ممتاز ناول نگار بانو قدسیہ انتقال کر گئیں

Bano Qudsia

Bano Qudsia

لاہور (جیوڈیسک) اردو ادب کی معروف مصنفہ، ممتاز ناول نگار بانو آپا بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم سے بچھڑ گئیں، بانو قدسیہ کی عمر 88 برس تھی اور وہ شوگر اور دل کے عارضے کے باعث پچھلے 10 دن سے لاہور کے ایک نجی اسپتال میں زیرِعلاج تھیں۔

راجہ گِدھ جیسے لازوال ناول سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی بانو قدسیہ 88 برس کی عمر میں لاہور میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

بانو قدسیہ ادبی حلقوں اور عام زندگی میں بانو آپا کے نام سے مشہور تھیں، 1928 ء کو فیروزپور بھارت میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہو ئیں۔

انہوں نے کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہور سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کیا اور 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی،اردوادب کے ساتھ شروع سے لگاؤ تھا۔

مشہور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد ان کی معاونت سے ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

بانو قدسیہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت سے ڈرامے بھی لکھے، اُن کے ایک ڈرامے آدھی بات کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

بانو قدسیہ کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔

ان کا ناول راجہ گدھ اردو زبان کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے، جبکہ دیگر تصانیف میں ایک دن، شہر لا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں سر فہرست ہیں۔

بانو قدسیہ نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے، جن کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں، جبکہ ان کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا ہے۔

بانو آپا نے 3 بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں، مرحومہ کی نماز جنازہ آج بعد نمازِ عصر ان کی رہائش گاہ سی بلاک ماڈل ٹاؤن میں ادا کی جائے گی۔

ادھر وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں بانو قدسیہ کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحومہ پاکستان کا سرمایہ تھیں۔