بھارت کی نفسیاتی شکست کشمیریوں کی نفسیاتی فتح ہے

Kashmir Issue

Kashmir Issue

تحریر : صبا نعیم
پاکستان کی پیشکش پر بھارت کی صرف دہشتگردی کے ایشو پر مذاکرات پر آمادگی اور کشمیر کو اٹوٹ حصہ قرار دینے کی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔بھارت نے پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش مشروط طور پر قبول کرتے ہوئے جوابی پیغام بھجوایا ہے کہ ہم اپنے ایجنڈے پر مذاکرات کرینگے جس میں سب سے بڑا مسئلہ شدت پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کا ہے۔ ہمارے ایجنڈے میں کشمیر شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ دو روز قبل سیکرٹری خارجہ پاکستان اعزاز چودھری نے بھارتی سفیر گوتم بمبانوالہ کے ذریعے اپنے ہم منصب بھارتی سیکرٹری خارجہ کو مراسلہ بھجوایا تھا جس میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی اور کہا گیا کہ ہم مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کا باہمی مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے ہیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اسکے جواب میں کہا ہے کہ وہ اسلام آباد جانے کیلئے تیار ہیں مگر یہ مذاکرات کشمیر پر نہیں بلکہ دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی پر ہونگے جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال کو پاکستان کی طرف سے عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششوں کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ کشمیر کی صورتحال بھارت کا داخلی معاملہ ہے جسے پاکستان اچھالنے سے گریز کرے۔ بھارتی جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا سرحد پار دراندازی سے گہرا تعلق ہے اس لئے کسی دوسرے موضوع سے پہلے اس مسئلہ پر بات کرنا ازحد ضروری ہے۔

کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اور پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگا کر کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات کو سبوتاڑ کرنا بھارت کا پرانا وطیرہ ہے جس سے یہ حقییقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے بذریعہ مذاکرات حل پر کبھی آمادہ نہیں ہوگا۔ اگر اب مودی سرکار پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی ترنگا لہرانے کی بدنیتی رکھتی ہے جس کا دعویٰ پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر خود نریندر مودی نے کیا ہے تو اسکی جانب سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی قسم کی پیشرفت کی توقع رکھنا بھی بے کار ایکسرسائز ہے۔ اس تلخ حقیقت کی روشنی میں سیکرٹری خارجہ پاکستان کی جانب سے اپنے ہم منصب بھارتی سیکرٹری خارجہ کو مراسلہ لکھ کر مذاکرات کی پیشکش کرنے کا بادی النظر میں کوئی جواز نہیں کیونکہ اس پر بھارت کی جانب سے وہی جواب متوقع تھا جو بھارتی میڈیا کے ذریعے ہمیں موصول ہوا ہے تاہم ہماری جانب سے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش اور اس پر سامنے آنیوالے بھارتی ردعمل سے اتنا ضرور ہوگا کہ اب اس خطہ میں قیام امن کی راہیں مسدود کرنیوالا بھارتی چہرہ اقوام عالم میں مزید بے نقاب ہو جائیگا اور عالمی قیادتوں کو مکمل ادراک ہو جائیگا کہ دیرینہ دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہ بیٹھنے والا بھارت ہی فساد کی اصل جڑ ہے جبکہ مودی سرکار اپنی ہندو انتہائ پسندانہ سوچ اور جنونی عزائم کے باعث بھارت کا سیکولر چہرہ بھی بگاڑ چکی ہے اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کررہی ہے۔ اگر تو دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے موجودہ حالات میں بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے روبرو بے نقاب کرنے کی حکمت عملی کے تحت اسے مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے جس کا بھارت کی جانب سے متوقع ردعمل بھی سامنے آگیا ہے تو پاکستان کی یہ بہتر حکمت عملی ہے ورنہ تو لاتوں کے بھوت کو باتوں سے نہیں منوایا جاتا’ وہ اسی سلوک کا مستحق ہوتا ہے جس کی اسے ضرورت ہو۔

Kashmiri People

Kashmiri People

مودی سرکار شاید پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کا کریڈٹ لینے کی جلدی میں ہے اس لئے اس نے سرحدی کشیدگی بھی بڑھا رکھی ہے’ بھارت کی مسلم اقلیتوں کا بھی جینا دوبھر کر رکھا ہے اور کشمیری عوام پر ریاستی ظلم و تشدد کی رہی سہی کسر بھی نکالی جا رہی ہے۔ اس کا واحد مقصد کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی آواز دبا اور پاکستان کے کشمیر کاز کو کمزور کرنا ہے مگر جلد بازی میں اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرکے مودی سرکار ہندو انتہائ پسندی پر مبنی بھارت کا اصل چہرہ ہی دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں بھارت کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کے اپنے مظالم کا جواز مقبوضہ وادی کو اپنا اٹوٹ حصہ قرار دے کر نہیں نکال سکتا کیونکہ کشمیری نوجوانوں پر مشتمل کشمیری مجاہدین کی تیسری نسل نے نہتے ہونے کے باوجود کرفیو سمیت بھارتی مظالم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ظالم بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہو کر اور شہادتوں کی نئی داستانیں رقم کرکے کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو باطل ثابت کردیا ہے اور آج انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کی جانب سے ان کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ہی یکجہتی کا اظہار کیا جارہا ہے جس کی بنیاد پر آج مودی سرکار سخت عالمی دبائو میں ہے اور آئندہ ماہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اسے کشمیری عوام پر اپنے مظالم کیخلاف دنیا کے اس نمائندہ فورم کے روبرو جواب دہ ہونا پڑیگا۔

کشمیری نوجوانوں پر ڈھائے جانیوالے بھارتی مظالم کے باعث ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں اپنے دفاتر احتجاجاً بند کردیئے ہیں کیونکہ بھارتی فوجوں کی جانب سے جاری مظالم کے علاوہ بارہ مولہ میں حکمران بی جے پی کے انتہاء پسند اور متشدد کارکنوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے والے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے قافلے پر بھی حملہ کر دیا اور اس کیخلاف غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے نعرہ بازی کی۔ ایمنسٹی کے ترجمان کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کرنیوالوں کو روکا جارہا ہے۔ کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو تو کشمیری عوام کے علاوہ بھارتی عوام نے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیمینار کے موقع پر کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگا کر بے نقاب کیا ہے جبکہ مودی سرکار اس کا غصہ پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگا کر نکالتی ہے۔

Narendra Modi

Narendra Modi

یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت نے پہلے شملہ کانفرنس میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ معاہدہ کرکے دیرینہ دوطرفہ تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کا چکمہ دیا جس کا مقصد کشمیر ایشو پر یواین قراردادوں کو غیرموثر کرنا تھا جبکہ اس معاہدے کے بعد بھارت نے آج تک کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات کے بارآور ہونے کی نوبت ہی نہیں آنے دی اور کشمیر کا ذکر ہوتے ہی وہ پاکستان پر دراندازی کے الزامات تھوپ کر ان مذاکرات کو سبوتاڑ کرتا رہا ہے۔

دو سال قبل جب تھمپو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے ہم منصب وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ون آن ون میٹنگ میں کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا اعلان کیا تو مودی نے روس کے شہر اوفا میں دو سال قبل منعقدہ شنگھائی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف سے ون آن ون ملاقات میں انکے ساتھ یہ معاہدہ کرلیا کہ دوطرفہ مذاکرات کا ایجنڈا صرف دہشت گردی سے نمٹنے کے مشترکہ اقدامات طے کرنے پر مبنی ہوگا۔ اب مودی سرکار اس معاہدے کو ہی ہر موقع پر بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے اور اس معاہدہ کا حوالہ دے کر باور کردیا جاتا ہے کہ کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات میں کشمیر کا کبھی تذکرہ نہیں ہوگا اور صرف دہشت گردی اور دراندازی پر بات ہوگی جس میں مودی سرکار کے بقول صرف پاکستان ملوث ہے جبکہ اصل یہی حقیقت ہے کہ کراچی اور بلوچستان سمیت پاکستان میں کم و بیش ہر دہشت گردی کی واردات میں بھارتی ایجنسی ”را” کا ہاتھ ہوتا ہے جس کے ٹھوس ثبوت اور شواہد پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ اور امریکہ کو پیش بھی کئے جاچکے ہیں۔

Balochistan

Balochistan

مودی نے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کو ہلہ شیری دے کر بھی پاکستان میں انتشار اور بدامنی پیدا کئے رکھنے کے بھارتی عزائم مزید بے نقاب کئے ہیں جس پر خود بھارت کے اندر ان کیخلاف سخت احتجاج ہو رہا ہے اس لئے یہ کہنا بے محل نہیں ہوگا کہ مودی سرکار جلد بازی میں پاکستان کیخلاف اپنا کیس خود ہی کمزور کررہی ہے جبکہ ہمارے پاس بھارت کو عالمی دبائو میں لا کر اسے یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کرنے کا آج نادر موقع ہے۔ اگر بھارت پر پڑنے والے عالمی دبائو کا ٹمپو برقرار رہا تو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے انعقاد تک کشمیریوں کی حق خودارادیت کی منزل اور بھی قریب آجائیگی جس کیلئے پاکستان کی بھارت کو مذاکرات کی پیشکش والی حکمت عملی بھی کارگر ثابت ہوئی ہے۔ آج کی صورتحال بلاشبہ کشمیریوں کی نفسیاتی فتح اور بھارت کی نفسیاتی شکست سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔

تحریر : صبا نعیم