 65سالہ آزادی کے بعد اگر ہر دور میں ان کے خلاف اقدامات کیے جاتے تو آج سرکاری اراضی پر تجاوزات کی بھر مار بڑھتے بڑھتے مالکانہ حقوق میں تبدیل نہ ہو سکتی ۔ حکومت و انتظامیہ کی بے حسی کے ساتھ ساتھ تجاوزات کی بھر مار دونوں کا ساتھ ساتھ چلنا عقل و شعور کے احاطے میں بھی نہیں آسکتا کہ اداروں اور قوانین کی موجودگی میں ایک آدمی کس طر ح کسی بھی سرکاری زمین پر تجاوزات تعمیر کر سکتا ہے۔ یا پھر وہ ادارے جن کی ملکیت میں تھی یہ زمین کیاوہ سوئے کہ سوئے رہے، اگر ان کی اپنی ذاتی زمین ہوتی تو وہ ہاتھ پائوں چلاتے مگر انھوں نے بھی کہا ہو گا کہ سرکار کا مال ہے ۔۔۔ہمارا کیا جاتا ہے۔۔۔۔

PTI

PTI

خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کاتجاوزات کے خلاف آپریشن کی سمجھ تو اس لیے بھی آسکتی ہے کہ اس پارٹی نے پہلی دفعہ اقتدار میں آتے ہی اپنے ووٹ بینک کی پرواکیے بغیر سرکاری اراضی پر سے تجاوزات کے خاتمہ کے لیے اقدامات ہنگامی صورت حال میں کرنے لگے۔ مگر دیگر علاقوں میں ہونے والے آپریشن اور دیگر پارٹیوں کی سرگرمیاں سمجھ سے بالا تر ہیں۔ کیا وہ اس سے قبل اقتدار میں نہیں آئے تھے۔۔۔؟ کیا اس سے قبل ان کے پاس پاور نہیں تھی۔۔۔؟ کیا ان کے پاس اختیار ات و وسائل کی کمی تھی۔۔۔؟ کیا وہ اپنے ووٹ بینک کے ٹوٹ جانے سے ڈرتے تھے۔۔۔؟ کیا ان تجاوزات میں ان کے اپنے پلازے تو شامل نہ تھے۔۔۔؟۔

تجاوزات کا خاتمہ کرنے کا سب سے بڑا مقصد تو یہ ہے کہ سرکاری زمین سے غیر قانونی قابض عمارتوں کو گرایا جائے اور سڑک و راستے کو کشادہ کیا جائے مگر ادھر تجاوزات کو ہٹانے والے سٹاف کا رویہ اور ان کے طور و اطوار اس قدر سخت اور تلخ ہوتے ہیں کہ جیسے ابھی ان کو کسی آلہ دین کے چراغ میں سے نکال کر حکم دیا ہو کہ جائو یہ گرِا دو۔۔اوپر سے ان کی ہٹ دھرمی کی بھی انتہا ء دیکھیں کہ جب یہ سڑک پر کچر ا ڈال کر جانے لگتے ہیں تو کوئی یہ بات بول دے کہ بھائی صاحب اس کو سائیڈ پر ہی کر دو تو لڑنے مارنے پر اتر آتے ہیں ، یقین مانیں کہ اس کچرے کی بدولت گھنٹوں ٹریفک جام رہنے کے ساتھ ساتھ پیدل چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے، جو کہ عوام کے لیے زیادہ اذیت کا باعث بنتی ہے۔

حکومت ِ وقت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ تجاوزات کو ہٹا کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ دوبارہ نہ تو کوئی تجاوزات بنانے کے قابل رہ سکے اور نہ ہی کوئی ادارہ اپنے محکمے کی زمین پر تجاوزات بنتے دیکھ کر خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہے، اور ساتھ ساتھ عملہ و سٹا ف کے لیے بھی یہ احکامات صادر کیے جائیں کہ ملبہ کووقتی ٹرالی وغیر ہ میں ڈال کر کنارہ پر پھینک کر سٹرک کی بندش کو روکا جائے۔

Mohammad Jawad Khan

Mohammad Jawad Khan

تحریر : محمد جواد خان
mohammadjawadkhan77@gmail.com