سیاست کون کر سکتا ہے

Politics

Politics

تحریر : وقار احمد اعوان

ویسے اگر کالم یا مضمون پر تنقید یا تنقیص نہ ہو تو سمجھ لیں کہ آپ فضول میں جَک ماررہے ہیں یا پھر دوسرے الفاظ میں کہ آپ کا لکھنا انتہائی فضول مانا جائے گا کیونکہ اتنی محنت کے بعد اگر کسی نے آپ سے کالم یا مضمون بارے کچھ کہہ دیا چاہے آپ کی رائے سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو تو سمجھ لیں آپ کامیاب ہوگئے لیکن اگر آپ نے اپنے مضمون پر خوب محنت بھی کی ہو ،اسے فیس بک پر بھی ڈال دیا ہو اور بوجوہ ان سب کے کوئی لائک کمنٹس نہ ملے تو پھر وہی اوپر والی بات۔جیسے ہمارے گزشتہ روزکے مضمون پر ہمارے دیرینہ دوست مقصود احمد نے بھی ہمیں یاد دلایا کہ سیاست صرف امیروں کا نہیں بلکہ غریبوں کا بھی کام ہے۔

شاید مقصود احمد ہماری رائے کو ٹھیک سے سمجھیں نہ ہوں اس لئے سیدھا سیدھا کہہ گئے کہ سیاست میں غریبوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ امیروں کا ،تو بھائی یقینا سیاست میں نہ صرف امیروں بلکہ غریب کا بھی پوراپورا حق ہے تاہم ان باتوںکو بھی ملحوظ خاص رکھنا موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ سیاست ہوتی کیا ہے؟سیاست کیسے کی جاتی ہے؟اور تیسرا سوال کہ سیاست میں آنے کے لئے کتنے پانی میں ہونا انتہائی ضروری ہے؟ہمیں سیاست میں غریبوں کے آنے پر اعتراض ہرگز نہیں مگر ہمیں تو اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ سیاست میں اس بے چارے کے آنے کا مقصد کیاہے؟کیا وہ اپنے علاقے کی ترقی چاہتاہے یا پھر دوسرے الفاظ میں خود کی۔۔؟کیا اس نے کچھ سو چ رکھا ہے ؟یا پھر فیس بک بھرنے کا ذریعہ ڈھونڈنے نکلا ہے۔۔؟

خیر ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہے،ہو سکتاہے کہ ہمارے ہاں ایسے بے کس و لاچار بھی پائے جاتے ہوں کہ جو سیاست کی رگ رگ سے واقف ہوں تاہم جناب ہمارے اکثریت ایسوںکی ہے کہ جو سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ایسے میں ان کا سیاست میں آنا یقینا بے کار ہوانہ۔لیکن آپ چونکہ ان کے آنے پر بضد ہیں اس لئے آپ کی معلومات کے لئے ایک واقعہ عرض کیے دیتاہوں۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم ایک مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے گھر کی اور آرہے تھے۔

راستے میں پولیس ناکہ تھا جہاں پولیس کانسٹیبل نے ڈرائیور کو گاڑی سائیڈ میں لینے کے لئے کہا ،ڈرائیور نے پولیس والے کے کہنے پر گاڑی سائیڈ میں لی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا،دو چار منٹ بعد ہماری گاڑی کا نمبر آیا ،پولیس کانسٹیبل نے گاڑی کے اندر جھانک کر مسافرو ں پر نظر دوڑانا شروع کی۔اور ہماری قریب والی نشست پر بیٹھے ایک مسافر کو اترنے کے لئے کہا۔ابھی پولیس والے نے اس مسافر کو اشارہ ہی کیا تھا کہ ساتھ بیٹھے دوسرے مسافر نے اپنا تعارف کروانا شروع کردیا کہ میں فلاں حلقے میں فلاں سیاسی جماعت کا عہدیدار ہوں۔

تاہم پولیس کانسٹیبل پر اس مسافر کی باتوںکا کوئی اثر نہیں ہوا اور مسافر کی جامع تلاشی لینا شروع کردی۔ابھی یہ سین چل ہی رہا تھا کہ ایک گاڑی آکر رُکی اور ان میں سے ایک مسافر جسے پہلے چیکنگ کے لئے اُتارا گیا تھا کو نام سے پکارا ،وہ مسافر جلدی سے گاڑی والے کی جانب لپکا ،گاڑی میں بیٹھا شخص اپنی گاڑی سے اُترا ، پولیس والے سے کچھ کہہ کر مذکورہ مسافر کی جان خلاصی کروائی اور چلتا بنا۔پولیس والے نے دونوں مسافروں کو گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت دی اور گاڑی کو جانے دیا۔راستے میں پہلے مسافر نے اپنے ساتھی دوسرے مسافر سے مخاطب ہوکر کہا کہ تم تو ایسے ہی بونگیا مارتے پھرتے ہو کہ میں فلاں ہوں ،فلاں ہوں۔کبھی موقع ملا تو اپنی پوزیشن بتا دوں گا مگر آج تو تمہاری ایک نہ چلی”۔۔دیکھا اگر نواز خان نہ آتے تو میرا تو ہوجاتا نہ خرچہ۔بہرکیف یہ تو ایک واقعہ تھا ،جناب ایسے سینکڑوں واقعات ہمارے اردگر د روزمرہ کی بنیاد پر ہوتے رہتے ہیں۔کہ جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی اوقات دیکھ کر یقینا کام اور باتیں کرنی چاہئیں ورنہ اس مسافر کے جیسے آپ بھی ایک روز اپنا منہ چھپاتے پھریں گے ،کیونکہ لوگوںنے آپ سے جو امیدیں باندھ لی ہونگی اسے آپ پورا کرنے سے یکسر قاصر نظر آئیںگے۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان