سرفروشی کی تمنا

Muhammad Amir

Muhammad Amir

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
وہ اللہ جیسے چاہتا ہے ہدائیت دیتا ہے اور جیسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ وہ لوگ قسمت کے بادشاہ ہوتے ہیں جو غلامی مصطفےٰ ۖمیں زندگیاں بسر کرتے ہیں اور سب سے زیادہ بدنصیب منافق لوگ ہوتے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔کیونکہ کافر لوگ تو ” اسلام کے ازل سے دشمن ہے مگر منافق لوگ اندر سے اسلام کے خلاف جبکہ باہر سے مومن بنتے ہیں ۔ گزشتہ روز خبر ملی کی ” بابری مسجد کو شہید ” کرنے والے نے ” دین فطرت ” کو اپنا کر غلامی مصطفےٰ ۖ کو اپنا لیا ہے۔ اللہ پاک اس اسلامی بھائی پر اپنا خصوصی فضل و کرم عطا فرمائے آمین ۔کتابوں میں لکھا ہے علماء کرام نے بیان کیا ہے مختلف لوگوں نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک آدمی نے ننیانوے قتل کئے اس کو خیال آیا میں توبہ کروں ایک عبادت گزار کے پاس گیااس سے کہنے لگا کہ میں نے 99 ننیانوے قتل کیے ہیں میری توبہ ہو سکتی ہے اس نے کہا نہیں تو ظالم نے تیری توبہ نہیں اس کو بہت غصہ آیااس نے اُس کو بھی قتل کر دیا. اس طرح 100 قتل ہو گئے پھر اس کو خیال آیا میں توبہ کروں،وہ عالم نے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کہ میں نے سو قتل کیے ہیں میری توبہ ہو سکتی ہیاس عالم نے کہا کہ بیٹا کیوں نہیں ہو سکتی میرا رب ایک مثال دیتا ہے کہ میرے بندے تو اتنے گناہ کر کہ زمین کو بھر دے اس خلا کو بھر دے چاند ستاروں کو بھر دے زمین اسمان کے درمیان کو بھر دیزمین کو اٹھا اور آسمان کی چھت کو لگا دیاتنے گناہ کرنے کے بعد تو ایک دفعہ کہ دے کہ یا اللہ معافی دے دیتو اللہ سارے گناہ معاف کر دے گا. اور کوئی پرواہ نہیں ہو گی.

عالم نے کہا کہ بیٹا گناہوں کی معافی یقیناً ہے مگر معافی کے لئے توبہ کا ہونا ضروری ہے. توبہ کرنے کے لیے تجھے یہ بستی چھوڑ کر دوسری بستی میں جانا ہو گا جہاں نیک لوگ رہتے ہیں ان کی صحبت میں تو رہے گاجس سے تیری توبہ ہو جائیگی. اس کے کہا میری معافی پکی ہو جائے مجھے منظور ہے.وہ گھر سے نکلا راستے میں موت آئی موت نے جھٹکا دیا. اس نے چھلانگ لگائی اور آگے جا کر گر گیا. اللہ تعالیٰ نے دونوں فرشتے بھیج دیئے جنت کا بھی آ گیا اور جہنم کا بھی آ گیا. جہنم والے فرشتے نے کہا کہ جہنمی نے اس کو ہتھکڑی لگاو? جنت والے فرشتے نے کہا مہمان نے اس کو سہرے پہناؤ. جہنم والے فرشتے نے کہا کہ ابھی اس کی توبہ ادھوری ہے وہ ابھی نیک لوگو ں کے شہر میں نہیں پہنچا. جنت والے فرشتے نے کہا کہ توبہ نیت سے ہوجاتی ہے ارادہ کر لیا تو بہ قبول ہو جاتی ہے یہ ہمارا مہمان ہے. اللہ نے تیسرا فرشتہ بھیج دیا کہ جا کر فیصلہ کرو کہ یہ نیک لوگو ں کی بستی میں پڑا ہے یا اپنی بستی میں.
اللہ نے حکم دیا کہ فاصلہ ناپ لو اگر گھر کے قریب ہے تو جہنم والے لے جاؤ اور اگر نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہے تو جنت والے لے جاؤ. جب ناپنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کی بستی والی زمین کو کہا کہ سکڑجااور گھر والی زمین کو کہا پھیل جا، ادھر کی زمین کو پھیلا دیا اور ادھر کی زمین کو سکڑ ا دیا. جب ناپہ گیا تو وہ نیک لوگوں کی بستی میں تھا. اللہ تعالیٰ نے کہا اس کو لے جاؤجنتی فرشتے میں نے معاف کر دیا.بات ہو رہی تھی ۔جودھیا میں 25 سال قبل 6 دسمبر 1992ء کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بلبیر سنگھ قبول اسلام کے بعد محمد عامر بن چکا ہے اور اپنے اس فعل کے کفارہ کے طور پر انہوں نے 100 مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا ہے اور اب تک 35 مساجد تعمیر کرا چکے ہیں۔روہتک یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، تاریخ، سیاسیات اور انگریزی میں ایم اے بلبیر سنگھ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اپنے ضمیر کے قیدی بن گئے تھے۔

انہوں نے دل میں ایمان کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنے اس گناہ سے معافی مانگ لی۔ انڈین میڈیا کی رپورٹس محمد عامر کا تعلق ہریانہ کے پانی پت کے ایک گاو¿ں سے ہے۔ ان کے خاندان نے ہجرت کر کے شہر کا رخ کیا۔ حال میں ممبئی سے قریب مالیگاو¿ں کے دوران سفر انہوں نے بتایا کہ بچپن سے وہ آر ایس ایس کی مقامی شاخ سے وابستہ رہے اور پھر شیوسینا میں شمولیت اختیار کر لی۔ بال ٹھاکرے نے انہیں متعارف کرایا تھا۔ محمد عامر کا کہنا ہے کہ بابری مسجد پر ہتھوڑا چلانے کے ساتھ ہی ان کی بے چینی بڑھ گئی لیکن مسلمانوں کے بارے میں دل ودماغ میں بھری نفرت نے مسجد پر مزید وار کرنے پر اکسایا اور اس درمیان طبیعت مزید بگڑی اور دوستوں نے مسجد کی شہادت کے بعد پانی پت منتقل کیا، جہاں وہ دو اینٹ بھی ساتھ لے گئے جو کہ ابھی شیوسینا کے مقامی دفترمیں رکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد کو میری اس حرکت کا پتہ چلا تو انہوں نے گھر کے دروازے مجھ پر بند کر دیے اور کہا کہ ایک استاد کے بیٹے نے ایک غلط کام میں حصہ لیا۔ محمد عامر نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد میرا ہر طرف استقبال کیا جاتا لیکن میرے دل کو کسی طرح سے چین نہیں تھا۔

میں نے دماغی حالت بگڑنے کے ڈر سے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے مجھ پر واضح کر دیا کہ میری یہ بے چینی موت کا باعث بن سکتی ہے۔ محمد عامر نے دل دہلا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ بابری مسجد کی شہادت میں شامل ان کا ایک ساتھی پاگل ہو گیا تھا۔ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو دیکھ کر کپڑے پھاڑنے لگتا تھا۔ محمد عامر نے بتایا کہ جب تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کر کے خود کو اسلام میں داخل کر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میرے ساتھیوں کو پتہ چلا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو 27 کارسیوکوں نے میرا ساتھ دیتے ہوئے خود کو مسلمان بنا لیا۔ محمد عامر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد 100 مساجد کو تعمیر کرنے کا عزم کیا تھا جس میں سے وہ اب تک 35 مساجد تعمیر کرا چکے ہیں۔سبحان اللہ سبحان اللہ ۔

جہاں تک ہمارے بھائی محمد عامر کی بے چینی اور تشویش کا تعلق ہے تو اہل علم جانتے ہیں حقیقی سکون صرف ” ذکر خدا ” میں ہے ۔ حقیقی راحت، حقیقی سکون کو سمجھنے کے لئے ایک واقعہ سیرت النی ۖکا نقل ہے کہ ” سب سے اچھا نمونہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی سیرت ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ہجرت کے موقع پر تو خون کے پیاسے لوگ آپ کو تلاش کرتے ہوئے غار ثور تک آپہنچے۔ آپ کے ساتھ سوائے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اور کوئی نہ تھا۔ مگرآپ اس موقع پر ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی طرف سے فکرمند ہوئے تو آپ نے ان کو اس طرح تسلی دی کہ اے ابو بکر! ان دوکے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا رفیق خود اللہ ہے، (بخاری، رقم 3453)۔”

ہمارے نومولود مسلم بھائی ۔
قرآن نے اس بات کوواضح کیا ہے کہ اطمینان قلب کی وہ کیفیت جس میں انسان کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی اندیشہ،اللہ کے دوستوں کو عطا کی جاتی ہے۔فرمایا: ”سن لو کہ اللہ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف ہے اور نہ کوئی اندیشہ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ان کے لیے خوشخبری ہے،دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔(یونس 10:62ـ64)”

دعا ہے اللہ پاک محمد عامر اوران کے وہ ساتھی جن کو ” سچی توبہ” نصیب ہوئی ہے۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی اور دونوں جہان میں سکون اور ایمان کی دولت سے مالا مال کرے آمین۔ محمد عامر اور آپ کے دین فطرت کے رفقا کو ” دین اسلام ” بہت بہت مبارک ہو

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا