روزنامہ کشمیر ایکپریس کی پندرویں سالگرہ

Newspaper

Newspaper

تحریر : میر افسر امان
ویسے تو ایک کشمیری ہونے کے ناطے مجھے کشمیر سے شائع ہونے والی تمام کشمیری اخبارات سے دلی محبت ہے۔ میں روزانہ نیٹ پر کشمیر کے اخبارات کھول کر دیکھتا ہوں۔ کشمیری اخبارات سے محبت کا اظہار میں نے کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ میں نے کشمیر کے سارے اخبارات کے لوگو کا پرنٹ نکال کر اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا تھا۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ جس سے آپ کو زیادہ فاہدہ ہوتا ہے آپ اُسے دوسروں سے زیادہ ہی چاہتے ہیں۔ میری روز نامہ کشمیر ایکپریس مظفر آباد سے زیادہ محبت کی وجہ میرے مضامین کا ٢٠١٠ء سے تسلسل سے شائع ہونا ہے۔ میں نے اپنی ذاتی لائبریری میں کشمیر پر کتابوں کا ایک الگ شیلف بنایا ہوا ہے۔میرے اس کشمیر شیلف میں کشمیر کی تاریخ اور کشمیر ی مسلمانوں پر ہندو بنیے کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ میں حالات حاضرہ اور اسلامی تاریخ ، دوقومی نظریہ، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر پر زیادہ مضمون لکھتا ہوں۔

میری کشمیر ایکپریس سے محبت کی وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی بھی مضمون ایسا نہیں ہے جو کشمیر ایکپریس میں شائع ہونے سے رہ گیا ہو۔یہ کشمیر ایکپریس کی کشمیریوں، پاکستان ، اسلامی تاریخ اور دو قومی نظریہ سے محبت کا مظہر ہے۔ میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ کشمیر ایکپریس مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پرغاصب، قابض، دہشت گرد، بے انصاف، اپنے بین الاقوامی وعدوں سے منحرف ہونے والے ہندو بنیے کے مظالم کی خبریں نہ صرف آزاد کشمیر،پاکستان، بیرون ممالک رہائش پذیر کشمیریوں ،بلکہ دنیا کی تمام قوموں تک پہنچاتا ہے۔ کشمیر ایکپریس اپنے کامیابیوں کے چودہ سال مکمل کر چکا ہے۔ آنے والی پندرہ اپریل سے اپنی پندرویں سالگرہ کی تقریبات شروع کر رہا ہے۔ میں اس خوشی کے موقعہ پر کشمیر ایکپریس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔

کشمیر ایکپریس سے میرا رابطہ تقریباً ٢٠١٠ء سے شروع ہوا تھا جب میں نے اپنے مضامین اس کو ای میل کرنا شروع کیے تھے۔ اسی وقت سے کشمیر ایکپریس میں میرے مضامین تسلسل شائع ہو رہے ہیں۔کشمیر ایکپریس ہر وقت نیٹ پر دستیاب رہتا ہے۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ کشمیر ایکپریس نیٹ پر فوراً کھل جاتا ہے جس سے آسانی سے خبریں، کالم نگاروں کے کالم اور تجزیے پڑھے جا سکتے ہیں۔کشمیر ایکپریس کشمیر کا اخبار ہے اس لیے اس میں بنیادی طور پرکشمیر ہی سے متعلق خبریں چھپتی ہیں۔ بیرون کشمیریوں کے لیے ایک پورا صفحہ مختص ہے۔ جس میں دیارغیر میں رہنے والے ہمارے کشمیری بھائیوں کے شب روز کی خبریں شائع ہوتیں ہیں۔ کیوں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور شہ رگ کی حفاظت کے بغیر جسم قائم نہیں رہ سکتا لہٰذا پاکستان بھر کی خبریں کشمیرایکپریس میں وافر مقدار میں شائع ہوتیں ہیں۔ صاحبو! ہماری کشمیری قوم کی تاریخ دکھوںاور مصیبتوں سے بھری پڑی ہے۔دنیا کی شاید ہی کوئی بھی ایسی قوم نہیں جس پرقوم پر اتنے مظالم ہوئے ہوں جتنے کشمیری قوم پر ہوئے ہیں۔

Muslims

Muslims

جب مسلمان صرف اور صرف مسلمان تھے تو اس وقت مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے جس میں کشمیر بھی شامل تھا۔ جب مسلمان دشمنوں کے ایجاد کردہ مادیت سے بھر پور نظریات کی طرف راغب ہوئے توٹکڑوں میں بٹ گئے۔ قومیت، لبرازم اور سوشلزم کے نظریات نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا۔ ہمارے نزدیک یہی کشمیر کے مصاحب میں اضافے کا سبب ہے۔پہلے ہمارے ازلی صلیبی دشمن، انگریزوں نے ہمیںچندنانک شاہی سکوں کے عوض ڈوگروں کے ہاتھوں فروخت کیا تھا جس کو شاعر اسلام اقبال نے کشمیر کا دُکھڑا بیان کرتے ہوئے اس انداز میں ایک تاریخی بیان د یا تھاکہ”قومے فروختم وچے ارزاں فروختم” یہ کلنک کا ٹیکہ تاریخ عالم میںصلیبیوں پر ہمیشہ لگا رہے گا اور رہتی دنیا تک لو گ اسے کوستے رہیں گے۔

بعد میںایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو ان ہی صلیبی دشمنوں نے کشمیر سے ایک اور ظلم کیا اور بھارت کو گرداس پور مسلم آبادی والا ضلع دے کر کشمیر کے جسم میں چھرا کھونپا تھا۔ بھارت طرف اسی زمینی درہ دنیال کے راستے سے کشمیر میں داخل ہو سکتا ہے۔ کشمیر کے باقی سارے زمینی راستے پاکستان سے ہو کر جاتے ہیں۔کشمیری پہلے ڈوگروں حکمرانوںکے مظالم سہتے رہے جس کی ایک بھی پوری تاریخ ہے اور اب بھارتی درندوں کے مظالم کا شکار ہیں۔ میں اپنی کشمیری قوم کے کون کون سے دکھوں کا ذکر کروں۔تقریباً پانچ لاکھ کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔

دس ہزار کشمیر کی عزت مآب خواتین سے ہندو درندہ فوج نے اجتماعی آبروزیزی کی ہے۔ کھربوں کی پراپرٹیز کو گن پائوڈر چھڑک کر زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں نو جوانوں کو بھارت جیلوں میں قید کے دوران آپاہج بنا دیا گیا۔ اگرمسنگ پرسن کا ذکرکروں تو ہزاروں نوجوانوں کو غائب کر دیا گیا جن کی آج تک نہ لاشیں دیں گئیں نہ انکا کوئی اتہ پتہ بتایا جارہا۔ ٣٨مقامات پر کشمیریوں کی اجتما عی گمنام قبروں کی دریافت سے ہندوستان کا مکروہ چہرہ اور بھارتی فوج کا بھیانک کردار سامنے آچکا ہے۔ کشمیریوں کی مقدس مقامات کی بیحرمتی کی گئی جس میں حضرت بل مشہور ہے۔لاتعداد کشمیریوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا جوپاکستان یا دنیا کے مختلف ملکوں میں ہجرت کی زندگی گزار رہے ان کی آنکھیں جنت نذیر کشمیر کی طرف لگ ہوئی ہیں کہ کب اپنے وطن میں جائیں گے۔ کشمیریوں کی کھیتی باڑ ی اورفروٹ کے باغات کو بلڈوزر چلا کر تباہ برباد کر دیا گیا ہے۔

Kashmir Black Day

Kashmir Black Day

ظلم کی انتہا یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی محاذ پر آ ج تک آٹھ لاکھ فوج نہیں لگائی ہے جو بھارت نے کشمیر کے نہتے مظلوم لوگوں کی آزادی کو دبانے کی لیے لگائی ہوئی ہے۔کشمیر کا کوئی بھی گھر ایسا نہیں جس کی اگروا دی (مجائدین) کے بہانے تلاشی نہ لی گئی ہو۔ تلاشی کے دوران گھر کے مرد و خواتین کو کئی کئی گھنٹے گھر سے باہر سردی میں کھڑا رکھ کر انسانیت کی تزلیل نہ کی نہ کی گئی ہو۔ سری نگر میں شہیدوں کے قبرستان پر قبرستان بن گئے ہیں۔ یہ قبرستان گواہی دے رہے ہیں کہ ایک نہ ایک دن جنت نذیرکشمیر آزاد ہو گا۔ بھارت جو خود اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست لے کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ سے وعدہ کیا تھا کہ امن قائم ہونے کے بعد کشمیر میں استصواب رائے کرائے گا۔

مگر ہندو بنیا اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے اور پورے نہیں کر رہا ہے۔ کشمیری سری نگر میں روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے جھنڈے لہرا لہرا کر اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ کشمیر یوں کا ایک ہی نعرہ ہے ” ہم کیا چاہتے ہیں آزادی آزادی” آزادی کے لیے کشمیریوں کا عزم دیکھیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر آئر لینڈ سو سال جد و جہد کے بعد آزاد ہوا ہے تو ہم دو سو سال تک کشمیر کی آزادی کی تحریک چلاتے رہیںگے۔ انشاہ اللہ پاکستان کے عوام اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جد و جہد میں ان کے ساتھ ہیں۔

نہ جانے اقوام متحدہ جس کے ایجنڈے پر استصواب رائے کی قراردادیں اب تک موجود ہیں کب جاگتی ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے۔روز نامہ کشمیر ایکپریس مظفر آباد جو اپنے چودہ سال کی اشاعت کے دوران کشمیر کا مقدمہ جس بہادری سے لڑتارہا ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ آئندہ بھی کشمیر کا مقدمہ لڑتا رہے گا۔ اب جب کشمیر ایکپریس اپنی پندرویں سالگرہ منا رہا ہے تو تمام دنیا کے کشمیری اور ہم ان کی خوشی میں برابر کے شریک ہیں۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ روز نامہ کشمیر ایکپریس مظفر آباد کو دن دگنی رات چگنی ترقی سے نوازے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان