قندوز کے اہم ضلع پر افغان فورسز کا قبضہ بحال

Afghan Forces

Afghan Forces

قندوز (جیوڈیسک) افغان حکام کے مطابق صوبہ قندوز کے خان آباد ضلع پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے لیے شدید لڑائی ہوئی اور اس دوران طالبان کمانڈروں سمیت کم ازکم 75 جنگجو مارے گئے۔

افغان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سرکاری فورسز نے صوبہ قندوز کے اس اہم شمالی ضلع کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا ہے جس پر طالبان نے ہفتہ کو قبضہ کر لیا تھا۔

طالبان کے قبضے کے کچھ ہی گھنٹوں پر افغان فورسز نے بھرپور کارروائی کرتے ہوئے علاقے پر سرکاری قبضہ بحال کر دیا۔

افغان وزارت دفاع و داخلہ کے عہدیداروں نے ہفتے کو دیر گئے کابل میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ صوبہ قندوز کے خان آباد ضلع پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے لیے شدید لڑائی ہوئی اور اس دوران طالبان کمانڈروں سمیت کم ازکم 75 جنگجو مارے گئے۔

انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس کارروائی میں افغان سکیورٹی فورسز کے چھ اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی بھی ہوئے۔

تجزیہ کار بریگیڈئر (ریٹائرڈ) سعد محمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان فورسز نے جس طرح افغان طالبان سے خان آباد ضلع کا کنٹرول واپس لیا، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان فورسز کی استعداد کار میں اضافہ ہوا ہے۔

’’اس سے پہلے (افغان فورسز) کے پاس یہ جواز تھا کہ یہ امریکی فوج ہیں وہ کام کریں گے، نیٹو فوجی ہیں وہ کام کریں گی لیکن اب ذمہ داری ان پر آ گئی ہے اور پھر جب اس قسم کے آپریشن میٕں ایک فوج ہوتی ہے تو وہ سیکھتی بھی ہے ۔۔۔۔ تو آہستہ آہستہ وہ سیکھ رہی ہے، سخت طریقے سے سیکھ رہی ہے اس سیکھنے کی بڑی قیمت ہے ۔۔۔۔ تو ان کی صلاحیت میں بہتری آ رہی ہے تقریباً دس بارہ ہزار کی تعداد نیٹو افواج ہیں وہ بھی افغانستان میں موجود ہیں ان کی فضائی قوت بھی موجود ہے ڈرون بھی موجود ہیں تو ان سے بھی ان کو ایک سہارا ملتا ہے۔‘‘

بریگیڈئر (ریٹائرڈ) سعد محمد خان نے کہا کہ اگرچہ طالبان کو کچھ کامیابیاں تو ملیں لیکن اُن کے بقول افغان طالبان اُنھیں زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھے سکے۔

’’یہ میں نہیں کہتا ہوں کہ (طالبان) کو کامیابیاں نہیں ہوئی ہیں لیکن کوئی اسٹریٹیجک کامیابی ابھی تک نہیں دیکھائی ہے ۔۔۔۔ ابھی انھوں نے کوئی اتنی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی ہے جیسے کوئی بڑا شہر ہو یا کچھ ایسا ہو جو افغانستان کو ہلا سکے۔‘‘

افغان حکام کے مطابق نیشنل سکیورٹی فورسز خان آباد ضلع میں کئی علاقوں میں ممکنہ طور پر چھپے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں۔

افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے قندوز صوبے کے دارالحکومت پر طالبان کے قبضے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے دفاع کے لیے مناسب تعداد میں فورسز کو وہاں تعینات کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کابل میں اضافی دستوں کو تیار رہنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے تاکہ بوقت ضرورت انہیں قندوز میں تعینات کیا جا سکے۔

طالبان عسکریت پسندوں نے ہفتہ کو مختلف اطراف سے حملہ کر کے خان آباد پر قبضہ کر لیا تھا اور افغان سکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

شہر پر قبضہ کے بعد جنگجوؤں کی طرف سے جاری کی گئی ایک وڈیو میں لگ بھگ ایک درجن فوجیوں کو طالبان کے حراست میں دکھایا گیا۔

حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ قندوز صوبے کے علی آباد ضلع میں سرکاری فورسز اور باغیوں کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔

شمالی افغانستان میں واقع اہم ضلع پر طالبان کے قبضہ کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ صوبے کے دارالحکومت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیں گے۔ گزشتہ سال طالبان عسکریت پسندوں نے لڑائی کے بعد قندوز شہر پر مختصر وقت کے لیے قبضہ کر لیا تھا۔

افغانستان سے ایک بڑی تعداد میں غیر ملکی فوجوں کی اںخلا کے بعد ستمبر 2015 میں قندوز پر قبضے کو طالبان کے ایک بڑی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔

اُدھر اطلاعات کے مطابق سینکڑوں طالبان باغیوں نے ہفتہ کو مشرقی صوبے ننگرہار کے ہسارک ضلع پر حملہ کیا تھا۔

تاہم سکیورٹی فورسز نے فضائی کارروائی کی مدد سے اس حملے کو پسپا کر دیا اور حکام کے مطابق حملہ آوروں کو بھاری ںقصان بھی اٹھانا پڑا۔

طالبان جنگجوؤں نے گزشتہ ہفتے بغلان کے صوبے کے ایک ضلع پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد کہا گیا کہ طالبان ایک مرکزی شاہراہ کو بند کرنے کی کوشش میں تھے تاکہ کابل کا شمالی صوبوں سے رابطہ منقطع کر دیا جائے۔

تاہم افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے مزید دستے ملک کے شمالی اور شمالی مشرقی اضلاع میں تعینات کر دیئے گئے ہیں اور حکومت کو ان علاقوں میں مزید کمک بھیجنے کے حوالے سے کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔

یاد رہے کہ امریکی فضائیہ کے چیف آف اسٹاف جنرل ڈیوڈ نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ بی 52 بمبار طیاروں نے گزشتہ ایک دہائی میں پہلی بار افغانستان میں کئی اہداف کو نشانہ بنایا، جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں لڑائی کی شدت کتنی ہے۔