باپ کی کمائی

Working in Shop

Working in Shop

تحریر: ممتاز ملک پیرس
ہم سب اس بات کو مانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کی رفتار ہم سے زیادہ تیز ہے اور اور ہمیں ان کا ہر انداز بھاتا بھی بہت ہے لیکن آخر اس ترقی کا راز ہے کیا ؟ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز تو یہ ہے کہ ہر بچے کو (لڑکا ہو یا لڑکی چاہے صدر اور وزیر کی ہی اولاد کیوں نہ ہو) تیرہ سال کی عمر سے سکول کی چھٹیوں میں ایک ہفتہ سے ایک مہینہ کہیں بھی خود نوکری ڈھونڈنی اور کرنی ہوتی ہے . بنا تنخواہ کے ..اور اس پر آپ کو وہاں کے مالک کا آپ کے اخلاق، بات چیت، تہذیب، وقت کی پابندی، صفائی ستھرائی گویا ہر ایک نقطے پر ایک گواہی کا سرٹیفیکیٹ لینا ہوتا ہے . اس کے بنا آپ اپنا سالانہ امتحان پاس نہیں کر سکتے . اس سے ان بچوں کو اپنے والدین کی کمائی کی ویلیو اور محنت کا احساس پیدا ہوتا ہے … جبکہ ہمارے ہاں تو ماشااللہ بھی P H D والدین کی کمائی پر ہو رہی ہے . تو پھر ہم دنیا میں خود کو ان کے برابر کیسے کر سکتے ہیں . کیونکہ ہمارے اور ان کے تجربات اور احساسات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔

ہمارے ہاں غریب لوگوں کے بچے زندگی میں اکثر اپنا کوئی (ٹارگٹ) نشانہ بنا لیں تو مالدار لوگوں کی اولاد سے زیادہ بہتر انداز میں اسے حاصل بھی کر لیتے ہیں . اسکی وجہ بھی یہ احساس اور جذبہ ہوتا ہے کہ انہیں محنت کرنا بھی آتی ہے اور محنت کرنے والوں کی قدر کرنا بھی آتی یے . ویسے بھی جس انسان نے اپنے ہاتھ سے کبھی کوئی محنت ہی نہ کی ہو. کبھی کسی محنت کے کام میں پسینہ نہ بہایاہو وہ کسی اور کے پسینے کو بھی جم کے پسینے سے زیادہ کی اہمیت کیسے دیگا۔

Rest

Rest

اکثر باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنی محبت کے مارے ہی بٹھا کر سست، کاہل اور کام چور بنا دیتے ہیں. اور نتیجہ اس آرام طلبی میں وہ بہت آسانی سے بری عادت کا شکار ہو جاتے ہیں . ظاہر ہے یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ مصروفیت تو بہرحال چاہیئے ہوتی ہے . تو جب یہ مثبت مصروفیت آپ یعنی والین اسے مہیا نہیں کرتے تو ماحول ،صحبت اور سنگت انہیں مہیا کر دیتی ہے . اور آپ تک یہ سب صورتحال جب تک پہنچتی ہے تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے ۔

سو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو بے مقصد زندگی دینے کی بجائے محنت کرنے کے جذبے سے بھرپور صحت مند اور معاشرے کے لیئے فعال زندگی عطا کریں . ورنہ کھانا پینا سونا جاگنا اور بچے پیدا کرنا تو دنیا کی ہر مخلوق جانتی ہے . انسان کو اگر اشرف المخلوقات کہا گیا ہے تو ہمیں اس بات کو اپنی محنت اور انسانیت سے ثابت بھی کرنا ہے کہ واقعی انسان اللہ کی بنائ ہوئی سب سے زیادہ شرف رکھنے والی مخلوق یے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر: ممتاز ملک