سب کے حلق کی ہڈی

Pakistan Forces

Pakistan Forces

افواج پاکستان کا ہر سپاہی اور افسرآئین پاکستان سے وفاداری اور تحفظ پاکستان کیلئے اپنا تن من دھن اور چین و سکون تک قربان کرنے کے حلف کے ساتھ اس منظم ادارے میں شمولیت اختیار کرتا ہے اور پھر وہ تازندگی اس حلف کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے تمام صعوبتیں مشکلات اور خطرات کا دیوانہ وار مقابلہ کرتا ہے مگر بسا اوقات حالات افواج پاکستان کو اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں اس کیلئے آئین اور پاکستان دونوں سے بیک وقت وفاداری نبھانا اور دونوں کا بیک وقت تحفظ کرنا ممکن نہیں رہتا ان حالات میں فوج ریاست کے تحفظ کو ترجیح دیتی ہے جس پر ایسے حالات پیدا کرنے والے فوج پر بڑے الزامات لگاتے ہیں مگر فوج ان تمام الزامات کو حوصلے سے سہہ جاتی ہے۔

یہی کچھ 12 اکتوبر 1999ء کو ہوا مگر مشرف کو 12 اکتوبر کے اقدام پر مجبور کرنے والے حالات کے ذمہ داران اقتدار مشرف کے دورمیں عوام کو حاصل امن تحفظ و خوشحالی اور قومی و ملکی ترقی کو نظر انداز کر کے فوج پر الزامات کی روایت پر کمربستہ و مشرف کو غدار قرار دلانے کیلئے بے چین ہیں تاکہ مشرف کو نشان عبرت بناکر آئندہ کیلئے فوج کو اپنی مرضی کی سمت چلای اور ہانکا جاسکے مگر ان کا یہ طرز عمل کسی بھی طور جمہوریت کے مستقبل کیلئے نیک و سعد نہیں ہے کیونکہ جمہوریت کا مقصد ہی مساوات اور انصاف ہوتا ہے اور ان اصولوں سے انحراف آمریت کا سبب بنتا ہے مگر سیاستدانوں کو کیا پتا کہ آمریت سے جمہوریت تک کا سفر کس قدر مشکل ‘کٹھن اور تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ سیاستدانوں نے تو ہمیشہ محض جمہوریت کیخلاف چلنے والی مہم کی محض سربراہی و رہنمائی ہی کی ہے آمریت کیخلاف جدوجہد میں ریاستی طاقت کا عذاب صرف عوام نے سہا ہے اور جمہوریت کے حصول کیلئے خوں بہانے کے ساتھ گھر بھی لٹایا ہے۔ اسلئے جمہوریت کیلئے لہو بہانے والی عوام نہیں چاہتی کہ ایک بار پھر سیاستدانوں کی کوتاہیوں اور مفاد پرستی و منافقت کے باعث قوم کو جمہوریت کی چھاؤں سے نکل کر آمریت کے جھلستے صحرا سے گزرنا پڑے جبکہ ”سب کا یکساں احتساب ہی آمریت کی راستہ روک سکتا ہے اور انتقامی و اختیارات کی سیاست اور استحصالی طبقات کے تحفظ کی روایت وطن عزیز کے عوام کو ایکبار پھر آمریت کی جانب دھکیل سکتی ہے۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

بقول عاصمہ جہانگیر انصاف و مساوات کے اصول نظر انداز کئے گئے تو جمہوریت زیادہ دیر نہیں چلے اور اب کی بار کوئی آمر آیا تو 20 سال تک نہیں جائے گا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کا آئین اور قوانین کسی بھی فرد پر جرم سے قبل اسے مجرم کہنے کی اجازت نہیں دیتے مگر سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کیخلاف حکومت کی جانب سے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ غداری سے قبل ہی مخصوص طبقات نے مشرف کو علی الاعلان غدار پکارنا اور قرار دینا شروع کردیا جس کے باعث ملک تین طبقات میں تقسیم ہو گیا ایک وہ طبقہ جو مشرف کو غدار قرار دینے والوں کے حامی ہیں دوسرے وہ سابق آرمی چیف کے ساتھ روا اس سلوک کو پاکستان کی توہین و تضحیک کا سبب قرار دے رہے ہیں جبکہ تیسرے وہ جو مشرف سیمت تمام آئین شکنوں کے ساتھ یکساں سلوک اور بلا امتیاز احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر یہ بہت حیرت انگیز بات ہے کہ سابق آرمی چیف کے آمرانہ و جمہوری دور حکومت کی گڈ گورننس اور اس دور میں ہونے والی ترقی و معاشی خوشحالی کے ساتھ امن و تحفظ کا ہر طبقہ معترف ہے مگر اعتراف خدمات میں کسی کو آئین توڑنے یا گناہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اسلئے عوام پاکستان کا مطالبہ رہا کہ احتساب ضرور ہونا چاہئے مگر صرف مشرف کا نہیں بلکہ ہر گنہگار اور شریک گناہ کا یکساں احتساب ہونا چاہئے لیکن عوامی خواہشات سے صرف نظر حالات کو اس مقام تک لے آیا ہے جہاں ایک بار پھر اداروں میں تصادم کے خدشات وخطرات کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

سابق فوجی افسران کی تنظیم ”پاکستان فرسٹ” کی تقریب میں شریک سابق عسکری قیادت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو شفاف اور غیر جانبدارانہ ٹرائل کا حق دینے اور غداری کیس خصوصی عدالت کے بجائے ملٹری کورٹ میں چلانے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملٹری کورٹ میں پرویز مشرف نہیں بچ سکیں گے ،جو بھی فیصلہ ہو گا اس پرعملدرآمد کیا جائے لیکن کسی بھی دوسری عدالت کا فیصلہ قبول نہیں کیا جائیگا کیونکہ پرویز مشرف کے خلاف کیس ”جسٹس چودھری مقدمہ”ہے یہ فیصلہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی جانب سے کیا گیا جسے آگے بڑھایا جا رہا ہے جو کسی طور منظور نہیں ہے۔ سابق عسکری قیادت کا کہنا تھا کہ ہم کسی صورت پرویز مشرف کے حامی نہیںبلکہ پاک فوج کے حامی ہیں جبکہ سابق آرمی چیف کو غدار کہہ کر ”خاکی وردی ”کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ہم خاکی وردی کے تقدس کیلئے جان کیلئے ہر وقت تیار تھے اورتیار ہیں اوراگر درست فیصلے نہ کئے گئے تو آنے والے دن حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

قرائن بتا رہے ہیں کہ عجلت پسندی میں مشرف کی آئین شکنی کیخلاف دیئے گئے بیانات اور کئے گئے اقدامات نے اس کیس کو جانبداری مخاصمت اور فوج کو نکیل ڈالنے کی نیت کارنگ دے دیا ہے جو یقینا ملک و قوم اور بالخصوص جمہوریت کے مستقبل کیلئے سودمند نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال میں قرائن جو منظر کشی کر رہے ہیں اس سے محب وطن افراد کے اذہان میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ کیا پاکستان کی سیاست کسی نئی محاذ آرائی کی متحمل ہوسکتی ہے تو اس سوال کا جواب صرف نفی میں ہی ہے۔ ریاست ‘ سیاست ‘ حکومت اور جمہوریت کوجو مسائل درپیش اور خطرات لاحق ہیں وہ محاذ آرائی کے بجائے قومی مفاہمت کا تقاضہ کر رہے ہیں جس کا ادراک ہمارے روایتی سیاستدان کسی طور کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

Pakistan Media

Pakistan Media

حکومت روایتی سیاستدانوں اور میڈیا سمیت دیگر عناصر جو بے لگام گھوڑے کی مانند ہوچکے ہیں ان سب کی مشترکہ خواہش وکوشش یہی ہے کہ پرویز مشرف کو کسی ڈیل کے تحت اسی طرح بیرون ملک بھیج دیا جائے جس طرح نواز شریف پاکستان سے چلے گئے تھے تاکہ ہمیشہ کیلئے پرویز مشرف کی سیاسی موت ہوجائے اور عوام پر یہ ثابت کیا جاسکے کہ صرف حکمران اور سیاستدان ہی نہیں بلکہ فوج اور ا س کا جرنیل بھی ملک کو نقصان پہنچاکر فرار ہوسکتا ہے اور اگر یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو اس ملک کے موجودہ کرپٹ نظامِ جمہوریت وکرپٹ سیاستدانوں کو تقویت تو ملے گی ہی فوج بھی ہمیشہ کیلئے بند گلی میں مقید ہوجائے گی کیونکہ آنے والی نسلیں اس بات کی قائل ہوجائیں گی کہ صرف سیاستدان ہی آئین و قانون کے محافظ ہوسکتے ہیں جبکہ فوج کے سربراہ کی حب الوطنی مشکوک ہوتی ہے اور اسلئے وہ بھی غدار ہوسکتا ہے ! پاکستان میں اگر قانون کی حقیقی حکمرانی ہوتی تو صرف ایک شخصیت کے احتساب کی بجائے 1990 کے انتخابات میں خفیہ اداروں سے رقوم لینے کے مجرم بھی ثابت ہو جانے والوں سمیت ٹیکس چوری سے لیکر منی لانڈرنگ اور قرض واپس نہ کر کے ڈیفالٹر کہلانیوالوں کا بھی احتساب ہوتا’ بہت سے سیاستدان ہمیشہ کیلئے نا اہل قرار دیکر موجودہ سیاسی نظام سے باہر ہوچکے ہوتے مگر ہمارے نظام کی خامیاں انہیں بچالیتی ہیں۔ نانصافیوں ‘ تعصبات اور استحصال کی خامیوں سے مزین ہمارا نظام آئین شکنی پرسابق سربراہ عساکر جنرل (ر)پرویز مشرف کو سزا دینے اور اس کی پیشانی پر غداری کا ٹھپہ لگانے کیلئے تو بیتاب دکھائی دے رہا ہے مگر ملک و قوم سے غداری کرنے والوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہوئے انہیں محفوظ بنانے میں معاون کردار ادا کر رہا ہے۔

