مقبوضہ بیت المقدس پر عالمی جنگ میں فتح مسلمانوں کی ہوگی

Jerusalem

Jerusalem

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
امریکا نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے تقربناً 8سو سال بعد پھر عالمی جنگ کا آغاز کر دیا ہے جس کے بارے میں مختلف پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں جس میں سب بڑی پیش گوئی فروری 2018 ہے جس کے میں بتایا جارہا ہے کہ یہ مہینہ فروری 823 سال بعد آیا ہے آئند ہماری زندگی میں دوبارہ نہیں آئے گا کیونکہ یہ پھر 823سال بعد آئے کا یعنی2841ء آئیگا۔ یعنی(فروری) میں چار اتوار ، چا ر سو موار ، چا ر منگل ، چاربدھ ، چار جمعرات ، چا ر جمعہ اور چار ہفتوں پر مشتمل ہو گا۔ ہفتے کے سات دنو ں میں چار کی تعداد پر مشتمل ہے مو جو دہ صدی کے انسان پہلی مر تبہ منفرد فرروری کا تجر بہ کر ینگے ،7 دنو ں کے چار کے اعداد پر مشتمل فروری کے متعلق بہت سی روایا ت مشہو ر ہیں۔بابا وانگا کی پیشگوئی ہے کہ 2018ء میں چین دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن جائے گا۔اور بھی مختلف 2018ء میں پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔

اس حقیقت سے انکا ر نہیں کہ جس جنگ کا آغاز امریکی صدر ٹرمپ نے کیا ہے تاریخی گواہ کی جس عیسوی سال 2018آغاز چند دنوں بعد ہونے والا یہ امریکی صدر ٹرمپ کیلئے خود ایک پیغام لیکر آرہاہے کہ 823سال پہلیجنگ حطین 4 جولائی 1187ء کو عیسائی سلطنت یروشلم اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی افواج کی درمیان لڑی گئی۔ جس میں فتح کے بعد مسلمانوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے بیت المقدس کو عیسائی قبضے سے چھڑالیا۔ مصر میں فاطمی حکومت کے خاتمے کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ 4 سالہ معاہدہ صلح طے پایاجس کی رو سے دونوں کے دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی ثابت ہوا ۔
جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا کہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔

صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کئے جو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نے کئے تھے۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوا۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر عیسائی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کی۔ حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 88 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اس نے مسجد اقصٰی میں داخل ہوکر نور الدین زنگی کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح نور الدین زنگی کی خواہش اس کے ہاتھوں پوری ہوئی۔۔بیت المقدس پر فتح کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا۔

ماہرین ، مبصرین اور مختلف پیش گوئیاں سے معلوم ہوتاہے کہ امریکی حکام خود پریشان ہیں جس کی بناء پرنے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیکر عالمی جنگ شروع کرکے چین دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بنانے میں رکاوٹ بنانا چاہتاہے کیونکہ امریکی حکام اپنے مذہبی رہنماؤں پیشگوئیاں پر یقین رکھتے ہیں۔ تاریخی حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہمقبوضہ بیت المقدس پرعالمی جنگ میں فتح مسلمانوں کی ہی ہو گی۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