16دسمبر، قومی اسمبلی کا اجلاس اور ہماری وزارت داخلہ

National Assembly

National Assembly

تحریر : منشاء فریدی
کاش وطن عزیز پاکستان میں امن قائم ہو۔ امیدِ واثق ہے کہ یہ خواہش ایکدن ضرور پوری ہو گی لیکن اس دعاء کو قبولیت تک پہنچنے میں ہمارے ارباب سیاست سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ اور شاید اب تو یہ دعا بھی مانگنی پڑے گی کہ اے اللہ! ان سیاست دانوں کو محبِ وطن بنا۔۔۔ ! جس ریاست کا سیاسی نظام اور قبلہ سیاست ٹیڑھا ہو ئے تو گزارا دعاؤں پر ہی کرنا پڑتا ہے یوں بقاء کے لیے تدبیر نام کی کوئی چیز بچتی ہی نہیں۔ ۔۔! 16دسمبر کو قومی اسمبلی میں جس طرح کی بحث سامنے آئی وہ یقیناً پریشان کن ہے۔ یہاں اس بات پر کوئی بات نہیں ہو گی کہ اعجاز جکھرانی (رکن قومی اسمبلی پی پی پی) نے شیخ رشید کو انتہائی بد تمیز شحص قراردے دیا۔ شاید اعجاز جکھرانی شیخ رشید کے تجزیوں سے خوفزدہ ہیں۔ میں نے تو یہاں تک بھی سنا ہے کہ شیخ رشید جب بھی کسی نیوز چینل پر براہِ راست ہوتے ہیں تو خاصے منہ پھٹ ثابت ہوتے ہیں ۔ ویسے راقم کے نزدیک شیخ رشید نسبتاً کھری سناے والے ہیں ۔ اس لیے اُن کا انداز تکلم مجھے توپسند ہے۔

شاید اعجاز جکھرانی کو شیخ رشید کا انداز اسی لیے نہیں بھاتا۔ بہر کیف اس پر اتنا ہی کافی ہے۔ 16دسمبر سقوط ڈھاکہ اور سانحہ پشاور کے حوالے سے ہماری تاریخ کا سیاہ ترین اور المناک دن تصور ہو گا۔ اس طرح کی بدتمیزانہ صورتحال (گالم گلوچ) اور وہ بھی قومی اسمبلی میں انتہائی قابل ملامت ہے۔ اِن بھونڈے اور اجڈ نسل اور قسم کے سیاستدانوں کوشاید آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کی شہادت پر آنسو نہیں آ رہے تھے اور نہ ہی سقوطِ ڈھاکہ پر کوئی ایک منٹ کے لیے خاموشی ممکن تھی۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اس موقع پر قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی خورشید شاہ نے سپریم کورٹ کے سانحہ کو ئٹہ پر بنائے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے چار مطالبات میں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ شامل ہے۔ قائدِ حزب اختلاف کی اس بات سے شاید بہت سوں کو اتفاق ہو گا راقم نے بھی کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا کہ خدارا قومی لائحہ عمل میں ذاتی سیاسی مقاصد کو مت گُھسیڑیں۔ مخلصانہ جدوجہد کے ذریعے دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے تگ و دو اور اقدامات کریں۔

Khurshid Shah

Khurshid Shah

خورشید شاہ کا یہ مطالبہ میرے خیال میں دو ٹوک اور مدلل ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ لیکن سیاستدانوں کی ذاتی مصلحتیں اس میں مانع ہیں ۔ جو ریاست کے لیے پیغام ِ خیر نہ ہے۔ پھر قائد حزب اختلاف کا یہ کہنا کہ عدالت عظمیٰ کے کمیشن کی انکوائری رپورٹ نے ہمارے مطالبے کی صداقت اور سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ یقیناً حیران و پریشان کن امر ہے۔ اس سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہماری وفاقی حکومت بھی شاید اپنے عوام کے ساتھ خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔

اس کھیل سے ملکی و ملی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وزارت ِ داخلہ پر شک کا لیبل لگنے کے بعد اس وزارت پر براجمان شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ استعفیٰ دینے میں دیر نہ کرے ۔ کیونکہ ڈان کی سٹوری پروزیر اطلاعات پرویز رشید نے استعفی دے دیا تھا یا ان سے استعفی لے لیا گیاتھااب جبکہ عدالت عظمیٰ کے کمیشن کی رپورٹ کا ثبوت بھی ہے اور قومی اسمبلی جیسے معتبر پلیٹ فارم پر وزیر داخلہ عزت مآب چوہدری نثار پر الزامات عائد کیے جا چکے ہیں استعفی کی تاخیر کیوں ۔۔۔۔؟

سقوطِ ڈھاکہ ایک ایسی نا خوشگوار ترین یاد کہ جب ہماری کمر ٹوٹی تھی اور سانحہ آرمی پبلک سکول ایک ایسا حادثہ کہ جب طالبان ِ علم ( جو در اصل پاکستانی قوم کے دست و بازو ہیں) کو خون میں نہلا دیا گیا تھا اور اسی طرح کے دیگر سانحات و حادثات سے ہمیں سبق سیکھنا ہو گااور ہمارے ارباب سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پالیسیاں مثبت سمت کی طرف رواں کرنا ہوں گی۔

Mansha Fareedi

Mansha Fareedi

تحریر : منشاء فریدی
چوٹی زیریں ڈیرہ غازیخان
0333-6493056