آئینے بھی جھوٹ بولنے لگے

Man

Man

تحریر : انجم صحرائی
زندگی میں میں نے کبھی بڑا انسان بننے کی خواہش نہیں کی البتہ ایک اچھا انسان نظر آنے کی تمنا ہمیشہ رہی مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ میں نے ہمیشہ اچھا انسان نظر آنے کی کوشش کی مگر اچھا انسان بننے کو میں نے کبھی اپنی منزل نہیں بنایا۔ اچھا انسان نظر آنے اور اچھا انسان ہو نے میں بہت فرق ہے یہ فرق ایسے ہی ہے جیسے دن اور رات۔ دنیا میں سب سے آ سان مو ضوع جس پر ہر بندہ گھنٹوں بول سکتا ہے وہ اس کی اپنی ذات ہے میں یہ ہوں۔ میں نے یہ کیا ۔ میں نے اتنی محنت کی، میں نے ان کے لئے دن رات اتنا کام کیا۔ میری دیا نت اور میری عقل بس یہ وہ موضوعات ہیں جس پہ ہم سب گھنٹوں بول سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں یہ میرے جیسے لو گوں کا پسند یدہ مو ضو ع ہے ایک اور مو ضوع جو ہم سب کا من بھا تا ہے وہ ہے کہ وہ کیا ہے ؟ اور وہ کیسا ہے ؟ ہمیں اپنی آ نکھ کا شہتیر نظر نہیں آ تا مگر دوسرے کی آ نکھ کا تنکا بھی دور سے دیکھ لیتے ہیں۔

شاید یہی المیہ ہے ہما رے سماج کا کہ ہم سب ساری خو بیاں اور اچھا ئیاں دوسروں میں ڈھو نڈنے میں لگے رہتے ہیں ، ساری برا ئیاں اور کمزوریاں ہمیں دوسروں میں ہی نظر آ تی ہیں اور رہے ہم ۔۔ہم تو ہیں ہی اشرف المخلو قات نہ کمزوری اور نہ خا می اتنے پاک پو تر اور مقدس کہ فرشتے بھی ہماری درگاہ پہ سجدہ ریز نظر آئیں اور ہما ری امانت ، دیا نت ، نیکی و پر ہیز گا ری، اخلاق و معاملات کی قسمیں کھائیں اپنی پا کیز گی اور کا ملیت کا یہ زعم اتنا کہ بقول اقبال”عروج آدم خا کی سے انجم سہمے جا تے ہیں “اپنے آپ کو انسان کا مل سمجھنے کے اسی عمل کا ثمر ہے کہ ہمارے معا شرتی بگاڑ کی انتہا اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اسی لئے تو ایک گلی محلے سے لے کرایوان اقتدار کی غلام گر دشوں تک ہم سب کو سب اچھا کی گو نج سنا ئی دے رہی ہے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ جب ہم حسب عادت گھر سے صبح کی چا ئے پینے عبد الر حمن قریشی کی دکان پر پہنچے تو وہ ہمیں خلاف معمول خا صے افسردہ اور ملول نظر آئے وجہ پو چھی تو کہنے لگے میں تمہیں ایک بچے سے ملواتا ہوں اس کی کہا نی سن لو تمہیں سمجھ آ جا ئے گا کہ میں کیوں دکھی ہوں۔ وہ بچہ دس سے گیارہ سال کا ہو گا، گند می رنگ مد قو ق سا کمزور۔ لنڈے کی ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہا تھ میں چا ئے کی کیتلی اور دو کپ۔ وہ بہت جلدی میں تھا چو نکہ اس نے کئی گا ہک بھگتانے تھے اور یہ وقت دھندے کا وقت تھا اسی لئے وہ مجھے پراپر ٹائم نہیں دے سکتا تھا پھر بھی میں نے اس کے با رے جاننے کی کو شش کی میںنے اس سے پو چھا۔۔ کہاں رہتے ہو؟ چک۔۔ میں تمہا رے باپ کا نام کیا ہے سعید کیا کرتا ہے؟ مستری ہے۔ گھروں میں جا کر مزدوری کرتا ہے تم ہو ٹل پہ کام کیوں کر تے ہو۔

Mason

Mason

میرے والد نے ہوٹل والے کے پیسے دینے تھے اس لئے کرتا ہوں کیا تمہارا والد تمہیں خود چھوڑ گیا ہے؟ نہیں ہو ٹل والا ہما رے گھر میرے باپ سے پیسے ما نگنے گیا تھا ، میرے باپ کے پا س پیسے نہیں تھے۔ جب ہو ٹل والے نے اصرار کیا تو میرے والد نے کہا اسے لے جا ئو یہ تمہارے ہو ٹل پر کام کرے گا اس طرح تمہارے پیسے بھی پورے ہو جائیں گے اور میرا قر ضہ بھی اتر
جا ئے گا ۔اور ہو ٹل والا اپنی مو ٹر سا ئیکل پر بٹھا کر مجھے لے آیا۔ تمہاری کتنی تنخواہ ہے ؟ سا ڑھے چا ر ہزار روپے کیا تم کبھی سکول گئے ہو؟ ہاں میںٰ پا نچویں تک پڑھا ہوں۔ کیا تم اور پڑ ھنا چا ہتے ہو؟ ہاں گھر کے حالات ٹھیک ہو جا ئیں۔۔ پڑھنا تو ہے۔ اس نے دور خلا میں تکتے ہوئے کہا اور چلا گیا۔

نہ جانے وہ خلا میں کیا ڈھونڈ رہا تھا شا یدایک امید کی کرن۔ مگر کیا ایسے سماج میں جہاں اکیسویں صدی میں بھی بچے بھوک اور پیاس سے مریں اور جہاں گیارہ لا کھ سے زیادہ معصوم بچے ورکشا پوں میں چند ٹکوں کے بدلے لو ہا کوٹتے، چھپر ہو ٹلوں میںچا ئے کی کیتلیاں ما نجتے، اشرا فیہ کے محلات میںکتے نہلا تے، ڈسٹ بنوں سے کا غذ چنتے اورخوراک کی تلا ش میں اپنی معصو میت گنوا دیں
وہاں امید کی کرن۔

شائد اک خواب ہی ہے ایک ایسا خواب جس کی کو ئی تعبیر نہیں۔ وہ اس لئے کہ ہم سب۔۔ پو ری قوم اچھا نظر آنے کی کو ششوں میں مصروف ہے اچھا بننا نہیں چا ہتے۔ ہم سب اپنے آپ میں مگن اپنے ہی گن گا نے میں لگے ہیں۔ اپنے علا وہ ہمیں نہ کو ئی اور دکھا ئی دیتا ہے اور نہ ہی ہم کسی اور کو دیکھنا چا ہتے ہیں۔ لگتا ہے اب توآ ئینے بھی جھوٹ بو لنے لگے ہیں تبھی تو ہمیں سب ٹھیک نظر آ رہا ہے۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی