ایک یادگار تفریحی سفر

Travel

Travel

تحریر: روشن خٹک
انسان جب زندگی کے سفر میں مختلف قسم کے مصروفیات میں الجھ الھ کر تھک جاتا ہے تو پھر اس کے دل میں کسی ایسے سفر اور تفریحی مقامات کی سیر کرنے کی آرزو مچلنے لگتی ہے جہاں وہ کچھ دنوں کے لئے سکون کی سانس لے سکے،ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، کہ روز روز کے بکھیڑوں سے تنگ آئے تو کسی تفریحی مقام پر جاکر سکون کا سانس لینے کا سوچا، ابھی پروگرام بنانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اتنے میں ہمارے مہربان دوست سابق صوبائی وزیر میاں نثار گل کا کا خیل کا فون آیا ، کہنے لگے ،کیا خیال ہے ،وادی کاغان اور دیگر شمالی علاقہ جات کی سیر نہ کی جائے ؟ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں ۔۔ہم نے فورا ہاں کر دی اور اگلے دن ایبٹ آباد، کاغان، ناران، گلگت،اور ہنزہ جانے کا پروگرام بنایا۔جسٹس(ر) شاہ جی رحمٰن صاحب چونکہ ہمارے مشترکہ دوست ہیں اور کسی سفر میں ان کا ساتھ ہونا کسی غنیمت سے کم نہیں ، لہذاانہیں بھی ہم نے شریکِ سفر ہو نے کی دعوت دی۔

اگلے دن ہم پشاور سے براستہ ایبٹ آبا د ناران کے لئے روانہ ہو ئے ، راستے میں میاں صاحب اور جج صاحب کے درمیان نوک جھونک ،مزاحیہ گفتگو اور وادی کاغان کی قدرتی حسن نے ہمیںکچھ ایسا مسحور کر دیا کہ آٹھ نو گھنٹے کا سفر پلک جھپکتے ہی گزر گیا اور ہم ناران پہنچ گئے۔وہاں ایسے محسوس ہوا جیسے سارا پاکستان امنڈ ہو، کافی رش تھا،ہم نے ناران کے ایک پرسکون ہو ٹل میں پڑائو ڈالا ، کھانا کھایا تو راستے کی تھکاوٹ نے سر اٹھایا اور ہمیں جلد سونے پر اکسایا، صبح آنکھ کھو لی تو شاہ جی رحمٰن صاحب کے طبیعت کو ناساز پایا، ان کا بلڈ پریشر اونچے پہاڑوں کو دیکھ کر کافی اونچا ہو چکا تھا اور ہم نے حفظِ ما تقدم کے طور بادلِ نخواستہ یہی مناسب سمجھا کہ وہ واپس پشاور چلے جائیں کیونکہ ہمارا اگلا پڑائو گلگت تھا ، جس کے پہاڑ ناران کے مقابلہ میں کئی گنا بلند تھے اور ان کے بلڈ پریشر کا بلند ہونا یقینی تھا سو وہ واپس پشاور چلے گئے ۔اگلے دن صبح نو بجے ہم گلگت روانہ ہو گئے۔دریائے کنہار کے کنارے بل کھاتی ہوئی سڑک پر 70 کلومیٹر کے سفر کے بعد ہم بابو سر ٹاپ پہنچے جہاں برف پوش پہاڑی چوٹیوں نے ہمارا استقبال کیابابو سر ٹاپ سطح سمندر سے 13700فٹ بلند ہے۔

اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم جنت ارضی کے کسی اونچی مقام پر کھڑے قدرتی حسن کا نظارہ کر رہے ہیں۔وہاں تھوڑی دیر سستانے کے بعد پھر عازمِ سفر ہو ئے ، اب ہمارے سامنے 43کلو میٹر کی اترائی اور خطر ناک موڑ تھے مگر میاں نثار گل کی معیّت میں ہمیں اس کا احساس تک نہ ہوا۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ سیاسی شخصیات کے متعلق عام لوگوں کی رائے میں ہمیشہ تضاد ہوتا ہے مگر جو لوگ میاں صاحب کے قریب رہے ہوں تو ان کو اس بات کا یقین ہو چکا ہو گا کہ میاں نثار گل عجز و انکسار، حسن اخلاق کا مجسمہ اور اعلیٰ خو بیوں کا مالک ہے۔لہذا ان کی معیّت میں ہوتے ہوئے مشکل راستوں کا احساس نہیں ہوتاسر بفلک پہاڑوں کے درمیان تیزی کے ساتھ رواں دواں دریا کے کنارے چھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم گلگت پہنچ گئے۔ سفر کرتے ہو ئے ہم پاک فوج کے ان جوانوں کو خراج تحسین بھی پیش کر رہے تھے جنہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر یہ سڑک تعمیر کی ہے ۔گلگت پہنچے تو سرینا ہوٹل میں قیام کیا ، سرینا ہوٹل کا ماحول نہایت پرسکون اور آرام دہ تھا۔۔

اگلے دن ہم ہنزہ کی طرف روانہ ہو ئے،ہنزہ وادی برف پوش پہاڑوں کے درمیان سادہ دل لوگوں کا مسکن ہے جس کا قدرتی حسن اپنی مثال آپ ہے۔راستے میں برف سے ڈھکی لدی بہت اونچی پہاڑی چوٹی ” را کا پوشی ” ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتی رہی۔اس چوٹی بلندی سطح سمندر سے 25551فٹ بلند ہے جو دنیا میں 27ویں بلند ترین چوٹی ہے۔ 1938سے لے کر اب تک متعدد کوہ پیمائوں نے اسے سر کرنے کی کو شش کی ہے جس میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگر 1958میں ایک پاکستانی اور ایک برٹش اس چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہو ئے ہیں اور پھر 1979میں کیپٹن کرنل شیر خان کی قیادت میں ایک ٹیم اس کو سر کرنے میں کامیاب ہو ئی ہے۔ہنزہ پہنچنے پر ہم نے ایک بہت اونچے مقام پر بنے ایک ہو ٹل میں قیام کیا جہاں سے دل موہ لینے والی وادی ہنزہ کی خوبصورتی اور پہاڑوں پر پڑے چمکتے ہوئے برف پوش چوٹیوں کا نظارہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

اگلے دن واپسی پر ہم نے ایک رات پھر ناران میں قیام کیا ، جھیل سیف الملوگ دیکھنے گئے جو کسی زمانے میں خوبصورت پریوں کی آما جگاہ تھی اور آجکل روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اسے دیکھنے جاتے ہیں۔یہ سفر نہ صرف یہ کہ باعثِ تفریح تھا بلکہ بہت معلوماتی اور انسان کی بلند ہمتی کا نشان بھی تھا۔کالم ہذا کے آخر میں اگر میاں نثارگل کاکا خیل کا شکریہ ادا نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی جس نے اس ناقابل فراموش تفریحی سفر کو مرتب کرنے ، آسان اور خوشگوار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

Roshan Khattak

Roshan Khattak

تحریر : روشن خٹک