بے خوف ہو کر بولیے، کرسی جانے کا ڈر دل سے نکالیے

Supreme Court of India

Supreme Court of India

تحریر : محمد آصف اقبال
عدل و انصاف کی کمزور ہوتی صورتحال پر گزشتہ چند ماہ سے میڈیا میں بحثیں جاری تھیں۔اس کے باوجود چونکہ اس موضوع پر گفتگو کرنے والے دوخانوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک برسراقتدار حکومت سے تعلق رکھنے والے تو دوسرے وہ جو ظلم و زیادتیوں کا شکار ہوئے ہیں اور حکومت کے رویہ سے ناراض ہیں۔لہذا عدل و انصاف کے تقاضوں کو بھی انہیں دو گروہ کی آپس رنجش یا دوری کی شکل میں دیکھا اور دکھایا جا رہا تھا۔لیکن جس طرح ہندوستان میں بہت سے کام برسراقتدار حکومت کے دعویٰ کے مطابق پہلی مرتبہ ہوئے ہیں۔ٹھیک اسی طرح ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں ہوتے ہوئے سنگین چیلجز اور بحران کا سامنے آیا ہے۔اس معاملہ میں یہ صحیح ہے کہ حکومت ہند نے مداخلت نہیں کی اور نہ ہی اب تک ایسا کوئی اشارہ مل رہا ہے جس میں اس کی جانب سے مداخلت کی بات سامنے آئی ہو۔لیکن عدلیہ کے چار سینئر جج صاحبان نے جس طرح چیف جسٹس آف انڈیا کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے وہ ہندوستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔سپریم کورٹ آف انڈیا کے معزز ججوں نے ہنگامی پریس کانفرس میں عدالت عظمیٰ کی انتظامی خامیوں سے قوم کو واقف کیا ہے۔چیف جسٹس دیپک مشرا کے طرز عمل اور طریقہ پر انگلی اٹھائی ہے۔جسٹس لویا کی موت کا معاملہ بھی پریس کانفرنس میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں بہت کچھ ایسا ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔اس لیے ہمیں لگا کہ ہماری ملک کے تئیں جوابدہی ہے اور ہم چیف جسٹس کو منانے کی کوشش بھی کرتے رہے لیکن ہماری کوششیں ناکام ہوئیں۔اور اگر اس ادارہ کو نہیں بچایا گیا تو جمہوریت ختم ہو جائے گی۔لہذا ہم نہیں چاہتے کہ بیس سال بعد کوئی یہ کہے کہ ہم نے اپنی ‘آتما’بیچ دی تھی۔

اس پورے معاملہ پر سیاست دانوں کے علاوہ وکلا اور قانونی ماہرین نیز سابق ججوں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے کہا ہے کہ ہم پریس کانفرنس کرنے والے ججوں کی نکتہ چینی نہیں کر سکتے۔چاروں ججوں کا اپنے اپنے شعبہ میں کافی اہم کردار ہے،ہمیں ہر حال میں ان کا احترام کرنا چاہیے۔ریٹائرڈ جج مکل مدگل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے پریس کانفرنس کرنے کے سواکوئی راستہ نہیں تھا تو کچھ سنگین معاملہ ضرور رہا ہوگا۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کے ٹی ایس تلسی نے کہا کہ ججوں کے اس قدم سے عدلیہ میں تبدیلی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا معاملہ لوگوں کے اعتماد سے وابستہ ہے اور جو کچھ ہوا ہے وہ افسوس ناک ہے۔سینئر وکیل اندراجے سنگھ نے کہا کہ ملک کے عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اندر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے آگیا ہے۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سپریم کورٹ کے چار ججوں کے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ عدالتی نظام میں مرکزی حکومت کے مداخلت کی وجہ سے عدالتی جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

سپریم کورٹ آف انڈیا کے چار سینئر جج صاحبان کی پریس کانفرنس میں جسٹس بی ایچ لویا کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔یہ معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب سپریم کورٹ آف انڈیا نے 2005کے سہراب الدین شیخ تصادم معاملے کے مقدمے کی سماعت کرنے والے (ٹرائل) جج بی ایچ لویا کی مشتبہ حالت میں موت ہوئی تھی۔سہراب الدین شیخ اور اس کی اہلیہ کوثر بی کی مبینہ تصادم میں ہلاکت سے متعلق معاملہ کو 2012میں سپریم کورٹ کے حکم پر مہاراشٹر منتقل کیا گیا تھا۔ مسٹر لویا اس معاملے کی سماعت کررہے تھے لیکن نومبر 2014میں ان کی مشتبہ حالت میں موت ہو گئی۔جس پر مختلف لوگوں نے شک کا اظہار کیا تھا۔اور اس بات کے بھی الزامات لگے تھے کہ لویا کی موت معاملہ کو دبائے جانے کی جانب اشارہ ہے ۔وہیں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے 470اراکین نے چیف جسٹس کو خط لکھ کے سہراب الدین معاملے کی نچلی عدالت میں سماعت کرنے والے سابق جج بی ایچ لویا کی موت کی جانچ کی مانگ کی تھی۔یہ خط سپریم کورٹ کے ججوں اور بمبئی ہائی کورٹ کے کارگذار چیف جسٹس کو بھی بھیجے گئے تھے۔وہیں مہاراشٹر کے صحافی بندھوراج سنبھاجی لونے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ وہ آنجہانی جج کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھنا چاہتی ہے۔لیکن اس تعلق سے ہونے والی آزادانہ جانچ کے متعلق عرضی کی سماعت کو اب پندرہ جنوری تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

اسی موقع پر اگر اینٹی ٹیررازم سکواڈ کے چیف ہیمنت کرکرے کی موت بھی یاد کر لیا جائے تو مناسب رہے گا۔کیونکہ کرکرے نہ صرف ایک عظیم افسر تھے بلکہ سچائی اور دیانت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔کرکرے کی موت پر گرچہ گزشتہ یو پی اے حکومت نے لوک سبھا میں یہ صفائی دی تھی کہ کرکرے کی موت سازش نہیں تھی۔اس کے باوجود اُس وقت کی برسراقتدار یو پی اے حکومت کے وزیر برائے اقلیتی امور عبدالرحمن انتولے نے صحافیوں سے کہا تھا کہ انہیں ہیمنت کرکرے کی موت پر شبہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کرکرے دہشت گردی کا شکار ہوئے یا پھر دہشت گردی اور اس کے علاوہ کچھ اور، وہ نہیں جانتے لیکن ان کی موت کی تحقیقات ہونی چاہیں۔انتولے نے کہا تھا کہ کرکرے مالیگاؤں دھماکے کی تفتیش کر رہے تھے اور انہوں نے اپنی تحقیقات میں ثابت کیا تھا کہ یہ دھماکے غیرمسلموں نے کیے تھے۔انتولے نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ کرکرے جیسا افسر تاج ہوٹل، اوبیرائے ہوٹل یا ناریمان ہاؤس جانے کے بجائے کاما ہسپتال کی گلی میں کیوں گیا؟ انتولے نے یہ بھی سوال اٹھایا تھا کہ ایک ہی گاڑی میں تین اعلیٰ پولیس افسران کیوں گئے جبکہ یہ پروٹوکول کے خلاف ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ آخر انہیں وہاں جانے کی اجازت کس نے دی تھی؟لیکن اس وقت کی حزب اختلاف این ڈی اے نے انتولے کے بیان کے فورا ًبعد ہی پارلیمنٹ میں ہنگامہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتولے نے ایک اعلیٰ افسر کی شہادت پر انگلی اٹھائی ہے اس لیے وہ معافی مانگیں لیکن انتولے اپنے بیان پر اڑے رہے تھے۔اس کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا تھا کہ انتولے کا بیان ایک قومی شرمندگی کا باعث ہے اور ہیمنت کرکرے کی موت کی از ثرنو تفتیش کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہیمنت کرکرے شدت پسندوں کی گولی کا نشانہ بنے تھے۔ان مشتبہ اموات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اس طرح کی اموات کا ایک بڑا ریکارڈ موجود ہے ۔لہذا اگر کوئی اِن اموات پر سوال اٹھائے تو اُس کا ٹھنڈے پیٹوں جواب دینا چاہیے نا یہ کہ سوال کرنے والے ہی کو کہٹرے میں کھڑا کر دیا جائے،نہ مناسب رویہ نہیں ہے۔آخر میں بی جے پی کے سینئر لیڈر یشونت سنہا کے اس بیان کو بھی دیکھتے چلئے جس میں انہوں نے چیف جسٹس کے خلاف چار سینئر ججوں کی شکایت کی حمایت کی اور کہا کہ بی جے پی کے وزراء کو بھی بولنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ججوں کی طرح مودی حکومت کے وزراء کو بھی جمہوریت کے لیے خوف سے باہر ہوکر بولنا چاہیے ،کرسی جانے کا ڈر دل سے نکال دینا چاہیے۔سنہا نے چار ججوں کے بنایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات 1975-77کی ایمرجنسی نافذ ہونے جیسے ہوگئے ہیں،پارلیمنٹ کے سیشن کی مدت کم کی جا رہی ہے یہ تشویشناک ہے،اگر پارلیمنٹ کے کام کام سے سمجھوتا کیا جا رہا ہے،سپریم کورٹ کا کام صحیح سے نہیں چل رہا ہے تو یقینا جمہوریت خطرے میں ہے۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال

maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com