کراچی کی راجدھانی کا ہما کس کے سر بیٹھے گا

MQM

MQM

تحریر : قادر خان یوسف زئی
ایک ہفتہ کے اندر ہی کراچی کی سیاست میں تلاطم کے بعد بالاآخر ایم کیو ایم پاکستان بھی دو حصوں میں واضح منقسم ہوگئی۔ ایم کیو ایم پاکستان کی تقسیم کا سلسلہ تو 1992ء میں شروع ہوگیا تھا جب کراچی آپریشن میں آفاق احمد اور عامر خان نے ایم کیو ایم کے بانی سے علیحدگی اختیار کرکے جداگانہ گروپ بنا لیا تھا۔ لیکن یہ علیحدگی سیاسی ثابت نہیں ہوسکی تھی اور کراچی میں مخالفین کی قتل وغارت کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو 22اگست2017تک جاری رہا۔ ایم کیو ایم پاکستان نے جب اپنے بانی کو مائنس کیا تو اس عمل پرشدید ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا کیونکہ بانی ایم کیو ایم نے پاکستان مخالف تقریر میں جذبات کی انتہائی حدود کو چھو لیا تھا، گو کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا لیکن اس بارریاست کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا تو دوسری جانب عوام نے بھی اس عمل کو پسند نہیں کیا۔پاک سر زمین پارٹی نے بانی ایم کیو ایم کی مخالفت میں کراچی و حیدرآباد کے سیاسی افق میں متحدہ کے تنظیمی اسٹرکچر کو نقصان پہنچایا۔ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں ایم کیوا یم کی تمام سیاسی بلند قامت قد کا دارومدار تنظیمی نظم و ضبط کی وجہ سے اس قدر منظم رہا ہے کہ اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی عسکری طاقت کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نابود کردیا، تو دوسری جانب پاک سرز مین پارٹی نے عوام میں ایم کیو ایم کی متشدد پالیسی کے خلاف ڈر و خوف ختم کرنے کیلئے بے خوفی سے نو گو ایریاز کے دورے کئے اور کارنر میٹنگز جلسے جلوس کی شکل میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔

ایم کیو ایم کے اہم عہدے داران، ذمے داران اور کارکنان کی بڑی تعداد پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہوتی چلی گئی۔پی ایس پی کے انیس قائم خانی، مصطفی کمال، ڈاکٹر صغیر احمد، وسیم آفتاب اور رضا ہارون نے منظم ہوکر نئے سیاسی میدان میں قدم رکھنا شروع کیا اور دنیا نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف جس قسم کا رویہ اختیار کیا گیا اور کھلے عام تنقید کی گئی اس نے پی ایس پی کے رہنماؤں کی جرات کو مزید بڑھایا، یہاں تک کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی طویل المعیاد گورنر شپ سے محروم ہونا پڑا اور یہ ایم کیو ایم کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔اگر یوں کہا جائے کہ پاک سر زمین پارٹی نے ایم کیو ایم پاکستان میں بھی جرات پیدا کی تو غلط نہ ہوگا۔ ایم کیو ایم میں موجود اختلافات کوئی نئے نہیں ہیں۔ لیکن میڈیا کو اپنی طاقت بنانے والوں کو میڈیا ہی کی وجہ سے اندرونی تنازعات سنبھالنے میں دشواری کا سامنا ہے اور 11فروری کو واضح طور پر رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو مائنس کردیا اور فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ ایم کیو ایم کے کارکنان اور سپورٹرز کے لئے موجودہ صورتحال کراچی آپریشن سے زیادہ تشویش ناک بن کر سامنے آچکی ہے۔ ماضی کی منظم جماعت سوکھے پتوں کی طرح بکھرنے پر مہاجر کیمونٹی کی اکثریت اب گومگوں کی کیفیت شکار نظر آتی ہے۔ عمومی طور پر پاک سر زمین پارٹی نے کراچی و حیدرآباد کے اُن کارکنان اور سپورٹرز کے لئے اپنا پلیٹ فارم فراہم کرنے کی سعی کی ہے جن کی سیاسی وابستگی ایم کیو ایم کے ساتھ چار عشروں سے جڑی ہوئی ہے اور وہ مہاجر سیاست سے دوسری جانب نہیں جانا چاہتے۔

سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر اختیارات کی جنگ نے اختلافات کی ہانڈی بیچ چوراہے ٹوٹ چکی ہے۔ ایم کیو ایم کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ شخصیت پرستی نے ان کے سپورٹرز کو متبادل قیادت بنانے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کے بانی قائد کو لا محدود ویٹو پاور اور اختیارات حاصل تھے کیونکہ بانی قائد کو سیاسی جماعت کا سربراہ سے زیادہ تحریک کا روح ِ رواں قرار دیتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا جاتا تھا کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ رابطہ کمیٹی، ایم کیو ایم کی سب سے با اثر و طاقت ور فورم رہی ہے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم بانی کے فیصلوں کی رسماََ ہی سہی، لیکن فیصلوں کی توثیق لندن و پاکستان کی رابطہ کمیٹی کیا کرتی تھی۔ رابطہ کمیٹی کی رکنیت کا حصول ایم کیوایم کے گنجلگ نظام کی وجہ سے مشکل ترین رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بہت بڑی سائز کی کمیٹی بنائی گئی۔ چونکہ ان پر اب اپنے بانی کے خوف کی تلوار نہیں تھی اس لئے مفادات و اختیارات کی جنگ نے واضح طور پر ایم کیو ایم پاکستان میں دارڑیں پیدا کردیں اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کو اپنا مقام دوبارہ بنانے کیلئے ازسر نو کوشش کرنا ہوگی اور اپنے سپورٹرز میں اعتماد بحال کرانے کیلئے پہلے اپنے اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔ ماضی کے مقابلے میں موجودہ صورتحال ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں گروپوں کے لئے مشکلات پیدا کرچکی ہے اور عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے کیلئے انہیں اب کافی وقت درکار ہوگا۔ پاکستان میں ویسے بھی بیشتر سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ شخصیت پرستی سے جڑا ہوا ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکنان و ووٹرز بھی شخصیت پرستی کی سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان میں قیادت کا فقدان نہیں پایا جاتا۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ایک طاہرانہ جائزہ لیں تو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ شخصیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ؎

ایم کیو ایم میں دیگر سیاسی جماعتوں کی بانسبت متبادل قیادت بنانے کا تصور کبھی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ لیکن ایم کیو ایم اس الزامات کی زد میں ضرور رہی کہ متبادل قیادت کی صورت میں جس شخصیت نے سر اٹھانے کی کوشش کی وہ پھر اس دنیا میں نہیں رہا۔ طارق عظیم سے لیکر ڈاکٹر عمران فاروق تک کئی مثالیں موجود ہیں کہ متبادل قیادت کے بارے میں سوچنا بھی ایم کیو ایم کے سپورٹرز کے لئے گناہ سمجھا جاتا تھا۔ جو مخالفین راہی عدم نہ ہوسکے انہیں برسہا برس جیلوں میں مختلف مقدمات کا سامنا رہا۔ جس کی مثال خود عامر خان کے علاوہ آفاق احمد ہیں انہیں میڈیا میں بھی اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں تھی۔ ایم کیو ایم کے مستقبل کو ادارک کرتے ہوئے بغاوت کا شعلہ اٹھا اور ایم کیو ایم کی تاریخ میں سب سے بڑٖی مخالف قوت کے صورت میں پاک سرز مین پارٹی نے ایم کیو ایم کے پَر کاٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔یہاں ایم کیو ایم کے حوالے سے بحث نہیں ہے کہ متشدد سیاست، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، چائنا و رشین کٹنگ، ماورائے عدالت قتل، قائد کا غدار موت کا حقدار سمیت عسکری ونگ اور بیرون ممالک میں ٹارگٹ کلرز کو کس نے کس طرح استعمال کیا۔ کیونکہ ایم کیو ایم کی پوری تاریخ قتل وغارت و متشدد سیاست سے لبریز ہے اس لئے پاک سر زمین پارٹی ایم کیو ایم گروپس میں ایک ایسی مخالف جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس کی منظر عام پر آنے کے بعد پہلی مرتبہ ایم کیو ایم مخالفین میں متشدد سیاست نہیں ہوئی۔

اس کا مکمل کریڈٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس نکتے پر پوری توجہ مرکوز رکھی کہ اختلافات چاہے جس نوعیت کے ہوں لیکن امن و امان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں پاک سر زمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان میں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ایک موقع ملا۔ لیکن یہاں ایک مرتبہ پھر مفادات کی جنگ نے خلیج پیدا ک ردی۔ اس بات پر بیشتر حلقوں نے اتفاق کیا ہے کہ اگر ایم کیو ایم بانی کی سیاست کو دفن کرنا ہے تو ایم کیو ایم کے نام کو ختم کرکے ایک نئے نام کے ساتھ ایک نئے مینڈیٹ کو لیکر میدان سیاست میں قدم رکھا جائے۔ کیونکہ جب تک ایم کیو ایم ہے اس پر اس کے بانی کی چھاپ لگے رہے گی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے انیس قائم خانی کا مشورہ نہیں مانا اور انہوں نے ایم کیو ایم کو ختم کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن سینیٹ انتخابات کے موقع پر جس طرح خود داکٹر فاروق ستار نے رویہ اختیار کیا اس کی وجہ سے عملی طور پر ایم کیو ایم خود ختم ہوچکی ہے۔ اب چاہے اس بات کو ایم کیو ایم پی آئی بی یا بہادر آباد مانے یا نہ مانے، لیکن جو دیوار انہوں نے ایک ہفتے کے دوران بنائی ہے اب ایسے گرا بھی دیا جائے تو ان کے سپورٹرز کا اعتماد بحال نہیں ہوسکتا انہیں اس بات کا ہمیشہ خدشہ ہی رہے گا کہ پھر کوئی نیا گروپ کسی بھی وقت اٹھ کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اس گروپ بندیوں میں متشدد فضا قائم نہ ہو۔ کیونکہ کراچی کو سونے کی چڑیا قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی پر قبضے کی جنگ میں کوئی ایسی سیاسی و مذہبی جماعت ایسی نہیں جو شہر قائد پر حاوی ہونا نہ چاہتی ہو۔ لیکن ان کے سامنے مضبوط دیوار کے طور پر ایم کیو ایم موجود رہی جس نے انہیں اپنے علاقوں سے سیاسی عمل سے اتنا دور کردیا کہ قومی سیاست کرنے والی جماعتیں بھی کراچی میں اپنے منشور سے برعکس لسانی سیاست کرتے نظر آتی ہیں۔لسانی سیاست پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک استعارہ،مہاجر کو اختیار کیا گیا تو اس وقت سے ہی اس بات پر تحفظات کیا جاتا رہا کہ ایم کیو ایم لسانیت کی سیاست کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ وقت نے آہستہ آہستہ ایم کیو ایم کے بانی کے عزائم کو بے نقاب کرنا شروع کیا لیکن اُن کی سیاسی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ اختلاف کے باوجود کسی کو چوں چرا کرنے جرات نہیں تھی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار پی آئی بی میں کی جانے والی ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اعتراف کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم میں ڈنڈے کی طاقت سے معاملات چلائے جاتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اب ثابت کیا جاسکے کہ ایم کیو ایم ڈنڈے کے بغیر بھی چلائے جا سکتی ہے۔ لیکن اندرونِ خانہ معاملات اس قدر گھمبیر ہوچکے تھے کہ دونوں جانب سے جذبات کے اظہار کیلئے آنکھیں پر نم بھی ہوئیں لیکن معاملات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ کسی بھی رہنما کے دل پگھل نہیں سکے۔فیصل سبزواری، عامر خان کے آنسوؤں نے ان گنت دلوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا کئے لیکن ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے 10 فروری کو رات گئے پریس کانفرنس میں جس طرح کا طرز تخاطب اختیار کیا اور لطائف کی آڑ میں ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کو تضیحک کا نشانہ بنایا گیا وہ ایک انتہائی افسوس ناک رویہ تھا۔ رابطہ کمیٹی کی بار بار ان کے گھر میں آمد کے بعد بھی ڈاکٹر فاروق ستار کا ٹھس سے مس نہ ہونا، غرور و تفاخر کا استعارہ سمجھا گیا۔ کسی بھی پارٹی سربراہ میں خوبی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے اپنے ارکان سے منواسکے۔ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں خود سیاسی جماعتوں میں نہیں پائی جاتی اس لئے قوت فیصلہ کی حامل قیادت اپنے فیصلوں کو صادر کردیتی ہیں جسے اراکین، ذمے داران، کارکنان اور سپورٹرز کو تسلیم کرکے اُن کا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کا مطالعہ کرلیں تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ پارٹی کی کابینہ میں اختیارات ہونے کے باوجود پارٹی قیادت کے فیصلوں کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم بھی ہمیشہ سے یہی کرتی رہی ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار لاکھ کہیں کہ وہ ایم کیو ایم بانی جیسے اختیارات نہیں چاہتے تھے، ان کی بات کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ کیونکہ ایم کیو ایم نے پارٹی ہیڈ آفس کے لئے بڑی مشکلوں سے بہادر آباد آفس حاصل کیا تھا۔ جب پارٹی سربراہ ہی اپنی پارٹی کے ہیڈ آفس نہ جائے اور اپنے گھر کو پارٹی آفس بنالے تو اس بات کی وضاحت کس طرح کی جا سکتی ہے کہ معاملات اختیارات کی جنگ نہیں تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو سبکی و شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اگر ڈاکٹر فاروق ستار و رابطہ کمیٹی کے اراکین اپنے تمام تنازعات و اختلافات پارٹی ہیڈ کوارٹر میں طے کرتے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے وہی رویہ اختیار کیا جو اس سے قبل ایم کیو ایم کے بانی اختیار کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی تدبر کے بجائے جذبات کو خود پر حاوی کرلیا۔ بہادرآباد آفس جا کر تمام معاملات کو طے کیا جاسکتا تھا لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے پیروں پر خود کہلاڑی ماری اور مشاورت کے عمل کو اپنے گھر تک محدود کردیا جس کی وجہ سے سیاسی حلقوں سمیت ایم کیو ایم سپورٹرز میں اچھا پیغام نہیں گیا۔

