انصاف کون دے گا؟ آخری قسط

Pakistan Judicial System

Pakistan Judicial System

تحریر : شیخ توصیف حسین
میں نے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ خداوندکریم ہر اُس شخص سے پیار کرتا ہے جو اُس کی مخلوق کی بہتری اور بھلائی کیلئے اقدامات کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر خداوند کریم اُس سے پیار کرتا ہے جو اُس کے پیارے محبوب حضور اکرم جن کے متعلق خداوندکریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی اگر آپ کو پیدا نہ کر تا تو کائنات میں کوئی چیز بھی پیدا نہ ہو تی اور جن کے نواسہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنے آ پکو بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو قربان کر کے باطل کو نیست و نا بود جبکہ حق کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ کر دیا تھا کے احکامات کی پیروی کرتا ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا صحابی رسول حضرت بلال جن کی زبان میں لکنت تھی جس کی وجہ سے آپ اذان درست طریقے سے نہیں دے پاتے تھے جس کے نتیجہ میں اہل علاقہ نے حضور پاک سے عرض کی کہ حضرت بلال اذان درست طریقے سے نہیں دے پاتے۔

لہذا انھیں اذان دینے سے منع کیا جائے جس پر حضور پاک نے حضرت بلال کو اذان دینے سے منع کر دیا آپ کا یہ حکم سن کر حضرت بلال اداس ہو گئے تاریخ گواہ ہے کہ جب تک صحابی رسول حضرت بلال نے نماز فجر کی اذان نہیں دی سحر نہ ہوئی سبحان اللہ سبحان اللہ کہ یہ ہے آپ کے پیروکاروں کی عظمت کا عالم کہ جہنیں اداس دیکھ کر خداوند کریم اپنے نظام کو بدل دیتا ہے افسوس صد افسوس کہ آج وطن عزیز جسے اسلام کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے میں لا تعداد اعلی افسران خداوندکریم اور آپ کے پیارے محبوب حضور اکرم کے احکامات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف دولت کے پجاری بن کر غریب مظلوم افراد پر ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر کے مذہب اسلام اور بالخصوص انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں جہنیں مسلمان کہنا بھی مسلمان لفظ کی توہین ہے۔

یہ شکریہ ادا کریں خداوندکریم کے پیارے محبوب حضور پاک کا کہ جہنوں نے جب بھی خداوندکریم سے کچھ مانگا صرف اور صرف اپنی امت کیلئے ہی مانگا نہ کہ اپنی آل کیلئے یہ تو بس آپ کی دعائوں کا اثر ہےورنہ یہ ناسور سابقہ انبیائے کرام کی امتیوں کی طرح سُور ریچھ اور نجانے کن کن منحوس شکلوں کے چہروں میں ہوتے افسوس کہ آج وطن عزیز کے ارباب و بااختیار نجانے کس مصلحت کے تحت ان ناسوروں کے اس گھنائونے اقدامات کو دیکھ کر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں آج وطن عزیز کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہے یا پھر وفاقی ان ناسوروں کی آجگاہ بن کر رہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں آج وطن عزیز بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے۔

Pakistani Poor Children

Pakistani Poor Children

جبکہ اس ملک کا بچہ بچہ غیر مسلم ملکوں کا مقروض بن کر بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر رہ گیا ہے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں آج وطن عزیز جس کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے لاتعداد قربانیاں دیں تھیں کے ارباب و بااختیار علمائے دین تاجروں میڈیا کے نمائندوں ڈاکٹروں طلباء طالبات اساتذہ و دیگر عام شہری سے پوچھتا ہوں کہ کیا واقعہ ہی ہم آ زاد قوم ہیں یا پھر غلام اور اگر ہم واقعہ ہی آ زاد قوم اور مسلمان ہیں تو پھر چور کے ہاتھ کیوں نہیں کاٹے جاتے ناحق خون بہانے والے کو سرعام سنگسار کیوں نہیں کیا جاتامنشیات فروش جو نوجوان نسل کو تباہ و بر باد کر کے ان کے بوڑھے غریب والدین جو خون کے آ نسو روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کو بند سلاسل کیوں نہیں کیا جاتا۔

قصہ مختصر کہ آج وطن عزیز میں لا قانونیت کا ننگا رقص کرنے والے افراد خواہ وہ صدر ہو یا پھر وزیر ڈاکٹر ہو یا پھر سر جن ڈاکٹر اعلی افسر ہو یا پھر کلرک تاجر ہو یا پھر دو کاندار عالم دین ہو یا پھر مولوی وغیرہ وغیرہ آ زاد کیوں گھوم رہے ہیں کیا آپ خداوندکریم کا وہ ارشاد بھول گئے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میں حقوق اللہ میں کو تاہی برتنے والے کو تو معاف کر دوں گا لیکن حقوق العباد میں کو تاہی برتنے والے کو کبھی معاف نہیں کروں گا اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ حرام خور راشی افسران حرام کی کمائی کی پو جا جبکہ حلال کی کمائی کو اس قدر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کو جس کے نتیجہ میں آج وطن عزیز میں عدل و انصاف اور قانون کا قتل عام ہو رہا ہے۔

ہم سب ان ناسوروں کے اس گھنائو نے اقدام کو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں ایسا کیوں موت بر حق ہے ہر ایک کو آ نی ہے کیا منہ دکھائو گئے خداوندکریم اور اُس کے پیارے محبوب حضور اکرم اور بالخصوص نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام جنہوں نے مذہب اسلام کو زندہ رکھنے کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا وطن عزیز کے ارباب و بااختیار اب بھی وقت ہے کہ ان راشی اعلی افسران جو ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں کا محاسبہ کر کے حضرت حُر کی موت مر کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے آپ کو زندہ کر جائو چونکہ یہی آپ کا فرض ہے اور یہی آپ کی عبادت تو آج میں یہاں ایکسائز اینڈ ٹیکشیشن آ فیسر جھنگ نعیم خان جو اپنے ماتحت عملہ بالخصوص موٹر برانچ کے عملہ اسلم نول وغیرہ کے ہمراہ لوٹ مار کی ایک چھوٹی سی مثال وطن عزیز کے ارباب و بااختیار کی نظر کر رہا ہوں۔

Tax

Tax

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن جھنگ کی موٹر برانچ کا عملہ اسلم نول وغیرہ جو کہ عرصہ تقر یبا سات سالوں سے تعنیات ہے نہ صرف از خود بلکہ اپنے ٹائوٹ مافیا جہنوں نے لاکھوں روپے ایڈوانس اور ہزاروں روپے ماہانہ کرائے پر دوکانیں حاصل کر کے اپنے اڈے قائم کر کے غریب سائلوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اگر مذکورہ عملہ کے اس گھنائونے اقدام کی شکایت اگر کوئی سائل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آ فیسر جھنگ نعیم خان جو ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب سائلوں کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہے کو کرے تو مذکورہ آ فیسر اس سائل کو اس انداز میں دیکھتے ہیں کہ اس نے کوئی بہت بڑا کوئی جرم کر لیا ہو۔

بعد ازاں مذکورہ آ فیسر اُس سائل کو اس انداز میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ عملہ تو آئے روز آب زم زم سے نہا کر یہاں آ تا ہے یہ انسان کے روپ میں فرشتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ کی خدمت کرتے ہیں اس کے باوجود آپ ان کی شکا یت کرنے میرے پاس چلے آئے ہیں یہ تو سراسر آپ کی زیادتی ہے مذکورہ آ فیسر جس کا منہ مو مناں اور کرتوت کافراں جیسے ہیں کا جواب سن کر غریب سائل منہ لٹکائے دوبارہ مذکورہ عملہ کو منہ مانگے نذرانہ دیکر اپنا جائز کام کروا لیتا ہے۔

آج میں یہاں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آ فیسر جھنگ نعیم خان سے بس یہی پو چھتا ہوں کہ آپ کے دفتر ہذا کے مد مقابل جو ٹائوٹ مافیا نے لاکھوں روپے ایڈوانس اور تقریبا ساٹھ ہزار روپے ماہانہ کرایہ دوکانات ادا کرتے ہیں آپ کیا اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں یا پھر غریب سائلوں کو لوٹ کر ادا کیا جاتا ہے۔
اے اللہ میری توقیر کو ہمیشہ سلامت رکھنا
میں فرش کے سارے خدائوں سے اُلجھ بیٹھا ہوں

Sheikh Touseef Hussain

Sheikh Touseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین