یادوں کے بھنور

Yaadon ke Bhawar - Book

Yaadon ke Bhawar – Book

تحریر : مجید احمد جائی۔۔ ملتان شریف
یادوں کے بھنور پڑھتے ہی انسان ماضی میں کھو سا جاتا ہے۔ یادیں اچھی اور خوشگوار ہوں تو زندگی کے گزرتے پل سہانے ہو جاتے ہیں اور اگر یادیں کرب ناک ہوں تو لمحہ لمحہ سسکتے گزرتا ہے ۔لیکن یہاں ریاض ندیم نیازی صاحب اپنی یادوں کو خوشگوار بنا رہے ہیں۔یادوں کے بھنور ،ریاض ندیم نیازی کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ریاض ندیم نیازی کا ادبی قد کاٹھ اونچا ہے ،یہ وہ چمکتا ستارہ ہیں جن کی چمک ہر سو روشنی پھیلا رہی ہے۔پاکستان اور بیرون ملک اُن کا نام ،جانا پہچانا جاتا ہے اُن کی شہرت کے چرچے ہر سو ہیں۔

پاکستان کے گرم ترین علاقے (سبیّ)سے تعلق رکھتے ہیں ۔ہماری دوستی ادبی ہونے کے علاوہ ان علاقوں کی نسبت سے بھی ہے ۔ایک گرم شہر(ملتان شریف)اور دوسرا گرم ترین شہر (سبی)سے تعلق رکھتا ہے ۔لیکن مزاج کے دونوں ٹھنڈے ہیں ۔ریاض ندیم نیازی نرم گفتار ،خوش اخلاق کے مالک ہیں ۔آپ کے نعتیہ مجموعوں کی تعداد زیادہ ہے ۔آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کتابوں پر ایوارڈ بھی لے چکے ہیں ۔بلوچستان سے واحد شاعر ہیں جن کو اتنے ایوارڈ مل چکے ہیں ،کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لائبریری بنا چکے ہیں جس میں آٹھ ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔

صدیوں کی زندگی ہے سبھی کو گمان ہے
ورنہ تو ایک سانس کا سارا جہان ہے

یادوں کے بھنور،میرے سامنے ہے جسے مکمل پڑھ چکا ہوں ۔اس کا سرورق جاذب نظر اور دِل کش ہے ۔دیر تک آنکھیں اس میں کھوئی رہتی ہیں ۔بیک فلاپ پہ مصنف کی تصویر کے ساتھ نامور ادبی لوگوں کی رائے دی گئی ہے جن میں ڈاکٹر نثار ترابی ،عباس تابش،لبنیٰ صفدر،ڈاکٹر رقیہ ہاشمی شامل ہیں ۔دو لوگوں نے ریاض ندیم نیازی صاحب کو غزل کی صورت خراج تحسین پیش کیا ہے ،جن میں ثبین سیف لکھتی ہیں۔

ہر ایک شخص ہے اُس کی محبتوں کا اسیر
خلوص ومہر ،وفا کا ہے اعتبار ندیم
اِسی طرح راحت نذیر راحت یوں محبتیں نچھاور کرتی ہیں ۔
چرچا اِن کا نگر نگر ،شعروسخن کا زندہ گھر
اِن کو سب کرتے ہیں سلام ،شعر وسخن کی دُنیا میں

یادوں کے بھنور کے دوانتساب ہیں ۔اس طرح کسی کتاب کے دو انتساب پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔

گر دیکھنا وہ چاہے میری کتاب دیکھے
ہے اُس کے نام میرا یہ انتساب دیکھے

یادوں کے بھنور مئی 2017میں منظر عام پر آئی ہے اور اِسے رمیل ہاوس آف پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے ۔خوبصورت سفید کاغذ پر بہترین اور عمدہ کتاب ہے ۔208صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہے جس میں 132غزلیں اور دُعا اور قطعات ہیں ۔اس کی قیمت 400روپے ہے۔ریاض ندیم نیازی کے فن پر ڈاکٹر نسیم فاطمہ صاحبہ کا لکھا تحقیقی مضمون ”غم جاناں و غم دوراں کے بھنور میںرقصاں ندیم ”اپنے اندر بہت کچھ لیے ہوئے ہے ۔نہ صرف یادوں کے بھنور کے مجموعہ پر بات کی گئی ہے بلکہ ریاض ندیم نیازی کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آپ نے تو مرگِ آساں کا تماشا کر لیا
آپ کو کیا علم ہے گزرے ہیں کس مشکل سے ہم

حیران کن بات یہ ہے کہ پوری کتاب میں کمپوزنگ کی صرف ایک غلطی ہے۔ورنہ تو اچھی سی اچھی کتاب میں بھی کمپوزنگ کی غلطیوں کی بھر ماردیکھنے کو ملتی ہے ۔۔ریاض ندیم نیازی ،یادوں کے بھنور میں مثبت سمت چلتے ہیں اُن میں اُداسی ،محرومی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

بھر آیا غم سے دِل تو ہوئی آنکھ اشک بار
لیجئے ذرا سی دیر میں برسات ہو گئی

جیسے کہ لبنیٰ صفدر کہتی ہیں ریاض ندیم نیازی نے محبت کے روایتی دائرے تک ہی خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ وہ زیست کے دیگر مصائب و آلام کے دائرہ در دائرہ سفر میں بھی ان تلخیوں کا خاطر خواہ احاطہ کرنے اور اِن تلخیوں کا ذائقہ اپنی زبان پر محسوس کرنے کے بعد الفاظ کے روپ میں صفحات پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔

سب کچھ بہا کے لے گیا سیلاب دوستو!
بیٹھے ہیں گھر کے ملبے پہ پائوں پسار کے

ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کہتی ہیں ،یادوں کے بھنور کی شاعری بلاشبہ ندرت و جدّت کا ایک انمول خزانہ ہے ۔
بس اُس نے مجھ کو یادوں کے بھنور سے باندھ رکھا ہے
وہ اپنا بھی نہیں ہے ،اور کا ہونے نہیں دیتا
عباس تابشکہتے ہیں ریاض ندیم نیازی ایک متحرک اور ہمہ جہت تخلیق کار ہے۔

اپنی منزل نہ کوئی اپنا مکاںہے لوگو!
وہ جدھر جاتا ہے پھر میں بھی اُدھر جاتا ہوں
یادوں کے بھنور ،ریاض ندیم نیازی نے اپنے پڑھنے والوں کے لئے ہیرے پرودئیے ہیں اور یادوں کی مالا بنا دی ہے ۔اس کتاب کو ہر دوست کے دسترس میں ہونا چاہیے ۔ایسی کتابیں روز روز سامنے نہیں آتیں ۔یادوں کے بھنور سے لیے گئے چند اشعار:

دیکھتا ہوں جو تیرے ہاتھ میں پتھر کوئی
میں بھی شیشے کی طرح گِر کے بکھر جاتا ہوں
2۔اُس نے دیا پیام کہ اللہ سے رکھ اُمید
وہ تجھ پہ زندگانی کو آسان کر گیا

یادوں کے بھنور نہ صرف کتاب ہے بلکہ ریاض ندیم نیازی کے دل کی ترجمانی بھی ہے ۔اُن کے جذبات ،احساسات ،اُن کی آواز ہے اور یہی میری بھی آواز ہے ۔یادوں کے بھنور کی اشاعت پر میں ریاض ندیم نیازی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔اُمید کرتا ہوں کہ اُن کا یہ سفر یہیں نہیں تھمے گا بلکہ منزل کی طرف رواں دواں رہے گا۔اللہ تعالیٰ اُن کو سلامت رکھے آمین!۔

Abdul Majeed Wafa

Abdul Majeed Wafa

تحریر : مجید احمد جائی۔۔ ملتان شریف