چاند اپنا اپنا

Razman Moon

Razman Moon

تحریر : شہزاد حسین بھٹی
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اگر بہت سارے لوگوں کو کسی ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے تو کیا اس اکٹھ کو ہم قوم کہیں گے یا ہجوم کا نام دینگے؟سرسید احمد خان نے ایسی تعلیم جو تربیت سے عاری ہو، اسے ایسی غیر موزوں دواء سے تشبیہ دی ہے جو بجائے مریض کو فائدہ پہنچانے کے نقصان کا موجب بنتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو بنیوں نے پاکستان کے قیام کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ ہمیشہ گھٹیا سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔جیسا کہ گذشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نے سقوط ڈھاکہ کے پس پردہ سازش کو منظر عام پر لایا۔ انکے ڈھٹائی ذدہ اعتراف نے یقینا ان پٹھوں کی آنکھیں بھی ضرور کھولی ہوںگی جو دن رات امن کی آشا کے گن گاتے نہیںتھکتے لیکن دشمن تو سازشیںکرتا ہے اور آپ کو کمزور کرنے کے لیے اپنی تمام توانائیاںبھی صرف کرتا ہے۔

لیکن کیا ہم عقل ودانش سے پیدل ہیںکہ دشمن کی سازشوں کا شکار بن کر اپنی ہی جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں۔ مجھے کم ا ز کم اس میں تو کسی دشمن کی سازش دور دور تک دیکھائی نہیں دیتی کہ ہم پورا پاکستان ایک ہی دن رمضان اور عید کا چاند دیکھ سکیں اور اگر ہم موسم کی خرابی کے سبب چاند نہ بھی دیکھ پائیں اور اسکی کوئی مستند شہادت بھی دستیاب نہ ہو تو حکومت وقت کی قائم کردہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کریں او ر اسکا احترام کریں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک میں کئی عیدیں منائی جاتی ہیں اور ہر صوبے کا چاند بھی اپنا اپنا ہی ہے۔

اس معاملے میں برسا برس سے ہم پوری دنیا کے سامنے تماشا بنتے ہیں لیکن اپنے اوپر پھبتیاں کسوا کر مجال ہے کہ رتی برابر ملال بھی ہمیں چھو کر گزرا ہو۔ اس بار وزات مذہبی امور نے برسوں کے تماشوں کے بعد چاند کے معاملے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک سنجیدہ کوشش کی بھی مگر نتیجہ وہیں کا وہیں رہا اور اس سال بھی کے پی کے میں چاند ایک روز پہلے ہی نظر ا گیااورحکومتی اتفاق رائے کے مثبت نتائج برآمدنہ ہو سکے یوںہر سال کی طرح پوری دنیا میں ہماری ایک بار پھر جگ ہنسائی ہوگئی اوراسکا مداوا نہ ہو سکا۔

Pakistan

Pakistan

گذشتہ دنوں پاکستان کالمسٹ کونسل آف پاکستان کی اسلام آباد میں ایک تقریب تھی۔اس تقریب میں ملک کے چپے چپے سے کالم نگاروں نے شرکت کی اس تقریب میں وفاقی وزیرسینٹر مشاہد اللہ خان نے جب قیام پاکستان کا نقشہ کھینچا اور ان لازوال قربانیوں کو یاد کیا جنکے نتیجے میں یہ ارض پاک مسلمانوں کے ایک علیحدہ دیس کی صورت میں دنیاکے نقشے پرابھری تو پورا ہال آبدیدہ ہو گیا، مشاہداللہ خان نے درست کہا کہ ہمیں نئی نسل کو ان قربانیوںکی جزیات تک سے آشنا کرانا ہو گا۔ ان کو آگ و خون کے ان سبھی دریاوں کی بابت بتانا ہو گا جنکی مسافت طے کر کے ہمارے آباواجداد نے یہ پاک خطہ حاصل کیا۔ جب تک ہم اپنے ماضی سے کٹے رہیں گے تو یہ عجیب و غریب تضاد ہر روز جنم لیں گے اور یہ تضادات ہمیں کبھی بھی ایک قوم نہیں بننے دینگے۔ ہم ہجوم کے ہجوم ہی رہیں گے۔ ایک ایسا بکھرا ہوا ہجوم جہاں ہر شخص اپنی ناک کی سیدھ میں بنا سوچے سمجھے بس دوڑتا چلا جا رہا ہے اور اس مسافت کا نہ تو کوئی نتیجہ ہے اور نہ اختتام ۔صرف ذلالت اور خواری ہے جو ہمارا نصیب بنتی جا رہی ہے۔

پاکستان کالمسٹ کونسل کی اس تقریب کے بعد جب ملک بھر کے دانشور کھانے کی میز پر اکھٹے ہوئے تو اس موضوع پر بڑی مدلل گفتگو ہوئی۔ اٹک سے آئے ہوئے کالم نگاروں اقبال زرقاش اور ملک محمدممریزخان، اسلام آباد سے ہمارے دوست سینئیر صحافی جاوید ملک اورلاہور کی نامور قلمکار صفینہ چوہدری سے بھی گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔ مجھے صرف خوشی یہ ہوئی اور کٹھا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن واضع دیکھائی دی کہ ملک بھر کے نوجوان قلمکار ایسے معاملات میں انتہائی سنجیدہ سوچ کے حامل ہیں اوروہ قوم کی تربیت کے لیے کمربستہ بھی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم پر اس وقت تک کالی گھٹائیں پوری طرح حاوی نہیں ہوتیں جب تک اس دیس کے نوجوان دانشور بھٹک نہیں جاتے چونکہ یہ نوجوان اپنے جوش و عمل سے اپنے آباء کی خطاوں کو دھو ڈالتے ہیں۔

کاش پاکستان کالمسٹ کونسل کی یہ تقریب بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو اور پورے ملک سے آئے ہوئے قلم کار یہ بیڑا اٹھا لیں کہ وہ قوم کے اندر موجود انتشار کے خاتمے کے لیے اپنی بھرپور قلمی جدوجہد کو جاری رکھیں گے او ر کم از کم چاند کے معاملے پر یہ قلمکار رائے عامہ ہموارکرکے کوئی اتفاق رائے کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کرینگے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے اور ہر سال ہم اس عزیمت سے بچ سکیں لیکن اس معاملے کو نظام صلواة کی طرح صرف دعوں تک رکھنے سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو گا کیونکہ نظام صلواة کا شوروغوغا بھی پچھلے دنوں بہت سنائی دیا مگر نتیجہ وہی دھان کے تین پات۔

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر : شہزاد حسین بھٹی