بے بسی کی فصل

pakistan

pakistan

اس میں شک نہیں کہ نت نئی ایجادات نے اپنے عزیزواقارب کے ساتھ ملاقات کے فاصلوں کو ختم کرکے رکھ دیاہے بلکہ لمحہ بھرمیں دنیا بھر کے حادثات کی الم ناک خبریں آپ کے سکون کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہیں۔پھرسے سکندربھائی نے کراچی کے المناک حادثے کی جب اطلاع دی تودل بیٹھنا شروع ہوگیا۔ابھی ان سے بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ دوسرے دوستوں نے بھی اوسان خطا کرنے والی خبروں کا انبارمیرے گردجمع کردیا۔

میںپچھلے دوماہ سے اچھی طرح نہیں سویا، کھانا پینا،نہانا دھونا اور کپڑے پہننا بھی بھول گیا ہوں، میرا کسی کے ساتھ بات چیت کرنے کو دل نہیں چاہتا، میں خود کو ان تمام شہداء کا مجرم سمجھتا ہوں ،میں ان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی ،یہ نوجوان رکا،اس نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا،میرے کمرے کی فضا سوگوار ہوگئی،میں نے لیپ ٹاپ بندکرنے میں عافیت جانی یہ پہلا نوجوان نہیں تھا، پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ملک کا ہر شہری ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ یہ کیا ہورہاہے، ہم کچھ کرناچاہتے ہیں لیکن بتائیں کیاکریں۔

ہماری حکومتوں نے ماضی میں بدقسمتی سے عوام کو اپنے جذبات کے اظہارکے طریقے ہی نہیں سکھائے تھے لہٰذا آج لوگوں کے جذبات کے سمندر بہہ رہے ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آرہی وہ اپنے جذبات ان حادثات کے شکارخاندانوں تک کیسے پہنچائیں، یہ لوگ ان کے حق میں جلسے اور جلوس کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے راستے میں پولیس مزاحم ہو جاتی ہے، یہ لوگ ان غمزدہ خاندانوں تک پھول پہنچانا چاہتے ہیں، ان کے گھروں کے سامنے موم بتیاں لگانا چاہتے ہیں۔

یہ ان کے حق میں بیان دینا چاہتے ہیں لیکن حکومتی زعماء کسی نئے حملے کے خوف سے ان کو جمع ہونے سے منع کردیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ غصے اور ڈپریشن میں اپنے ہی بازوئوں پر دانت گاڑھ کر رہ جاتے ہیں اور لوگ اپنی ہی بے بسی کو جرم سمجھنے لگے ہیں۔ یہ اسی بے بسی اور احساس جرم کا نتیجہ ہے کہ آج ہارٹ اٹیک اور برین ہیمبرج کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ میڈیکل سٹورز سے ڈپریشن اور ٹینشن کی ادویات نہیں ملتیں، لوگ حقیقتاً پریشان ہیں اور ان پریشان لوگوں میں سے ایک نوجوان اس وقت میرے سامنے بیٹھاتھا۔

Pakistan Chine

Pakistan Chine

یہ نوجوان کیا کرے؟ مجھے بھی فوری طور پر اس سوال کا کوئی جواب نہ سوجھا، یہ بے چارہ پاکستانی شہری تھا اور اس کے پاس صبر، شرمندگی، افسوس اور رونے دھونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، میں نے سوچا اگر یہ نوجوان چین کا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟ چین میں کوریاکی جنگ میں مائوزے تنگ کا بیٹا فوت ہوگیا تھا، جب بیٹے کی شہادت کی خبر چین پہنچی تو چین کی مائیں اپنے اپنے بیٹے لے کر مائو کے پاس حاضرہوگئیں اور ان سے عرض کیا آج سے ہمارے سب بیٹے آپ کے بیٹے ہیں، مائو نے یہ بیٹے بھی محاذ جنگ پر بھجوا دئیے اور اس کے بعد محاذ سے ہمیشہ اچھی خبر آئی، اگر یہ نوجوان چین کا شہری ہوتا تو یقینا اس کی ماں اسے معزول ججوں کے پاس چھوڑ جاتی لیکن یہ چین نہیں پاکستان ہے۔

میں نے سوچا اگر یہ نوجوان کولمبیاکا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟ کولمبیا میں مافیا نے ججوں اور عدالتوں کوبموں سے اڑانا شروع کردیا تھا لیکن ججوں نے اس کے باوجود مافیا کے خلاف سماعت بھی شروع کردی، عوام نے جب ججوں کا استقبال دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے جس کے بعد عوام ججوں کو جلوس کی شکل میں عدالت لاتے اور خود جج کی کرسی کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے۔ عدالت میں بم پھٹتا اور یہ لوگ بھی جج کے ساتھ شہید ہو جاتے، یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔

یہاں تک کہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب جج کی کرسی سے لے کر میلوں تک لوگ ہی لوگ ہوتے ہیںچنانچہ بم باری کا سلسلہ رک گیا اور ججوں نے مافیا لارڈ کو سزا سنا دی۔اگر یہ نوجوان میلان کا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟ میلان کے ایک مئیر نے مجسٹریٹ کو نوکری سے نکال دیاتھا،یہ مجسٹریٹ ایمانداری، فرض شناسی اورحسن سلوک کی وجہ سے پورے شہر میں مقبول تھا، لوگوں نے فوراً مجسٹریٹ آفس کا گھیرائو کرلیا اور اس وقت تک کسی نئے مجسٹریٹ کو دفتر میں داخل نہیں ہونے دیا جب تک میئر نے عوام سے معافی نہ مانگی اور اس مجسٹریٹ کو بحال نہیں کیا۔

اگر یہ نوجوان ترکی کا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟ ترکی کے ایک باغی کو یونان نے پناہ دے دی تھی،جس کے جواب میں انقرہ کے شہری اپنی اپنی گاڑیوں پر گھروں سے نکلتے، یونان کے سفارتخانے کے سامنے رکتے،گاڑی کا ہارن بجاتے اور آگے روانہ ہو جاتے ،یہ عمل لاکھوں لوگ روزانہ دہراتے تھے یہاں تک کہ یونانی سفارت خانے کا عملہ کانوں میں روئی ٹھونسنے پر مجبور ہوگیا، اگر یہ نوجوان انڈونیشیا کا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟انڈونیشیا کے ایک وزیر کی جاوا میں کانیں تھیں،اس کی ایک کان میں دھماکہ ہوا اور کان کی گیلی مٹی اڑنے لگی، ان لوگوں نے یہ مٹی جمع کی، دارالحکومت گئے اور یہ مٹی وزیر کے گھر کے سامنے ڈھیر کرنے لگے،وزیرصاحب صرف تین دن اس احتجاج کا مقابلہ کرسکے۔

اگر یہ نوجوان ایوری کوسٹ کا شہری ہوتاتو یہ کیا کرتا؟ ایوری کوسٹ کے ایک سرکاری عہدہ دارہسپتالوں میں دواء کا استعمال شروع کرانا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹروں کا خیال تھا اس دواء میں بے شمار ”سائیڈ افیکٹس” ہیں اور اگر سرکاری سطح پر اس دواء کا استعمال شروع کیا گیاتو مریضوں کو بہت نقصان پہنچے گا چنانچہ ڈاکٹروں نے وزیر کی ہدایات ماننے سے انکار کردیا، وزیرنے ان ڈاکٹروں کو عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ کرلیا، اس نے ٥٠ ڈاکٹروں کو نوکری سے نکال دیا، عوام کو معلوم ہوا تو لوگ جمع ہوئے،انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں پچاس کلینک بنائے اور دوگنی تنخواہ اور مراعات پر ان ڈاکٹروں کو وہاں تعینات کردیا اور ساتھ ہی اس دواء ساز کمپنی کی ساری ادویات کا بائیکاٹ کردیا۔

Protest Pakistan

Protest Pakistan

اس احتجاج کا نتیجہ بھی یہی نکلا، وزیرکو عوام سے معافی مانگنا پڑی اور حکومت ان ڈاکٹروں کو دوگنی مراعات پر ملازم رکھنے پر مجبور ہوگئی۔ اگر یہ نوجوان مصر کا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟مصری ججوں نے عدلیہ میں حکومت کے بڑھتے عمل دخل کے خلاف احتجاج شروع کیا، حکومت نے ان ججوں کو دبانے کی کوشش کی، عوام کومعلوم ہوا تو لوگ ان ججوں کی ڈھال بن گئے۔

یہ ڈھال اس قدرمضبوط تھی کہ حکومت پسپا ہونے پرمجبور ہوگئی، اگر یہ نوجوان میکسیکو کا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟ میکسیکو میں ایک بار ہائی کورٹ کے ایک جج کی عدالت میں حکومت کا مقدمہ پیش تھا، جج نے جس دن فیصلہ سنانا تھا اس دن ٹریفک پولیس جج کی گاڑی اٹھا کر لے گئی، یہ خبر ریڈیو سے نشرہوئی تو ہزار لوگ اپنی اپنی گاڑیاں لے کر جج کے دروازے پر کھڑے ہوگئے، جج باہر نکلا تو اس کے گھر کے سامنے گاڑیوں کا میلوں لمبا پل بنا تھا، تمام لوگ جج کو دیکھ کر گاڑیوں سے باہر نکلے اور اپنی اپنی گاڑیوں کی چابیاں جج کے قدموں میں ڈھیر کردیں۔

اگر یہ نوجوان نیوزی لینڈ کا شہری ہوتا تو یہ کیا کرتا؟ نیوزی لینڈ کے ایک پولیس افسر نے کسی بینک کے چیف ایگزیکٹو کو گرفتارکرلیا، چیف ایگزیکٹو نے پولیس افسر کو رشوت کی پیش کش کی لیکن پولیس افسر نے اس پیش کش کو بھی مقدمے کا حصہ بنا دیا، پولیس افسر نے اسی بینک سے اپنا گھر ”مارگیج”کرا رکھا تھا،چیف ایگزیکٹو نے اپنے ماتحتوں کو اشارہ کیا،ماتحتوں نے اگلے ہی دن پولیس افسر کو گھر خالی کرنے کا نوٹس جاری کردیا، پولیس افسر عدالت گیا لیکن تکنیکی اور قانونی طور پر بینک کا دعویٰ درست نکلا چنانچہ عدالت نے بینک کے حق میں فیصلہ دے دیا، عوام اس کاروائی کے پیچھے چھپی بدنیتی سے واقف تھے لہٰذا جس دن پولیس افسر مکان خالی کر رہا تھا اس دن نیوزی لینڈ کے سینکڑوں لوگ اپنے اپنے مکانوں کی چابیاں لے کر اس کے سامنے حاضر ہوگئے، یہ نیوزی لینڈ کے لوگوں کی طرف سے اس پولیس افسر کی استقامت اور ایمانداری کو سلام تھا۔

میں نے سوچا اگر یہ نوجوان اور اس جیسے دوسرے کروڑوں نوجوان نیوزی لینڈ، میکسیکو،مصر، ایوری کوسٹ، انڈونیشا،کولمبیا اور چین کے شہری ہوتے تو آج ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لئے سینکڑوں، ہزاروں طریقے ہوتے اور اگرہمارے یہ دل برداشتہ نوجوان کسی زندہ ضمیر معاشرے میں ہوتے تو وہ آج اتنی بے بسی کے ساتھ اپنے سینے اورچہرے نہ پیٹتے کہ کوئی ان کو یہ بتائے کہ شرمیلا فاروقی کی منگنی پر شہر بھر کی ساری پولیس کواہم شخصیات کی سلامتی پرمامورکرکے ان کودرندوںکے حوالے کیونکرکردیا جنہوں نے لمحہ بھرمیںچالیس سے زائد افرادکے ٹکڑے اڑادیئے اورسوسے زائدکوزخموں سے چورچورکرکے ہسپتالوں کے ننگے فرشوںپرلٹادیا۔ گزشتہ برس ١٨نومبر کو محرم الحرام کے دوران بھی عباس ٹاؤن میں ایک دھماکا ہوا تھا۔

Protest Pakistan

Protest Pakistan

جس میں دو افراد ہلاک اور رینجرز اور پولیس اہلکاروں سمیت ٢٠افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی دھماکا خیز مواد کو ایک موٹر سائیکل سے باندھ کر ریموٹ کنٹرول کی مدد سے دھماکا کیا گیا تھا۔افسوس یہ نوجوان اور ان حادثوںکی نذر ہونے والے ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جس کی بے بس زمینوں میں صرف بے بسی کاشت ہوتی ہے اور آج پورے ملک میں بے بسی کی یہ فصل لہلہا رہی ہے،ہم سب اپنے حجروں میں بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آسمان ہمیں دیکھ کر مسکرا رہا ہے! کیوں؟کیونکہ آسمان کے پاس بے بس لوگوں کے لئے مسکراہٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
تحریر :سمیع اللہ ملک