میرا وطن!

Pakistan

Pakistan

اپنے وطن کے ذکر کو لفظ کے پیراہن میں لکھتے وقت میرا سَر فخر سے بلند ہوا جاتا ہے۔ بظاہر تو ہمارے پیارے وطن کے بارے میں لکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ ہزاروں بار نہیں لاکھوں بار اس کے بارے میں لکھا اور پڑھا جا چکا ہوگا۔ لیکن پھر بھی اپنے وطن کے بارے میں لکھ کر اپنے آپ کو خوش نصیب انسانوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہوں گا۔آج میرے وطن کی عمر قریب قریب پینسٹھ سال تو ہوگا ہی اور اس پینسٹھ سالوں میں ہمارے ملک کی آبادی لگ بھگ اٹھارہ کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

کچھ اضافی آبادی کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری میں بھی کئی ہزار افراد اب تک موت کی وادی میں جا کر سو چکے ہیں۔ آج ہمارے ارد گرد لوگوں کا جمِ غفیر موجود ہے ان میں سے (کچھ ہی لکھوں گا کیونکہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے)کچھ لوگ بے راہ روی کی وجہ سے معاشرے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ بے راہ روی سے مراد ایسے ہم وطن جو اتحاد و یگانگت ، امن و سکون کے راستے کو چھوڑ کر قتل و غارت گری میں مصروف ہو گئے ہیں۔

شہر بلکہ پورے ملک کا امن دائو پر لگا دیا ہے جس سے ہم سب کو دنیا بھر میں شرمندہ ہیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال اس طرح کہی جا سکتی ہے کہ ایک اٹیک سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں کیا ہوا کہ آج دنیا بھر کا کوئی بھی ملک صرف کھیلنے کے لئے اپنی ٹیم نہیں بھیجتی اور اس کی وجہ صرف اور صرف امن و امان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہمیں اپنی تہذیب پر ناز تھا جو پورے پاکستان کے لئے باعثِ رشک تھی۔ اس کے بنیادی عنصر میں زبان کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ رہن سہن کے طریقۂ کار میں تفریق ضرور تھی مگر الفت و محبت کی چاشنی سب میں ایسے بھری تھی جیسے ان کے گھٹی میں شامل ہو۔ کھانے پینے کے طریقے الگ ضرور تھے مگر کھانا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ہی پلیٹ میں کھانے کو ترجیح دیتے تھے۔

ملنساری لوگوں کے اندر زاعفران کی مانند شامل تھی ۔ موسموں کی مناسبت سے لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں ، خوشی و غمی میں شمولیت کو ترجیح دیتے تھے۔ کسی پڑوسی کو دوسرا پڑوسی بھوکا نہیں سونے دیتا تھا۔ غریبوں کے دُکھ سُکھ کا خیال رکھا جاتا تھا۔ سوکھی روٹی کھا کر بھی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہا کرتے تھے۔ یہود و نصاریٰ ان کی باہمی محبت و یگانگت ، ملنساری کو دیکھ کر رشک کرتے تھے۔

مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں پتہ نہیں کس کی نظر ہماری ملنساری اور محبت کو کھا گئی کہ ہم اپنی تمام خصوصیات کھو بیٹھے ہیں۔ آج کے بچوں میں نہ شیرینی گفتار ہے اور نہ وہ اخلاق و آداب ہیں جس کے لئے پاکستان دور دور تک مشہور تھا۔ دوسری جگہوں کی طرح پاکستان میں بھی آج تعلیمِ نسواں کا مقصد حاصل نہیں ہو رہا ہے، بچوں کو چراغ خانہ بنانا نہیں آتا، آج کے حالات انتہائی دگر گوں صورتحال سے دوچار ہے۔ اب تو اپنے ہی گھر میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والے نوجوان موجود ہیں تو ملک بھر میں کیا حال ہوگا اس کا اندازہ آپ کو بھی بخوبی ہوگا۔

بیویاں شوہروں کی نافرمان تو بچے والدین کے نافرمان، گلی محلے میں لوگ ایک دوسرے کے مخالف، کوئی کسی فرقے کی بات کرتا ہے تو کوئی کسی فرقے کی، کوئی رنگ و نسل کی بات کرتا ہے تو کوئی زبان کی، کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ، کوئی دیو بندی ہے تو کوئی وہابی، کوئی اہلحدیث ہوگیا ہے تو مسلمین، کوئی فلاں پارٹی کا ہے تو کوئی فلاں پارٹی کا، غرض کے ہر طرف تفریق موجود ہے مگر کوئی مسلمان اور پاکستانی کہلانے کو تیار نہیں۔ ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ہم بھی مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ تبدیلی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ آج ان کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔ ہمارے تفریحی مشاغل بھی قدرے بدل چکے ہیں۔ کھلونوں کی جگہ ہتھیاروں نے لے لیا ہے۔
دانش کدۂ علم کا سونا ہوا آنگن
وہ شمع بجھی جس سے دبستان تھا روشن
شاخِ شجرِ علم کا مرجھایا وہی پھول
جس پھول کی خوشبو سے معطر تھا یہ گلشن
آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں مسلمان ہی مسلمان کا قتلِ عام کر رہا ہے۔ سیاست کے مکین بجائے حالات کو درست کرنے کے صرف وزیراعظم کی گدّی پر بیٹھنے کا خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

Killing People

Killing People

گدّی نشین چاہے جو بھی ہو عوام کی طرف سے درخواست یہ ہے کہ جو کچھ اوپر ذکر کیا گیا ہے کیا وہ پرانے حالات ہمیں لوٹانے کا ہنر رکھتا ہے، کیا سہانے سپنے جو غریب دیکھتا ہے اسے پورے کرنے کے فن سے واقف ہے۔ عوام جو کچھ چاہتی ہے کیا اسے پورا کرنا اس کے بس میں ہے۔انصاف انصاف کی صدائیں لگاتے یہ عوام جوانی سے بوڑھے ہو چکے ہیں اور نوجوان نسل بھی اب تو انصاف کی خستہ حالی پر ماتم کناں نظر آتی ہے۔ اگر یہ نکات ہی پورے کرنے والا بندۂ مخلص ہو تو اسے اس گدّی پر بیٹھنے کا حق ہو سکتا ہے۔

ورنہ تو ہمارے یہاں ہر ٹرم میں ہی وزیراعظم آتے ہیں اور ٹرم پورا کرکے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے ہم عوام بے سکونی اور حالات کی چکی میں پسنے پر مجبور ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ عوام واقعی ناانصافی، قتل و غارت گری، بیروزگاری، مہنگائی کی وجہ سے یکجا ہو جائیں (جو کہ ابھی تک نہیں ہوئے ہیں) اور ہمارے بے حِس اور ظالم حکمرانوں کے خلاف تحریر اسکوائر بنانے کی طرف قدم بڑھائیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ سب کچھ درست سمت میں رواں دواں ہو جائے۔اور آپ سب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق سر پیٹتے رہ جائیں۔
بجا کہے جسے عالم اُسے بجا کہو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
اکثر انسان زندگی میں سوچ اور قوتِ فیصلہ کے امتزاج میں عزم کا رنگ بھر کر ایک ایسے درخت کی مثال بن جاتا ہے جس کا سایہ اور پھل زندگی اور منزل کی تھکاوٹ کے لئے پُر سکون ہو جاتا ہے۔ عزمِ نو رکھنے والے ہی تاریخی تناظر بھی رکھتے ہیں۔ کیونکہ عام طور پر افادی پہلو فردا کے لئے اثر پذیر ہوتے ہیں جو حالات کو فراموش نہیں کر سکتے اسی باعث عمل ہی آئندہ کا عزم نامہ مرتب کرتا ہے۔

ہماری عوام بھی آج کل سیاسی اعمال نامہ مرتب کرنے میں جُڑی ہوئی ہے۔ کیونکہ ایک بار پھر ملک کی باگ دوڑ کسی کے ہاتھ میں جو دینا مقصود ہے اور لگتا ایسا ہے کہ اس بار عوام جاگ چکی ہے اور فیصلہ کرنے میں اپنی آنکھیں بند نہیں کرنے والی ہے ۔ اس پُر آشوب دور میں آج انسان اور اس کے رشتے کی کڑیوں کو ہر سمت آگہی کی ضرورت ہے۔

Justice

Justice

حالاتِ زمانہ کے اجتماعی ذہن و فکر کے رجحانات کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ بامقصد مشن وہ ہوتا ہے جو انسان کی مثبت قدروں کو بلند کرتا ہے۔ آج بھی عوام ایسے کٹھن حالات میں بھی مایوس اور خوفزدہ نہیں ہیں صرف اس لئے کہ ہمارا ایمان ہے کہ ظلم کی زندگی طویل نہیں ہوا کرتی اور ملک کے حالات کی تیز رفتار تبدیلی صاف بتا رہی ہے کہ اب ظلم کا خاتمہ اور انصاف کا قیام قریب ہے اور پھر سے اس ملک میں چاہت کی چاشنی واپس آئے گی۔ انشاء اللہ

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی