جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ

Students

Students

تحریر : کامران غنی صبا
”کسی پانچ ایسے افراد کے نام لکھیں جنہیں آپ بہت پسند کرتے ہوں، یہ بھی بتائیں کہ آپ انہیں کیوں پسند کرتے ہیں؟”۔ اس سوال کا جواب لکھتے ہوئے طلبہ و طالبات کی دلچسپی دیکھنے لائق تھی۔ کچھ ہی دیر میں سبھی طلبہ و طالبات کے جواب تیار ہو چکے تھے۔ زیادہ تر بچوں نے پہلے مقام پر اپنی ماں کا نام لکھا تھا۔ دوسری ، تیسری، چوتھی اور پانچویں پوزیشن باپ، استاد، رشتہ دار ، دوست یا کسی پڑوسی کو دی گئی تھی۔ پسندیدگی کی وجہ تقریباً ایک جیسی تھی:
٭ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔

٭بہت با اخلاق ہیں۔
٭لوگوں کے دکھ درد میں کام آتے ہیں۔
٭ سچائی پسند ہیں۔
٭ ایماندار ہیں ۔وغیرہ وغیرہ

پسندیدہ شخصیات کے متعلق کسی بچے نے یہ نہیں لکھا تھا کہ وہ بہت تعلیم یافتہ ہیں، بہت مذہبی ہیں، بہت بڑے شاعر، ادیب، مقرر، معلم، صحافی، سیاست داں ، عالم یا مقرر ہیں۔ میں نے ایک بار پھر سے پسندیدہ شخصیات کے ناموں پر ٹھہر ٹھہر کر غور کرنا شروع کیا۔ ان میں اکثر ایسے لوگ تھے جن سے میں اچھی طرح واقف تھا۔ کچھ ان میں ایسی ہستیاں بھی تھیں جو واقعی بہت تعلیم یافتہ تھیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی فہرست میں شامل تھے جن کے مذہبی ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن بچوں نے کہیں بھی ان کی تعلیمی لیاقات یا مذہبی اور سیاسی اثر و رسوخ کا حوالہ نہیں دیا تھا۔ بچے فطرت سے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ان کی پسند و ناپسند بالکل فطری ہوتی ہے۔ ان کا تعلق مفادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ خلوص اور محبت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

بچوں کے ذریعہ پسندیدگی کا معیار میری نظروں کے سامنے تھا۔ اسکول سے چھٹی کے بعد گھر آ کر میں دیر تک بچوں کے جوابات کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ میرے ذہن کے پردے پر پیارے رسولۖ کی حدیث ابھرنے لگی ” یقینا تم میں بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔”(بخاری شریف)۔ آپ ۖ نے تو یہاں تک بشارت دے دی کہ ” قیامت کے دن میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی۔” (ترمذی شریف)۔ بچوں کے جوابات کی کاپیوں پر ان کے جوابات کے بجائے اخلاقیات سے متعلق بے شمار احادیث کے الفاظ ابھرنے لگے۔ آج بچوں نے مجھے انسان کی عظمت کا اصل سبب سمجھا دیا تھا۔ ہم علم، شہرت، عہدہ اور دولت کا سہارا لے کر مقبولِ خاص و عام ہونے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ مقبولیت کا خزانہ صرف اور صرف اخلاق کی کلید سے ہی کھل سکتا ہے لیکن افسوس کہ اخلاقی قدریں منبر و محراب، وعظ و نصیحت، مذہبی کتب یا فیس بک اسٹیٹس تک محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ عملی زندگی میں اخلاق محض ایک رسم ہے جو ملاقات پر مسکراکر مصافحہ کر لینے یا چند ستائشی جملوں سے شروع ہوتی ہے اور take care جیسے رسمی جملے پر ختم ہو جاتی ہے۔

امریکہ کی کورنل یونیورسٹی میں ایک تجربہ کیا گیا۔ تجربے میں یونیورسٹی کے کچھ طلبہ سے سوال پوچھا گیا کہ اگر آپ ‘اخلاقی مخمصے’ (Ethical dilemma) میں گرفتار ہوں تو کیا کریں گے۔(اخلاقی مخمصہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے ۔ جس میں ہمیں اخلاقی بنیاد پر دو میں سے کوئی ایک فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا کوئی دوست آپ سے ہوم ورک نقل کرنے کو کہتا ہے تب آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسے ہوم ورک نقل کرنے دیں یا استاد سے اس کی شکایت کریں۔) زیادہ تر طلبہ نے جواب دیا کہ وہ اپنا نقصان برداشت کریں گے اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کریں گے لیکن جب عملی طور پر ان کے سامنے ایسی صورت حال پیدا کی گئی تو ان کے قول و فعل میں زبردست تضاد پایا گیا۔ اس تجربہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ جو لوگ اپنی زبان سے بہت ہی با اخلاق نظر آتے ہوں وہ عملی زندگی میں بھی اتنے ہی بااخلاق ہوں۔ جب ہم رسول کریمۖ اور اصحاب رسول ۖ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے یہاں اخلاق، قولی سے زیادہ عملی طور پر نظر آتا ہے۔

ہجرت کا واقعہ پڑھیے ۔انصارِ مدینہ نے اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ ایثار و قربانی کا جو مظاہرہ پیش کیا اُس کی نظیر دنیا کی کسی قوم اورکسی تہذیب میں نہیں ملتی۔ انصار مدینہ نے اپنے گھر اور اپنی جائداد کا نصف حصہ خود اپنی مرضی سے مہاجرین کے حوالے کر دیا۔ حد تو یہ ہے کہ جن کی زوجیت میں دو عورتیں تھیں انہوں نے ایک کو طلاق دے کر اسے اپنے دینی بھائی کے نکاح میں دے دیا۔ دوسری جانب مہاجرین کی اخلاقی خود داری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے انصار بھائیوں سے کہتے تھے کہ مجھے کھیت یا بازار کا راستہ دکھا دو ، ہم کھیتی یا مزدوری کر کے اپنا گزارا کر لیں گے۔

رسول کریمۖ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کی سب سے اہم وجہ وہ اخلاق کریمانہ تھے جس نے جادو کی طرح لوگوں کے دلوں پر اثر کیا۔ آج اسکول اور کالجوں میں Moral Science ایک علاحدہ سبجیکٹ کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود طلبہ و طالبات اخلاقی قدروں سے نابلد ہیں۔اساتذہ اور والدین شکایت کرتے ہیں کہ بچے اُن کا ادب نہیں کرتے۔ بچے کتابوں سے کہیں زیادہ اپنے گھر اور ماحول سے سیکھتے ہیں۔ وہ ہمارا ادب تبھی کریں گے جب ہم اپنی شخصیت کو آئینے کی طرح صاف اور اکہرا بنائیں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بچے جن کا ادب نہیں کرتے وہ بڑوں میں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے یہ اور بات ہے کہ سماجی حیثیت یا ذاتی مفادات کی وجہ سے ہم کچھ لوگوں کو برا جانتے ہوئے بھی برا کہنے سے گریز کرتے ہیں لیکن بچوں کی آنکھوں میں نظر آنے والا چہرا ہی اصل چہرا ہوتا ہے۔

Kamran Ghani Saba

Kamran Ghani Saba

تحریر : کامران غنی صبا