حسن منٹو کی برسی پر خراج عقیدت

Sadat Hassan Manto

Sadat Hassan Manto

تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
اردو کے نامور افسانہ نگار ” سعادت حسن منٹو ”کو ہم سے بچھڑے اکسٹھ سال کزر گئے ۔ وہ پاکستان کے نامورافسانہ نگار جس نے اردو ادب میں ایک نیا انداز اپنا کر بلند مقام پایا۔ اردو ادب کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ حلقہ فکر و فن کے زیر اہتمام ڈاکڑمحمد ریاض چوھدری کے کاشانۂ ادب پر ریفرنس منعقد کیا گیا جس میں شہرکی معروف ادبی شخصیات نے شرکت کی ۔ اس موقع پر مقررین نے ان کی حیات اور کارناموں پر روشنی ڈالی ۔ “سعادت حسن منٹو ” 11 مئی 1912 کو سمرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی پھر کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزارا مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔ ابتداء میں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔

بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی۔ ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔سعادت حسن منٹو ایک عظیم فنکار ہیں ۔ ان کی عظمت کا ایک زبردست ثبوت یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور فن اپنے معاصرین اور متاخرین کے لئے بے حد متنازعہ فیہ رہا ہے ان کے بیشتر افسانوں نے بحث و تمحیص کے دفتر کھول دیے ہیں۔

Saadat Hassan Manto

Saadat Hassan Manto

منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے جنس کو موضوع بنایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی جنگ آزادی سیاست، انگریزوں کے ظلم وستم اور فسادات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال دیا۔انہوں نے بیس برس کی ادبی زندگی میں دو سو سے زیادہ کہانیاں تحریر کیں ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل بن چکی ہیں بعض ناقدین نے ان کو عریاں نگار اور فحش نگار قرار دے کر رد کردیا اور بعض نے ان کہ حال فنکاری کے اعلی نمونے تلاش کیے۔ حقیقت میں انہوں نے تہذیبکے پس منظر میں سماجی ، ذہنی اور فکری زندگی کی عکاسی کی ہےاور سماج میں رہتے ہوئے ناسوروں پر نشتر رکھ دیئے ہیں۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ مسخ شدہ کرداروں کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ منٹو کا فن پروپیگنڈہ اور صحافت کا فن نہیں وہ نپے تلے انداز میں کم سے کم الفاظ کے ساتھ نہایت احتیاط سے اپنے موضوع کی تخلیق بازیافت کرتے ہیں۔ ان کا فن شیشہ گری کا فن ہے وہ اپنی روایات کو گھما پھرا کر الفاظ کے حسن میں ڈھالتے ہیں اور اپنے موضوع کو اس ڈنگ سے پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ضمیر کی جڑیں ہلتی ہیں۔

Saadat Hassan Manto

Saadat Hassan Manto

سعادت حسین منٹو بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور اس فن میں بہت کم لوگ ان کے مدمقابل ہیں لیکن انہوں نے نثر کو دوسرے شعبوں میں کارہائےو نمایاں انجام دیے ہیں۔ ان کے مضامین اور انشائیے ان کے مکتوبات اور خاکے، ڈرامے اور ترجمے بھی اپنی امتیازی شان رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے 18 جنوری 1955ءکو جگر کی بیماری کے باعث وفات پائی۔ وہ لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری