آپریشن شیر دل کا کمسن شیر دل ہیرو

 Pakistan

Pakistan

تحریر : ایمان ملک
اگر آپ کو کبھی میانوالی، چشمہ بیراج اور ڈی آئی خان والے علاقوں کی طرف سفر کرنے کا موقع ملا ہو تو آپ کو مرکزی سڑک کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے بہت سی ایسی قبریں ملیں گی جن پر پاکستان کا قومی پرچم لہرا رہا ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر ہمیں راولپنڈی سے چکوال جانے والی جی ٹی روڈ پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہی عالم پاکستان کے دیگر شہروں اورقصبوں کا بھی ہے۔ جسکے چشم دید گواہ آپ میں سے متعدد لوگ ہوں گے جنہیں ان راستوں پر سفر کرنے کا گزشتہ چھ سات سالوں میں یقیناً موقع ملا ہو گا۔ مرکزی سڑکوں کے علاوہ ان شہروں اور دیہاتوں کے وسط میں بھی ایسے قبرستان موجود ہیں جہاں ایسی لاتعداد قبریں حالیہ آٹھ نو سالوں میں بنیں ہیں۔

یہ قبریں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانی والی حالیہ جنگ میں پاک فوج کے نوجوان شہید افسران اور سپاہیوں کی ہیں۔ واضح رہے کہ اتنی قبریں ہمیں سنہ 1965ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں بھی دکھائی نہیں دی تھیں جتنی اس دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں جابجا نظر آنے لگیں ہیں۔ اور یقیناً پورے پاکستان میں پھیلی ہمارے نوجوان فوجیوں کی یہ قبریں اس ڈو مور مطالبے کی قلعی کھول کر رکھنے کے لئے کافی ہیں جو ہم سے اکثر و بیشتر عالمی قوتوں کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔
گو کہ آج ہمارا ملک کامیابی سے امن و آشتی کے راستے کی جانب رواں دواں ہے مگر اس امن کو پانے کے لئے ہم نے گزشتہ دو دہائیوں سے بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ جس کے نتیجے میں بے شمار ماؤں کی گودیں اجڑیں، بہت سی بہنیں اپنے بھائیوں کے پیار سے محروم ہو گئیں اور بہت سے بچے یتیم اور خواتین بیوہ ہوئیں۔ تب جا کر کہیں ہمارے ملک میں امن لوٹا ہے۔

یہ امن ہمیں ہمارے شہداء کے پاک لہو کی بدولت نصیب ہوا ہے۔ جنہوں نےعوام کی طرف بڑھنے والے ہر خطرے، الغرض ہر گولی،ہرخودکش بمبار کو اپنے سینے پیش کر کے روکا۔ خوش قسمتی سے ہماری سرزمین ایسے لازاوال جذبوں کے امین نڈر سپوتوں سے بھری پڑی ہے کہ جن کے اپنے لواحقین اور خاندانوں کی جھولیوں میں آج ماسوائے آنسوؤں اور تاریکیوں کے کچھ نہیں بچا، مگر پھر بھی انہوں نے اپنے ایک بیٹے کی شہادت کے بعد اپنے دوسرے بیٹے کو بھی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں لڑنے کے لئے پیش کر دیا۔

ایسی ہی دلوں کو موہ لینے والی ایک کہانی پاک فوج کے بائیس سال کے شہید نوجوان آفیسرلیفٹیننٹ فیض سلطان ملک شہید کی بھی ہے۔ جن کے والد کو جب جی ایچ کیو(جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی) سے مطلع کیا گیا کہ انکا بیٹا شہید ہو گیا ہے اور مزید جب ان سے استفسار کیا گیا کہ انکا جسد خاکی کہاں لایا جائے تو انہوں نے ان تاریخی الفاظ کے ساتھ پاکستان کی عسکری تاریخ میں خود کو سنہری حروف میں محفوظ کر لیا، “کہ اگر میرے بیٹے کے سینے پر گولیاں ہیں تو اسے چکوال لے آؤ اوراگراس کی پیٹھ پر گولیاں ہیں تواسے وہیں چھوڑ دو”۔ (بعد ازاں اس بہادر باپ کی یہی بات دیگر بہت سے پاک آرمی کے آفیسرز کے لئے نہ صرف باعث تقلید و تحریم بنی جس میں لیفٹیننٹ فیض کے اپنے کورس میٹ کیپٹن سلمان سرور شہید بھی شامل ہیں جن کی شہادت فیض کی شہادت کے پانچ سال بعد یعنی سنہ 2014ء میں ہوئی، بلکہ اس بات نے پاکستان کے اس حربی بیانیے کو بھی وضع کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے)۔بہرحال لیفٹنینٹ فیض شہید کے والد کی یہ بات سن کر جی ایچ کیو کے اہلکاران نے انہیں آگاہ کیا کہ “مبارک ہو سر! آپ کے بیٹے کے سینے پر بائیس گولیاں لگی ہیں اور انہوں نے 35 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا ہے۔”

مزید براں یہ بات بھی نہایت قابلِ ستائش ہے کہ پاکستان کے اس جری بیٹے نے شرپسندوں کو شکست دے کر ان دو سنگلاخ پہاڑوں یعنی “سر قمر اور زرے سر” پر بھی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم کامیابی سے لہرایا جن کے ذریعے شر پسند پوری مہمند ایجنسی کا کنٹرول سنبھالتے تھے۔علاوہ ازیں،پاک فوج کے اس شیر دل آفیسر نے اپنی زیر قیادت لڑنے والے سپاہیوں کی بھی آگے بڑھ کر نہ صرف دلیرانہ راہنمائی کی بلکہ اپنے ایک زخمی سپاہی یسین کو بھی خود اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر پہاڑ سے نیچے لائے جس نے بعد ازاں پشاور سی ایم ایچ میں جام شہادت نوش کیا۔
اور یہاں یہ بات بھی آپ کے گوش گزار کرنا نہایت ضروری امر ہوگا کہ 11 جون سنہ2009ءمیں شیر دل آپریشن کے دوران شہید ہونے والے اس کمسن آفیسر نے دو دنوں سے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا کیونکہ تب مہمند ایجنسی میں نامساعد حالات کے پیش نظر( فوڈ سپلائی) خوراک کی ترسیل بھی بند تھی۔

لیفٹیننٹ فیض کم عمری سے ہی اپنے ملک اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور ان کے سامنے روز قیامت سرخرو ہونے کے متمنی تھے۔ جسکا اظہار ایک بار انہوں نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے ان الفاظ میں کیا، “کہ جب حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے حضور حاضر ہونگے تو اللہ تعالٰی انہیں بولیں گے”ویلڈن جناح” اور جب میں جاؤں تو میری خواہش ہے کہ مجھے چلو یہ نہ بولیں کہ ویلڈن فیض مگر اتنا تو ضرور کہیں، ویل ایٹمپٹڈ فیض!”۔ لیفٹیننٹ فیض کی خواہش کیسی پوری نہ ہوتی، ان کی والدہ جو ہمیشہ اپنے بیٹے کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ لیفٹیننٹ فیض کی والدہ اپنے بیٹے کی شہادت کے آٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے وہ الفاظ بھول نہیں پائیں جو انہوں نے اپنی شہادت سے ایک رات قبل اپنی والدہ سے آخری فون کال میں کہے، “امی جان آپ ایک فوجی کی بہو ہیں، ایک فوجی کی بیوی ہیں اور ایک فوجی کی ماں ہیں، اگر آپ میرے بارے میں کوئی ایسی ویسی خبر سنیں تو صبر کا پہاڑ بن جانا”۔

لیفٹیننٹ فیض کی والدہ نے اپنے بڑے بیٹے کے انہی الفاظ کی لاج کیا خوب نبھائی کہ اپنے واحد چھوٹے بیٹے کو بھی پاک فوج میں بھیج دیا۔ اور آج وہ (کیپٹن حبیب سلطان ملک) اس وقت بھی (عید پر) خیبر ایجنسی کی پہاڑوں پر اپنی ڈیوٹی پر نہ صرف موجود ہیں بلکہ اپنے بھائی ہی کی یونٹ میں انکی شاندارعسکری تاریخ کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس کامنہ بولتاثبوت8جون سنہ2014ءکو کراچی میں جناح انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر ہونے والےاسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے شرپسندوں کا حملہ ہے۔ جس میں نمایاں کرادار لیفٹیننٹ فیض سلطان ملک شہید کے چھوٹے بھائی کیپٹن حبیب نے 10 میں سے 4 شرپسندوں کو واصل جہنم کر کےادا کیا۔

یہ تو تھی ان بے شمار شہداء کے گھرانوں میں سے ایک عسکری گھرانے کی کہانی جواس ملک کے دفاع کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔اور اس ملک سے جڑی اپنی اپنی ذمہ داریاں نہایت احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ اور بلا شبہ جن کے نوجوان بیٹوں کی پورے ملک میں موجود سبز ہلالی پرچموں سے سجی قبروں نے موتی بن کر ہمیں اتحاد کے رشتے میں اس وقت پروئے رکھا جب پاکستان دشمن قوتوں نے ہر طرح سے پاکستان کی سلامیت پر پے در پے وار کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔

المختصرہمارے سکون و آرام کی خاطر آرمی کانوائے کے ہمراہ صدقہ گاڑیوں(فوجی اصطلاح) میں سفر کرنے والے لیفٹیننٹ فیض سلطان ملک شہید ستارہ بسالت جیسے بے شمار نوجوان آفیسرز اور سپاہی ان چند ایک سالوں میں اس قوم کے صدقے میں چلے گئے۔ لہٰذا اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اپنی اپنی جگہ اس ملک سے متعلق اپنے فرائض کو نہ صرف پہچانیں بلکہ انہیں بخوبی سرانجام دینے کے لئے کوئی بھی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ کیونکہ واضح رہے کہ ہمارا وجود اور ہمارے آنے والے نسلوں کا مستقبل، صرف اورصرف پاکستان کی بقاء اور سالمیت سے منسلک ہے۔ اور کوئی بھی چیز پاکستان سے زیادہ ہمیں ہرگز مقدم نہیں ہونی چاہیئے۔

تحریر : ایمان ملک