کراچی میں اس وقت عملی طور پر سیاسی خلا پیدا ہوچکا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے پاس متبادل قیادت کے طور مصطفی کمال اور تنظیمی معاملات پر مضبوط گرفت رکھنے والے انیس قائم خانی موجود ہیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، انیس قائم خانی کے متبادل کے طور پر ڈپٹی کنوینر بنے تھے اور انہوں نے ڈپٹی کنوینر بننے کے بعد تنظیمی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی اور مستقل یونٹ و سیکٹر آفس میں مختلف کمیٹیاں بھی بھیجیں تھیں اور تنظیمی سیٹ اپ کو اپنی منشا کے مطابق کے بنانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں یونٹ کی سطح پر ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ یونٹ و سیکٹر کے انچارج و ممبران ہی پوری ایم کیو ایم کی ریڑھ کی ہڈی کہلائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سیکٹر کی خواہش پر ہی بیشتر شخصیات رابطہ کمیٹی میں رکن بنتے تھے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز و وزراء کے پاس عہدہ تو ضرور ہوتا تھا لیکن سیکٹر کی مرضی کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ایم کیو ایم کے اہم سیٹ اپ کو تبدیل کرنے میں ڈاکٹر مقبول صدیقی کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ جب پاک سر زمین پارٹی عملی طور پر تنظیمی ڈھانچہ منظم کرنے لگی تو انتہائی مختصر وقت میں کامیاب ہو گئی۔ چونکہ یونٹ و سیکٹر آفس غیر اعلانیہ پابندی کی وجہ سے فعال نہیں رہے تھے اس لئے پاک سرز مین پارٹی کو فعال ہونے کا موقع ملا اور بغیر کسی مسلح تصادم کئے انہوں نے کراچی بھر میں اپنے بیرئیر آفس بنا لئے۔ انہیں ماضی کی طرح کسی مسلح مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تنظیمی طور پر پاک سرزمین پارٹی منظم ہوچکی ہے۔ لیکن عوام میں کامل اعتماد حاسل کرنے کیلئے انہیں اب بھی کئی مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ اس بات پر غور کیا جاتا رہا ہے کہ پاک سر زمین پارٹی کراچی کی انتخابی سیاست میں بڑا پ سیٹ بھی کرسکتی ہے،۔ چونکہ ماضی میں ایم کیو ایم کے حوالے سے کہا جاتا رہا تھا کہ جماعت اسلامی جیسی منظم ترین جماعت کو کراچی سے ہرانا خوش فہمی ہے۔ لیکن جس طرح بلدیاتی، صوبائی اور قومی انتخابات میں ایم کیو ایم نے کلین سوئپ کیا وہ مکمل طور پر سیاسی پنڈتوں کے تمام اندازے غلط ثابت کرچکا تھا، یہاں تک کہ ایسا وقت بھی آیا کہ جب کراچی آپریشن کی وجہ سے تمام رہنما روپوش و جلاوطن ہوچکے تھے، نچلی سطح پر ایم کیو ایم نے قیادت کا خلا پر کیا اور عام انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ لیکن ان سب محرکات میں صرف ایک شخصیت کارفرما رہی جس کے سحر میں ایم کیو ایم کے سپورٹرز و ووٹرز گرفتار رہے۔

اب بھی تمام تر اشتعال انگیز تقاریر کے باوجود کئی رہنما اور سپورٹرز میں ایم کیو ایم بانی کے لئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایم کیو ایم یا مخالفین کو ریاست کی ہمدردی حاصل کرنی ہو تو اس الزام کو با اتم دوہراتے ہیں کہ فلاں اب بھی لندن والوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، ر اقم نے رابطہ کمیٹی کے کئی رہنماؤں سے آف دی ریکارڈ اس حوالے سے بات کی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ ابھی کافی وقت لگے گا۔ آفس تو بند کئے جا سکتے ہیں لیکن اتنی جلدی دلوں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ پاک سر زمین پارٹی کا یہی وہ نکتہ ہے جس پر انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ ایم کیو ایم کے نام تبدیل کرکے کسی نئے نام و منشور کے ساتھ عوام کے درمیان جایا جائے تاکہ بانی ایم کیو ایم کا باب ختم ہوسکے۔ اور نوجوان نسل احساس محرومی کی فضا سے نکل کر اپنے پیروں پر خود کھڑی ہوسکے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اگر دیکھا جائے تو میڈیا میں بھی اس بات کا اقرار کیا جارہا ہے کہ بانی ایم کیو ایم جیسی قیادت کی اس وقت کراچی و حیدرآباد کے عوام کو ضرورت ہے۔ ان اختلافات کا فائدہ اٹھانے والوں کو سیاسی گدھ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس بات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ بانی ایم کیو ایم کو دوبارہ سامنے لایا جائے تاکہ ایم کیو ایم منتشر نہ ہوسکے اور چالیس برس کی ایم کیو ایم کی حکمرانی ریت کے ڈھیر کی طرح ڈھا نہ جائے۔ یہ تصور کراچی میں سیاسی آزادی کے لئے بڑا خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔ یہ ایک عمومی رائے بھی پنب رہی ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے تاکہ بانی ایم کیو ایم کی اہمیت کو اداروں کے سامنے رکھا جائے کہ اگر ایم کیو ایم میں اسی طرح گروپ بنتے رہے تو خدانخواستہ کراچی میں خانہ جنگی کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے جو آنے والے وقت میں پاکستان کی مجموعی صورتحال پر براہ راست اثر انداز ہوسکتی ہے۔

دیکھنا یہی ہے کہ بہادرآباد گروپ، پی آئی پی گروپ کے درمیان تنازعات کیا سینیٹ کے انتخابات تک ہی رہتے ہیں، طول پکڑیں گے یا کوئی نئی حکمت عملی ہے؟۔ یا پھر عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو کردار نہ دینے کیلئے کوئی مخفی معاملات طے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوچکا ہے کہ ایم کیو ایم دباؤ کے نام پر قومی اسمبلی کے انتخابات سے بائیکاٹ کرتی لیکن صوبائی انتخابات میں حصہ لے لیتی۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی پہلے بائیکاٹ کیا اور پھر دوسرے مرحلے میں بھرپور حصہ لیا۔ کراچی میں سیاست کا عجیب گنجلک نظام قائم ہے جس سے عام عوام سمجھ نہیں پاتی کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ خاص طور پر ایم کیو ایم کی سیاست عجیب منطق کا شکار رہی ہے۔ حکومت میں شمولیت تو کبھی غیر اہم ایشو پر حکومت سے علیحدگی جیسے معاملات نے ایم کیو ایم کے فیصلوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اب یہی عمل دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔ مسلسل گروپ بندیا ں ملک کے سب سے بڑے شہر کی بڑی سیاست کیلئے سوالیہ نشان ہیں۔ قومی جماعتیں اگر کراچی میں اپنا مثبت سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے کراچی و حیدرآباد میں احساس محرومی کو جنم نہ دیتی تو کراچی ماضی کی طرح قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرنیوالی اہمیت برقرار رکھتا۔ کراچی کی سیاست کا منطقی انجام کیا ہوگا اس پر قیاس آرائیاں اپنے عروج پر ہیں لیکن اس امکان کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ گروپ بندیاں کراچی کیلئے کسی بڑے نقصان کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے بانی ایم کیو ایم کو ایک بار پھر نیا کردار دینے کے لئے کسی نئی حکمت عملی کے تحت عوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے۔ بہرحال جلد ہی سامنے آجائے گا کہ کراچی کی راجدھانی کا ہما کس کے سر بیٹھے گا؟۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی
0308-2490789