امیدِ وصل کے عنواں نِکھرنے والے ہیں

امیدِ وصل کے عنواں نِکھرنے والے ہیں
الم نصیب زمانے گزرنے والے ہیں

یہ تاجرانِ ہوس کٹ کے مرنے والے ہیں
شُنید ہے کہ سیاہ بادلوں کے پردے سے

زمیں پہ تازہ صحیفے اُترنے والے ہیں
ڈھلے ہی جاتے ہیں رنج و اَلم کے سب موسم

امیدِ وصل کے عنواں نِکھرنے والے ہیں
مہک رہی ہے ہوا عنبریں فضائیں ہیں

حریمِ ناز میں گیسو سنورنے والے ہیں
ہوائے جبر تیرے بازوئوں کے حلقے سے

شکستہ جِسم نکل کر بکھرنے والے ہیں
ادائے ساحلِ ہستی سے ہم بھی گھبرا کے

سمندروں کی تہوں میں اُترنے والے ہیں

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر: ساحل منیر