قصوار کون ہے

Suicidal

Suicidal

تحریر: مریم رمضان
پاکستان میں خودکشی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ایک خبر کے مطابق پاکستان میں 2007 میں اڑہائی ہزار افراد نے خودکشی کی اگر ہم 2015 کی بات کریں تو اب خودکشی کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے خودکشی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثال کے طور پر پسند کی شادی نہ ہونا,گھریلو جھگڑے,بے روزگاری لیکن ان میں سے ایک اہم وجہ امتحان مین ناکامی ہے امتحان میں ناکامی کی وجہ سے طالب علم کے خودکشی کے کئی واقعات آئے روز اخبار میں ملتے ہیںاب یہ چند دن پہلے کی بات ہے ہمارے گاو ¿ں کی اک بچی نے امتحان میں ناکامی کو وجہ سے زہر کی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی اسی نوعیت کا اک اور واقعہ شہر چیچہ وطنی میں پیش آیا اک بچے نے تواقعوں کے مطابق نمبر نہ آنے پر چھت سے کود کر اپنی جان دے دی خودکشی کے واقعات ہمارے لیے روز کامعمول بن چکے ہیں۔

آخر ایسی کون سی وجہ ہے جو رزلٹ آنے پر طالب علم کو اپنی زندگی ٹھکرانے پر مجبور کر دیتی ہےاس کی دو وجوہات سامنے آئی ہیں استاتذہ اور والدین کا بچوں کے ساتھ مناسب رویہ نہ ہونا ایک طرف استاتذہ اپنا فرض صیح طریقہ سے پورا کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اگر ہم استاتذہ کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں علم ہوگا کے استاتذہ کا رویہ طالب علم کے ساتھ بلکل بھی دوستانہ نہیں خاص طور پر سرکاری سکولوں میں تو استاتذہ ذاتی تنازعہ کی بنا پر طالب علم کو پریشان کرنا اپنا فرض سمجتے ہیں ایسا خود کئی مرتبہ میرے ساتھ بھی ہوا اک اور بات استاتذہ کی نظر میں سب بچے نالائق ہیں سوائے ان کے جو استاتذہ کے لیے گھر سے لسی,دودھ ساگ اور مکئی کی روٹیاں لے کے آئیں اک تو استاتذہ سارا سال پڑھانے پر توجوں نہیں دیتے مگر جوں ہی امتحان قریب آتے ہیں۔

Duty

Duty

اتنی ہی تیزی سےا ستاتذہ اپنا فرض بھی یاد آنے لگتا ہے پھر وہ اپنا فرض پورا کرنے میں یوں مگن ہو جاتے ہیں کے وہ سلیبس جو وہ سارا مکمل نہیں کروا پاتے وہ اک ماہ میں مکمل کروا دیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کے طالب علم نے یاد کیا بھی ہے کے نہیں اور ساتھ ساتھ یہ ھدایت دینا نہیں بولتے کے اگر امتحان میں کم نمبر لیے تو پھر دیکھنا میں تمہارا کیا حال کرتا ۔

دوسری طرف والدین پہلے سارا سال نہ مکمل ٹائم دیتے ہیں اور نہ بچوں کی پڑھائی پہ توجوں مگر جوں ہی امتحان قریب آتے ہیں والدین بچوں دے گولڈمیڈلسٹ کو توقعوں کرنے لگتے ہیں جس کا اظہار وہ بچوں سے بھی بے ڈھڑک کر دیتے ہیں ایک طرف استاتذہ اور دوسری طرف والدین کا رویہ بچوں کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔

جس کی وجہ سے نہ صرف وہ دوہری اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ اچھے طریقے سے امتحان کی تیاری نہیں کر پاتے اور جب رزلٹ آنے پر ان کو علم ہوتا ہے کہ وہ والدین اور استاتذہ کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے تو بعض شرمندہ ہو کر اور بعض ڈر اور جذباتی ہو کر خودکشی جیسا قبیح کام کر لیتے ہیں اب آپ ہی سوچیں قصور وار کون؟ استاتذہ اپنے فرض کا مذاق اڑاتے ہیں۔

Parents

Parents

والدین اپنے بچوں کی زندگی کا خدارا والدین اور استاتذہ ہوش کے ناخن لیں استاتذہ اپنا فرض کو پہچانیں اور والدین کو اگر اپنے بچوں کی زندگیاں عزیز ہیں تو ان کو مکمل ٹائم دیں اور پڑھائی کی طرف بھی توجو دیں تبھی ہم بچوں کا مستقبل سنوار بائیں گیں استاتذہ اور والدین کو فرض پہچاننا ہو گا تبھی ہم بچوں کی ذندگیاں بچا پائیں گے بقول علامہ اقبال
ناامید نہیں اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو یہ مٹی تو بہت زرخیز ہے ساقی۔

تحریر: مریم رمضان
Writer Club (Group)
Email: urdu.article@gmail.com
Mobile No: 03136286827