قربانی سنتِ ابراہیم علیہ السلام

Qurbani

Qurbani

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
امتِ مسلمہ ہر سال عید قربان پر سنتِ ابرا ہیم علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور یہ عمل پوری دنیا میںجہا ں جہاں مسلمان آباد ہیں تسلسل سے ہو رہا ہے ۔ اللہ نے جانوروں کو انسانوں کے لئے مسخر کر دیا یعنی بے زبان کر دیا۔ مسلمان جانوروں کی جو قربانی کرتے ہیںاللہ کو ان کی قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون بلکہ اللہ کو صرف انسان کا تقویٰ پہنچتا ہے۔عرب کے لوگ اس سے قبل جو قربانی کرتے تھے اس کا گوشت خانہ کعبہ کی دیواروں کے ساتھ لاکر رکھ دیتے تھے قربانی کے جانوروں کا خون کعبہ کی دیواروں پر مل دیتے تھے۔ اس پر کہا گیا ہے کہ ا للہ کو گوشت اور خون کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کے تقویٰ کی ضرورت ہے۔

تقویٰ کیا ہے کہ انسان دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہو ئی باتوں پر عمل کر ے ایک حدیث رسول اللہ ۖ کے ذریعے سمجھایا گیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ انسان جب کسی کھیت کی پکڈنڈی سے گزرتا ہے جس کے سائڈوں پر کانٹوں کی باڑ ہوتی ہے تو انسان اپنے پلو کو پکڑ کر کانٹوںسے بچ بچا کر گزرتا ہے۔ یہی مثال یہاںاس دنیا کی ہے کہ یہاں گناہ بھی ہیں اورنیکیاں بھی انسان اپنے آپ کو گنائوں سے بچاکر زندگی گزارے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔قرآن شریف میں کہا گیا ہے کہ ہر”امّت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تا کہ( اُس امّت )کے لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اِنکو بخشے ہیں” ( ا لحج ٣٤)ا سب سے بڑی قربانی دینے والے حضرت ا براہیم کو اللہ نے دنیا کا امام بنایا تھا۔

ابراہیم پر اللہ کی طرف سے عالمگیر دعوت کی ذمہ داری تھی۔ عر ا ق میں اُر کے مقام سے قاہرہ ، شام، مکہ،فلسطین جبُرون عرب کے ملکوں تک سفر کیا ۔ حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل مکہ میں، حضرت اسحاق فلسطین میں اور حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط سدوم میں حضرت ابراہیم کی ہدایت کے مطابق اللہ کے دین کے لیے کام کرتے رہے ۔ اللہ کی آزمائشوںمیں ابراہیم پور ے اُترے ۔نمرود سے مباحثہ کیا۔ ابراہیم نے اللہ سے دعُا مانگی اے پروردگار مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔اُ س د ُعا کے بدلے میں اللہ نے اُس کو ا یک حلیم برُدبار لڑکے کی بشارت دی۔اورحضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔قرآن شریف میں ہے۔ ” وہ لڑکا جب اِس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا گیا تو(ایک روز) ابراہیم نے اس سے کہا، بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر ہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے۔ اُس نے کہا ابّا جان جو کچھ آپ کو حکم دیاجارہا ہے کر ڈالیے آپ مجھے صابروں میں پائیںگے۔ آخر میں ان دونوںنے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم اپنے بیٹے کو ماتھے کے بَل گرِ ا دیا۔ اور ہم نے ندا دِی کہ اَے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔

یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فد یے میں دے کر اِس بچے کو چھڑا لیا۔ اوراُسکی تعریف اور توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میںچھوڑدی۔ سلام ہے ابراہیم پر۔ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا اور ہم نے اُسے اسحاق کی بشارت دی ۔ایک بنی صالحین میں سے ۔ اسے اور اسحاق کو برکت دی اَب اُن دونوں کی ذرےّت میں سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا ”۔ (سورة الصفٰت١٠١تا١١٣) حضرت ابراہیم کے دور میں پتھر کے بت بنا کر اس کی پوجا کی جاتی تھی اور ایک بہت بڑا بت گھر بنایا ہوا تھا جس میں بہت سے بت رکھے ہوئے تھے۔ ابراہیم ان بتوں سے نالاں تھے۔توحید کے بارے میں اپنے باپ سے نالاں تھے۔قوم سے بتوں کے معاملے میں مناظرہ کیا۔ نمرود بادشاہِ وقت سے مناظرہ کیا۔ قرآن شریف میں ہے۔ ”اور اس کتاب میں ابراہیم کا قصّہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہاکہ اباّ جان آ پ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ اباّ جان میرے پاس ایک ایساعلم آیا ہے جو آ پ کے پاس نہیں آیا۔آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھا راستہ بتاوں گا۔ ابّا جان آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے۔ ابا جان ،مجھے ڈر ہے کہیں آپ رحمان کے عذاب میں مبتلانہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کے رہیں ۔باپ نے کہا ابراہیم کیا تُو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے ؟ اگر باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا ۔بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے ا لگ ہو جا ۔ ابراہیم نے کہا سلام ہے آپ کو ۔میں اپنے ربّ سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے۔میرا ربّ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اوراُن ہستیوں کو بھی، جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو۔ میں تو اپنے ربّ کو پکاروں گا اُمید ہے میں اپنے ربّ کو پکار کرنامراد نہ رہوں گا۔پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُنکے معبودوںِغیر اللہ سے ُجدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو بنی بنایا اور اِن کو اپنی رحمت سے نوازا اور اِن کو سچی نام وَری عطا کی” ( مریم٤١ تا ٥٠) حضرت ابراہیم مکے گئے اسمٰعیل کی ولادت ہوئی،خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور قربانی کی۔ لاکھوں مسلمان حج کے موقعہ پر قربانی کرتے ہیں بلکہ ہر سال ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان سنت ابراہیم پر عمل کرتے ہیں اور رہتی دنیا تک اس سنت پر عمل ہوتا رہے گا ۔یہ ہے احسان ربّ کی طرف سے اپنے نیک بندوں پر….. حدیث رسول اللہ ۖ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہدی اس جانور کو کہتے ہیں جو کہ قربانی کے لیے مکہ میں روانہ کیا جائے اور تقلید کہتے ہیں اس جانور کے گلے میں کوئی چیز لٹکا دی جائے جس سے معلوم ہو کہ یہ جانور ہدی کا ہے …موطاامام مالک میںیحےٰی بن سعید سے روایت ہے انہوں نے پوچھا عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے کہ جو شخص ہدی روانہ کرے مگر خود نہ جائے کیا اس پر کچھ لازم ہوتا ہے وہ بولیں میں نے حضرت عائشہ سے سنا ،کہتی تھیں محرم نہیں ہوتا مگر جو شخص احرام باندھے اور لبیک کہے اس سے معلوم ہوا ہدی روانہ کرنے والا محرم نہیں ہوتا بلکہ اگر خود اس کے ساتھ ہو جائے تو محرم ہو جاتا ہے۔ یہی قول اکثر علماء کا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے براد بن عازب کہتے ہیں کہ رسولۖ اللہ نے فرمایا سب سے پہلا کام جس سے ہم آج کے روز کی ابتدا کرتے وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں پھر جا کر قربانی کرتے ہیں جس نے اِس پر عمل کیا اُس نے ہمارے طریقے کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا تو اُس کا شمار قربانی میں نہیں ہے بلکہ وہ ایک گوشت ہے جو اُس نے اپنے گھر والوں کے لیے مہیا کیا….. ایک دوسری حدیث میں آتا ہے،حضرت انس بن مالک کہتے ہیں حضور ۖ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔ یہ ہے قربانی جو اللہ کو قبول ہے جو اللہ اور اَس کے رسول ۖکے حکم کے مطابق ہے …..مسلم میں حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے قربانی کے دن حضرت عائشہ کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی…….حضرت جابر ہی صحیح مسلم میں کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم نے رسول اللہ ۖ کے ساتھ قربانی کی اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے یعنی اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات آدمی حصہ دار بن سکتے ہیں. ….بخاری اور مسلم میںحضرت علی سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول اللہ ۖنے حکم دیا کہ آپ ۖ کے اونٹوں کی خبر گیری کروںاور ان کے گوشت کو خیرات کر دوں اور چمڑا اور جھولیں بھی صدقہ کروں۔اور قصائی کی مزدوری اس سے نہ دوں رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا مزدوری ہم اپنے پاس سے دیں گے… یعنی اس سے معلوم ہو اکہ قربانی کے جانور کی اُجرت قصائی کو علیحدہ سے دینی چاہیے۔قارئین! مسلمان آج پوری دنیا میں اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا ہیں جبکہ اللہ کا قرآن ہمیں ہدایت دیتا ہے تم ہی غالب ہو گے اگر تم مومن ہو گے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں میں اولین مسلمانوں جیسے تقویٰ کی صفت پیدا کر دے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر سکیں آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