آرٹیکل 6 کا سہارا لیکر 12 اکتوبر 1999ء کو جمہوری حکومت کی رخصتی کے جرم کو نظر انداز کر کے 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی اور اقدامات پر مشرف پر مقدمہ غداری کے مقدمہ کا مقصد اس سیاسی اشرافیہ کو بچانا ہے جو اپنے مفادات کیلئے فوج کو جمہوریت پر شبخون کی دعوت دیتی اس کیلئے راہیں ہموار کرتی اور آمریت میں معاونت کرت دکھائی دیتی ہے اور پھر اپنے مفادات کیلئے اسی آمریت کیخلاف عوام کو اکساتی اور اس کیخلاف تحریک چلاتی رہی ہے۔

سابق آرمی چیف کیلئے عدالتی فیصلے سے قبل غدار کا لفظ استعمال کر نے والوں کی عاقبت نا اندیشی کے باعث پیدا ہونے والی صوتحال نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ پرویز مشرف کیس پر شور و واویلہ مچانے کا مقصد فوج کو خوفزدہ کر کے حساس ایشوز پر فوج کی گرفت کمزور کر نے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں! قومی صورتحال ملکی حالات اور اندرونی وبیرونی سازشوں کے باوجود اگر ہر حال میں صرف خاکی وردی کو ٹارگیٹ کرنے کا تاثر جلد ختم نہیں کیا گیا تو قومی بقا و سلامتی کو شدید دھچکا پہنچنے کا امکان بھی ہے اور جمہوریت کیلئے خطرات بھی بدرجہ اُتم موجود ہیں۔

Court

Court

اسلئے ضروری ہے کہ مشرف پر قائم مقدمہ غداری کے ساتھ عدالتوں میں پہلے سے موجود تمام سیاستدانوں کے بھی تمام مقدمات کھولے جائیں اور گنہگاروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر انصاف کے اظہار کے ذریعے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا جاسکے اور فوج کو بھی یہ محسوس ہوکہ آئین وقانون کا کھیل فوج کیخلاف نہیں کھیلا جارہا بلکہ اس کا مقصد ملک و قوم کو مستقبل میں ”دشمنوں اور لٹیروں ”سے محفوظ بنانا ہے تو پھر یقینا فوج بھی مشرف سمیت کسی بھی آئین شکنی کرنے والے کسی جرنیل کے احتساب پر معترض نہیں ہوگی۔

دوسری جانب پرویز مشرف جن رفقاء و مصاحبین اور قانونی ماہرین کے نرغے و گھیرے میں وہ ان کے حصار سے جتنی جلد باہر آجائیں ان کے مستقبل کیلئے اتنا ہی بہتر ہے اورمشرف کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی طور ملک چھوڑ کر نہ جائیں اور قانونی جنگ لڑتے ہوئے عدلیہ میں حاضر ہوکرایک جرأتمند فوجی سربراہ کی طرح اپنا دفاع کریں کیونکہ اب انہیں اپنی بقا کی جنگ نہیں لڑنی بلکہ ایک بار پھر کمانڈو کا کردار ادا کرتے ہوئے افواج پاکستان کے تشخص پاکستان کی سلامتی اور عوام کو ظالمانہ نظام سے محفوظ بنانے کی جنگ پوری دانشمندی ہمت حوصلے اور عزم کے ساتھ لڑنی ہے کیونکہ مشرف کا کیس اب فوج کی عزت و تضحیک اور مورال و مستقبل کے ساتھ پاکستان کی بقا اور اداروں کے استحکام سے جڑ چکا ہے ! جبکہ حکومت کو سیاسی و جمہوری نظام ملکی استحکام فوج کے ناموس و وقار کو محفوظ رکھنے کیلئے آئین شکنی کا یہ مقدمہ پوری دانشمندی و ہوش سے لڑنا ہوگا اور عدلیہ بھی آئینی و قانونی تقاضے نبھاتے ہوئے انصاف و مساوات کے ذریں اصولوں کی روایت کو مزید وسعت دیکر اس تاثر کو زائل کر سکتی ہے کہ انصاف صرف حکمرانوں اور طاقتور و بالادست طبقات کو ہی ملتا ہے کیونکہ آج شاید ہم اس دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں کچھ شخصیات کو بچانے اور کچھ شخصیات کو لٹکانے کی روایت ایک بار پھر اداروں میں تصادم کو جنم دیکر ملکی و قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

Imran Changezi

Imran Changezi

تحریر: عمران چنگیزی