تاریخ پونچھ کا ایک ورق اعلان بغاوت اور مینار کشمیر

Minar e Kashmir

Minar e Kashmir

تحریر : افراز احمد اعوان
زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہیں بھولتیں۔ مسلمانوں نے برصغیر پر بہت عرصہ حکمرانی کی۔ تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں کتابیں مسلمانوں کے کارناموں سے بھری ہوئی ہیں۔ کون سا میدان ہے جس میں مسلمانوں نے اللہ کے فضل سے کامیابی حاصل نہ کی ہو۔جس وقت پاک و ہند ایک تھا اس وقت بھی کسی بھی ہندومیں ہمت نہیں تھی کہ اپنے لیے الگ ملک کی سوچ بھی ہو ۔اس وقت بھی مسلمانوں نے اپنے دین کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے ایک الگ وطن کا نعرہ بلند کیا۔اس وطن کی خاطر مسلم حکمرانوں نے دن رات ایک کردیا۔ تاریخ انسانیت میں قوموں کو ان کے سیاسی رہبروںعسکری قائدین اور حکمرانوں کے طرز عمل سے جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے ، وہاں علاقہ کی آب و ہوا جغرافیائی صورتحال اور زمین کے خدوخال سے بھی جانا جاتا ہے۔

اسی طرح جہاں قائدین تحریک اور ان کے مقابلے میں قابض حکمران تاریخ کے لئے اہم ہوتے ہیں،اسی طرح وہ تمام صورتحال اور سیاسی مقامات بھی نسل کی دلچسپی کا ایک حاض موضوع ہوتی ہے ، کیونکہ تغیرات زمانہ کے باعث شہر اپنی سابقہ جگہ سے دور ہٹ کر ایک نئی تاریخ رقم کرنا شروع کرتے ہیں۔ ان حالات میں تاریخی مقامات مثلاً باغات، گراونڈز اور ٹیکریاں، ہال وغیرہ نئی نسل سے اوجھل ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔

کشمیر جہاں صدیوں پر محیط قربانیوں اور عظمتوں کی داستان بکھری پڑی ہے ، وہاں خطہ پونچھ کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔جہاں وطن کے جیالوںنے ہر دور میں قربانیوں کی عظیم مثالیں قائم کی ہیں۔ وہ 1832ء کی گلاب سنگھ کی بربریت کا جواب ہو یا کشمیری عوام کی حق ملکیت کا مسئلہ ہو۔ کشمیر اسمبلی میں حقوق کی بات ہو یا خطہ کے عوام میں سیاسی بے داری کا عمل ہو۔ علم کے میدان میں نمایاں کارکردگی ہو یا عسکری محاذ پر داد شجاعت ۔ وطن کے غیور عوام کی قیادت ہو یا عالمی سطح پر کشمیر کی نمائندگی ہو۔

Minar e Kashmir

Minar e Kashmir

خطہ کشمیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ ہو یا ڈوگرہ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک ہو۔ کشمیریوں کے سیاسی حقوق کی بات ہو یا ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہو۔ خطہ پونچھ کے عوام اور سیاسی و عسکری قیادت نے ہر دور میں کشمیری مسلمانوں کی قیادت کی ہے ۔خطہ کشمیر میں راولاکوٹ کی سیاسی ٹیکری وہ تاریخی مقام ہے جہاں 15 اگست 1947کو خطہ کے زعماء نے ڈوگرہ فوج کو ان کی موجودگی میں پہلی مرتبہ سرعام للکارا، ایک بڑے اجتماع میں آزادی کا پہلی مرتبہ اعلان کیا گیا۔ نیشنل مسلم گارڈ کے کمانڈر کیپٹن محمداشرف خان نے مسلح جدوجہد کا اعلان بھی اسی ٹیکری سے کیا۔ علاقہ میں موجود ہتھیاروں کی نمائش بھی پہلی مرتبہ اسی ٹیکری سے ہوئی۔ سیاسی ٹیکری میں مقامی زعما ء نے بڑے بڑے تاریخی جلسوں سے خطاب کیا اور آزادی کا اعلان و مطالبہ کیا، بلکہ آزادی کشمیر سے متعلقہ متعدد قراردادیں بھی منظور ہوئیں اور پوری کشمیری قوم کے لئے راستے کا تعین کیا گیا۔

سیاسی ٹیکری کو ے ہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پوری کشمیری قیادت خود مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس اور قائمقام صدر چوہدری حمیداللہ خان، راجہ حیدر خان، اے آر ساغر ،میرپور کے راجہ اکبر اور ”آزادحکومت “کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان اس ٹیکری پر خطاب کر چکے ہیں۔ 15 اگست 1947ء کے روز ہونے والے عظیم الشان جلسہ عام کی رودادعینی شاہدین سے حاصل کرکے عارف سدوزئی نے ”تاریخ سدھن قبائل “میں یوں بیان کی ہے : کو راولاکوٹ کے تاریخی گراونڈ (سیاسی ٹیکری ) موجودہ نام مینار کشمیر کی جگہ پر ایک عظیم الشان جلسہ منعقدہوا۔ جماعت کے مقامی قائد مولوی سیّد خان تھے۔

سردار محمد شریف خان صدر مسلم کانفرنس کو پونچھ شہر بلا کر وزیر پونچھ نے نظر بند کر دیا تھا۔ مولوی سید خان ایک جذباتی، شعلہ بیاں اور جرات مند انسان تھے ۔ اُنہوں نے 15 اگست 1947ء کو دفعہ 144 نفاذ کے باوجود جلسہ کے انعقاد کا اعلان کر دیا اور پونچھ کے بہادر اور دلیر عوام کو شرکت کی دعوت دی۔

Minar e Kashmir

Minar e Kashmir

دوسری طرف کرنل رام لال بحیثیت کمانڈر 9 جموں انفنٹری بٹالین دوسری جنگ عظیم کے تجربے کے ساتھ راولاکوٹ میں ہر انفرادی اور سیاسی اجتماعی تحریک کو کچلنے کے لئے موجود تھا۔ ڈوگروں نے سختی سے دفعہ 144 کا نفاذ کر رکھا تھا۔ گھروں کی تلاشیاں شروع تھیں اور ہتھیار پورے علاقے سے جمع کر رکھے تھے ۔ جب اگست کی 15 تاریخ کو راولاکوٹ کی سرزمین میں مختلف اطراف سے جلوس آنے شروع ہوئے تو ڈوگرہ فوج سراسمے ہ ہو گئی۔ سب سے پہلا جلوس ہورنہ میرہ پوٹھی مکوالاں کی طرف سے راولاکوٹ میں داخل ہوا جس کی قیادت سردار سلیمان خان، سردار حبیب خان، سردار محمد حسین خان، سردار اشراف خان، سردار مختار خان اور حوالدار سردار خان صاحبان کر رہے تھے۔

دوسرا بڑا جلوس کھائی گلہ چہڑھ کی طرف سے راولاکوٹ میں داخل ہوا،اس کی قیادت سردار عنایت اللہ خان پکھر، سردار افسر خان، سردار سید محمد خان دہمنی، سردار محمد خان دریک، سردار افسر خان و خواجہ امیرالدین و سردار علی محمد خان کر رہے تھے ۔ ے ہ جلوس سینکڑوں مجاہدین پر مشتمل تھے اور رمضان المبارک کے مہینے میں لوگ دور دور سے جذبہ جہاد کے تحت راولاکوٹ گراونڈ (سیاسی ٹیکری) میں کشاں کشاں پہنچے ۔ ان دنوں میں اس قسم کا اجتماع ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ کو دعوت مبارزت دینے کے مترادف تھا، مگر آزادی اور مذہب کے جذبے نے عوام میں ایک عجیب ہیجان پیدا کر دیا۔ وہ سیل راواں کی طرح جس طرف بڑھتے ، بڑھتے ہی چلے جاتے تھے۔

ان دنوں کیپٹن محمداشرف خان جو بقول تمام سیاسی مبصرین کے 30,000 نیشنل مسلم گارڈز کے کمانڈر تھے ، نے 15 اگست 1947ء کے جلسے کے لئے تمام حفاظتی اقدامات کر رکھے تھے ۔ نیشنل گارڈ اس تاریخی جلسہ کی حفاظت کر رہی تھی۔

Minar e Kashmir Meeting

Minar e Kashmir Meeting

اس جلسہ کے پہلے مقرر سردار مختارخان تھے ، اُنہوں نے جموںوکشمیر ریاست کے تاریخی پس منظر اور پیش منظر پر کھل کر روشنی ڈالی اور اعلان کیا کہ اب پیمانہ صبر چھلک چکا ہے ۔ اب ڈوگرہ حکمران ہماری دھرتی کو مزید غلام نہ رکھ سکے گا اور ہم ہر ممکنہ مزاحمت کریں گے ۔ جلسے کے دوسرے مقرر کیپٹن محمداشرف خان نے تقریر میں کہا ہم نے اس دن کے لئے برسوں انتظار کیا ہے ، اب مزید انتظار ناممکن ہے ۔ آج سے میں اور ے ہ حریت پسند ہری سنگھ کے کسی حکم کے پابند نہیں۔ میں 30000 نیشنل گارڈز کے قائد کی حیثیت سے ہری سنگھ کی حکومت کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا ہوں۔ اسی طرح دوسرے تمام مقررین نے اور بالخصوص مولوی سید خان نے بغاوت کے عملاً شروع کرنے پر زور دیا اور کیپٹن اشرف خان کے اعلان بغاوت کی تائید کی ۔ اس دن مقررین کی تاریخی تقررین ریکارڈ کے قابل تھیں، جب جلسہ ختم ہوا تو شام کو گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔

پوری دنیا میں جن جن اقوام نے آزادی کے لئے جدوجہد کی، اُنہوں نے قومی آزادی کی تحریکوں کے لئے منتخب کی جانے والی جگہوں کو قومی یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا۔ خود برصغیر پاک و ہند میں بھی بے شمار جگہیں قومی یادگار کے طور پر محفوظ ہیں۔ ”مینارِپاکستان“ تعمیر ہوا جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی راولاکوٹ کی سیاسی ٹیکری ہر لحاظ سے اس بات کے لئے موزوں ہے کہ یہاں قومی یادگار کے طور پر ”مینارِ کشمیر“ تعمیر کیا جائے ، کیونکہ جس قدر تحریکی کام اور بڑے بڑے جلسے ہوئے اور جتنی تعداد میں قومی راہنماوں نے اس جگہ پر تقرریں کیں اور آزادی کے حوالے سے جتنی قراردادیں یہاں منظور ہوئیں۔

پورے جموں کشمیر میں کوئی اور جگہ ایسی نہیں۔ کشمیر سے متعلق لکھنے والے مورخین نے اپنی تحریروں میں اس سیاسی ٹیکری کا ذکر ضرور کیا ہے ۔ سردار محمدشریف خان لکھتے ہیں کہ راجہ حیدر خان صدر مسلم کانفرنس نے اس سیاسی ٹیکری کو ”دارالجہاد“ کا نام دیا تھا اور 15 اگست 1947ء کو ضلع پونچھ کے تمام علاقوں سے لگ بھگ 50 ہزار مسلمانوں نے ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کرکے اعلانِ بغاوت کر دیا اور اسی علم بغاوت کی روشنی میں منگ پلندری نیلہ بٹ، ہڈی باڑی باغ میں مقامی مسلمانوں نے ڈوگروں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا عزم کیا اور بالآخر 29 اگست 1947ء کو دوتھان کے مقام پر ڈوگرہ فوج کے قافلے پر حملہ کرکے مسلح جدوجہد کا راستہ کھول دیا۔

Minar e Kashmir Meeting

Minar e Kashmir Meeting

سیاسی ٹیکری کی تاریخی اہمیت کو فی زمانہ تاریخ دانوں نے خاص اہمیت دی ہے ، مگر ” آزاد کشمیر “کی مفاداتی اور مسبقاتی سیاست میں تاریخ کے ساتھ بھی بے رحمانہ کھیل کھیلا ہے ، جس کے باعث گذشتہ کچھ عرصہ سے ے ہ بات انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ اس ٹیکری اور یہاں پر ہونے والی سرگرمیوں کو موجودہ دور کے تناظرمیں نئی نسل کے لئے ایک سبق آموز صورت دی جائے جس پر وہ بجا طور پر فخر محسوس کر سکیں۔ اس حوالے سے حکومتوں کے کردار پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیس کیمپ میں قائم ہونے والی مختلف حکومتوں کے حوالے سے کردارصفر ہے ۔ بلکہ آج جو مختلف علاقوں میں یادگاریں اور مقابر ہیں ،تاریخ کی یاد دلا رہے ہیں ۔اس میں مرحوم سردار شریف خان قادری کی مساعی جمیلہ شامل ہے ، جنہوں نے نامساعد حالات میں”تحریک یادگار شہداء بنیاد رکھی اور اب اسی کام کا بیڑا راولاکوٹ شہر کے ایک معروف سیاسی کارکن سردار عبدالخالق خان ایڈووکیٹ نے اپنے چند دوستو ں کے ساتھ مل کر اُٹھایا ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کے سرفروشوں اور غازیوں اور نئی نسل کی ضرورتوں پر لبیک کہتے ہوئے نامساعد حالات میں میموریل کانفرنس آغاز جہا د1947ء شہدا،پونچھ تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ تنظیم نے مخیرحضرات کے تعاون سے 2 کنال 4 مرلے زمین خرید کر سابقہ سیاسی ٹیکری پر 5 کروڑ روپے کے تخمینہ سے یادگار شہداء کمپلیکس کا کام شروع کر دیا ہے ، جسکا سنگ بنیاد 15 اگست 2005 ئکو اُسوقت کے صدر آزادکشمیر سردار محمد انورخان نے رکھا۔ یادگار شہداء کمپلیکس میں ایک لائبریری، تاریخی میوزیم مینارکشمیر اور پارک کی تعمیر کا منصوبہ شامل ہے۔

راقم نے کچھ دن پہلے سردار عبدالخالق خان ایڈووکیٹ کے ساتھ تعمیراتی جگہ (مینار کشمیر) کا دورہ کیا تعمیراتی کام مالی مشکلات کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے ۔پہلے مرحلہ میں لائبیرری کا کام مکمل ہو چکا ہے اور مختلف کتب بھی رکھی گئی ہیں میں راولاکوٹ اور کشمیر کے ہر اضلاع کے طالب علموں اور سکول کالجز سے درخواست کرتا ہوں وہ اس عظیم الشان لائبیرری کا دورہ کریں اور کتب کی فراہمی میں بھی مدد کریں ۔لائبیری میں کمپیوٹر سنٹر بھی موجود ہے جہاں پر مفت میں لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے۔

Minar e Kashmir

Minar e Kashmir

مینارِکشمیر کی تعمیر کے ساتھ جہاں جانبازوں اور غازیوں نے منتظمین کے لئے تحسین و خوشی کا اظہار کیا ہے ، وہاں عظیم شہداء کی روحوں کو بھی سامان تسکین میسر آیا ہو گا کہ کوئی تو ہے جو ہمارے خون کی قدرومنزلت جانتا ہے ۔یادگاری میوزیم اور مینار کی تعمیر کے حوالے سے لوگوں کواس امر ضرورت کی ہے کہ خواہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو وہ تاریخ کے سنہرے ابواب محفوظ کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرے اور موجودہ حکومت کا ے ہ فرض بنتا ہے کہ جہاں وہ ریاست گیر اور تحریک آزادی کی علمبردار پارٹی ہونے کی دعویدار ہے ، اُسکے قائدین کو سیاسی ٹیکری کی مسلمہ اور غیرمتنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومتی سرپرستی میں یادگار شہداء کمپلیکس کی تعمیر کا اہتمام کرنا چاہے ۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مقامی لوگوں کو مینار کشمیر کے بارے میںاور اسکی اہمیت کا پتہ تک نہیں ہے کیوں کہ نوجوان نسل و حکومت وقت کی عدم دلچسپی جیسے عناصرشامل ہیں۔لوگوں تک اس منصوبہ کے بارے میں معلومات پہنچانے اور انکے تعاون کے لیئے جنرل سیکرٹری سردار عبدالخالق ایڈووکیٹ اور راقم کے کوششوں سے مورخہ 24ستمبر 2016 کو مینار کشمیر کی آفیشل سائٹ اور فیس بک پیج کا افتتاح کمشنر پونچھ ظفر محمود خان اور اعجاز افضل نے کیا۔ویب سائٹ کی افتتاحی تقریب زیر تعمیر مینار کشمیر کی لا ئبیرری میں منعقد کی گئی جس میں سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔

تحریر : افراز احمد اعوان